انڈیا پاکستان تنازع: جنگ ہوئی تو امریکا اور چین پر کیا اثرات ہونگے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پہلگام واقعے کے بعد سے اب تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی جاری ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے نامور سپر اسٹارز کے سوشل میڈیا اکاونٹس بھی بلاک کیے جا رہے ہیں۔ یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ بھارت خطے میں بجائے امن کے جنگی صورتحال کو بڑھاوا دے رہا ہے جو کہ خطے اور پوری دنیا کے لیے نقصان کا باعث ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر بھارت کا جنگی جنون ختم نہ ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو گئی تو اس سے خطے میں کتنا نقصان ہو سکتا ہے اور اس کے چین اور امریکا پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ اس حوالے سے وی نیوز نے ماہرین سے ان کی رائے دریافت کی۔
امن سب کے مفاد میں ہے، سابق سفیر مسعود خالدسابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ ایک مکمل جنگ سے بچا جا سکے گا، کیونکہ یہ بھارت اور پاکستان بلکہ خطے اور پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور کوئی بھی تنازع غیر متوقع طور پر بڑھ سکتا ہے جس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری مشترکہ آبادی تقریباً 1.
انہوں نے بتایا کہ امریکا اور چین کے مفاد میں ہے کہ خطے میں امن قائم رہے۔ امریکا بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک اسٹریٹجک توازن کے طور پر دیکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ بھارت اس مقصد سے ہٹ کر تنازعات میں نہ الجھے۔ اسی طرح پاکستان اپنی اقتصادی ترقی پر توجہ دینا چاہتا ہے اور جنگ اس مقصد کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ لہٰذا امریکا اور چین دونوں کے پاس بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کو فروغ دینے کی مضبوط وجوہات ہیں۔
ایک سوال پر مسعود خالد کا کہنا تھا کہ ایک کھلی جنگ کے نتائج کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا کی جیو پولیٹیکل صورتحال میں ایک مستقل چیلنج ہے اور اس کا حل ہونا غیر یقینی ہے۔ تاہم، بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو کشمیریوں کی بڑھتی ہوئی بیگانگی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک فرضی جنگ تقریباً 1.5 بلین لوگوں کی مارکیٹ کو تباہ کر دے گی جو امریکا اور چین دونوں کے اقتصادی مفادات کے خلاف ہے لہٰذا امن سب کے مفاد میں ہے۔
جنگ شروع ہوئی تو قابو سے باہر ہوسکتی ہے، ریسرچر فیضان ریاضاسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ(اپری) کے اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ فیضان ریاض کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور ایک دوسرے کے ہمسایہ اور قریب ممالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو وہ بہت جلد قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے جو دونوں کے لیے بہت خطرناک ہوگی۔
فیضان ریاض نے کہا کہ بھارت کہتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں ’نو فرسٹ یوز‘ کی پالیسی پر عمل کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ بھارت صرف اسی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا اگر اس پر پہلے ایٹمی حملہ کیا جائے۔ دوسری طرف پاکستان اس پالیسی پر عمل نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا عام (غیر ایٹمی) فوجی طاقت میں پاکستان پر بہت زیادہ برتری ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایک طاقتور ہمسائے کے دباؤ میں نہیں آ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے اگر بھارت کبھی پاکستان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے، کراچی بندرگاہ کو بند کرے، یا پاکستان میں پانی کی آمد کو روکنے کی کوشش کرے تو پاکستان ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے، یہ اپنی حفاظت کا ایک مناسب طریقہ ہے تاکہ بھارت اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے اس واقعے پر فکرمند ہے اور بھارت کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کے خلاف ایک غیر جانبدار اور آزاد بین الاقوامی تحقیقات کے لیے تیار ہے جن میں کہا گیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کا آغاز نہیں کرے گا لیکن اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ بھرپور اور مناسب جواب دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان صورتحال کو قابو میں رکھے گا، جیسے کہ اس نے سنہ 2019 کے ’آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ‘ میں کیا تھا، جب اس نے ذمہ داری کے ساتھ جواب دیا اور کشیدگی کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔
فیضان ریاض نے کہا کہ عقلی انتخاب کے نظریے کے مطابق بھارت کی قیادت کو ہوش مندی سے کام لینا چاہیے اور پاکستان پر حملے سے گریز کرنا چاہیے، چاہے بھارتی میڈیا جنگی جنون میں مبتلا ہو کر حکومت پر ایسا قدم اٹھانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہو جو بھارت کے اپنے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو یہ دونوں ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی افواج نہ صرف بڑی ہیں بلکہ جدید ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں، اس لیے جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ دونوں ممالک کی آبادی بہت زیادہ ہے۔
فیضان ریاض نے کہا کہ جنگ کی صورت میں پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی معیشت بڑی ہے لیکن اسے بھی نقصان ہوگا کیونکہ غیر ملکی کمپنیاں جو بھارت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں وہ پیچھے ہٹ سکتی ہیں جس سے بھارت کی معاشی ترقی متاثر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سنہ 2019 کے بعد سے سفارتی تعلقات منجمد ہیں اور پہلگام حملے کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور اگر کشیدگی بڑھی تو تعلقات مزید خراب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال جنوبی ایشیا کے لیے اچھی نہیں ہے، یہ خطہ پہلے ہی دنیا کے سب سے کم جڑے اور کم تعاون کرنے والے خطوں میں سے ایک ہے اور جب 2 ایٹمی ہمسائے آپس میں بات چیت بھی نہ کر رہے ہوں تو خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر جنگ چھڑتی ہے تو امریکا اور چین دونوں کو مداخلت پر مجبور ہونا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات حالیہ برسوں میں بالکل واضح ہو چکی ہے کہ بھارت، امریکا کے کیمپ میں شامل ہے، کیونکہ امریکا کی پالیسی چین کو گھیرنے (Containment Policy) پر مبنی ہے اسی وجہ سے امریکا گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کو مضبوط کر رہا ہے اور اسے جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ امریکا چاہتا ہو کہ بھارت پاکستان کے خلاف پوری جارحیت دکھائے البتہ امریکا یہ ضرور چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات ختم کرے اور چین کے خلاف بھارت کے ساتھ اتحاد کرے جو کہ پاکستان کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف چین نے بھارت پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر پاکستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو خطرہ لاحق ہوا تو چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ کشمیر ہمیشہ پاکستان کی شہ رگ رہا ہے اور پاکستان نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کی ہمیشہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے، بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے اپنے وعدے پر پورا نہیں اتر سکی اور اگر اس بار جنگ چھڑتی ہے، تو یہ کہنا مشکل ہوگا کہ یہ جنگ مسئلہ کشمیر کو کسی فیصلہ کن انجام تک پہنچا سکے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ بھارت جموں و کشمیر پر غیر قانونی قابض ہے جو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بن چکا ہے اور جہاں بھارت نے 5 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں لیکن خصوصاً مغربی ممالک کے لیے بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے اس لیے وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے وہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف کوئی قرارداد منظور کرنے سے گریز کرتے ہیں، تاکہ بھارت ناراض نہ ہو۔ یوں وہ یہ معاملہ بھارت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ خود پاکستان کے ساتھ نمٹے۔
فیضان ریاض نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر پر پہلے ہی 3 جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن ان جنگوں کے باوجود کشمیر کا مستقبل نہ پاکستان اور نہ ہی بھارت کے حق میں فیصلہ کن طور پر طے ہو سکا اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ اگر اب کوئی محدود روایتی جنگ بھی ہوتی ہے تو وہ بھی مسئلہ کشمیر کو کسی واضح یا فیصلہ کن حل تک نہیں پہنچا سکے گی۔
جنگ خطے کے باہر بھی شدید تباہی لائے گی، پروفیسر عائشہ یونسقائداعظم یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشن کی پروفیسر عائشہ یونس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ خطے کی آبادی دنیا کی آبادی کے 25 فیصد ہے، جیسا کہ دنیا کی مجموعی آبادی 8 بلین سے زائد ہے، اس کا یہ 2.80 بلین بنتا ہے اور یہ خطہ کسی نہ کسی طرح سے آپس میں جڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ایک بہت بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان نظر آتا ہے اور اب تو جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ دونوں ممالک چونکہ نیوکلیئر پاور رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر نیوکلیئر جنگ ہوتی ہے تو اس سے انسانی نقصان تو ہوگا ہی مگر اس کے ساتھ اس خطے میں ایک طویل عرصے تک شاید کوئی ایگریکلچر نہیں ہو پائی گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پورا ماحولیاتی نظام تباہ ہو جائے گا۔ اس جنگ کے خطے میں بہت بڑے پیمانے پر نقصانات ہونگے اور لوگ شاید اس خطے میں رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
پاک بھارت جنگ کے چین اور امریکا پر اثرات کے حوالے سے عائشہ یونس کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کی جنگ خطے کے لیے مکمل تباہی ہے بلکہ خطے کے باہر بھی شدید تباہی کا سبب بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کا انحصار لیبر کے حوالے سے ایشیا پر ہے اور اس سے وہ بہت متاثر ہونے والے ہیں اور میرے خیال سے یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکا اور چین، پاکستان اور انڈیا کو پراکسی کی طرح تحفظ فراہم کریں گے کیونکہ ان دونوں ممالک کے لیے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان میں سے کون انڈیا پاکستان کے تنازع کو ختم کروانے میں مدد کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی ملک یہ مسئلہ سلجھانے کی کوشش کرے گا اس کا ظاہر ہے ایشیائی خطے پر کافی اثر پڑے گا کہ اس خطے میں کون سی پاور زیادہ اثر رکھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ اہم یہ ہوگا کہ کون سی پاور زیادہ امن کو فروغ دیتی ہے۔
مزید پڑھیں: مودی سے ملاقات کرنے والے وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے خود کو لعنت کا حقدار کیوں قرار دیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اور پاکستان کے درمیان فیضان ریاض نے کہا کہ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور پاکستان ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین کہ دونوں ممالک دونوں ممالک کے انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ ایٹمی ہتھیار ہے کہ بھارت پاکستان کی کہ امریکا ہے اور اس کہا کہ اس بھارت کے بھارت کی حوالے سے بھارت کو ہے کہ وہ کے خلاف نہیں ہے سکتا ہے کے ساتھ سکتی ہے ہیں اور کہ ایک رہا ہے چین کے کہ خطے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
امریکی ٹیرف اور پاکستان
پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اس پیش رفت کا تعلق تجارت اور معیشت سے ہے۔ امریکا نے ٹیرف کے معاملے میں پاکستان کا خیال رکھا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے پاکستانی مصنوعات پر 19فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے جو بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔
یوں پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے کم ٹیرف کا حامل ملک بن گیا ہے جو یقینا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ امریکا نے جو نئی ٹیرف فہرست جاری کی ہے، اس کے مطابق بھارت پر 25فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ یوں جنوبی ایشیا میں بھارت پر سب سے زیادہ شرح سے ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، ویتنام، تائیوان پر 20 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ امریکا کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ترجیحی پوزیشن حاصل ہوگئی ہے۔ جمعے کو وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں اس بات پر خوشی کا اظہارکیا گیا ہے کہ نیا ٹیرف امریکی حکام کی جانب سے ایک متوازن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے اور پاکستان کو جنوبی و جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ مسابقتی حیثیت فراہم کرتا ہے۔
ٹیرف کی یہ سطح پاکستان کی برآمدی استعداد بالخصوص ٹیکسٹائل کے شعبے کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو گی۔ موجودہ ٹیرف معاہدہ امریکی منڈی میں پاکستان کی موجودگی کو وسعت دینے کا ایک اہم موقع فراہم کرے گا۔ پاکستان پر امریکی ٹیرف کم شرح سے عائد ہونے کے سبب امریکا کو پاکستانی برآمدات میں 20فیصد تک اضافے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔ نئی ٹیرف ڈیل کے باعث امریکا کو نئی سرمایہ کاری کرنے پر ٹیکس رعایتیں بھی حاصل ہوں گی۔
امریکا کے ساتھ ٹریڈ ڈیل فائنل کرنے میں ایس آئی ایف سی کی معاونت کے ساتھ ساتھ یہ چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقاتوں، پاکستان کی مؤثر اور فعال خارجہ پالیسی کا بھی نتیجہ ہے۔ اس اہم پیش رفت میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈارکے امریکی حکام سے موثر رابطوں اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی کامیاب اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا بھی اہم کردار ہے۔
یوں دیکھا جائے تو حالیہ عرصے میں پاکستان نے جو سفارت کاری کی ہے اس کے اچھے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہوئے ہیں۔ امریکی حکومت نے دیگر ممالکت پر ٹیرف کی جو شرح رکھی ہے، اس کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی حکمت عملی کی کامیابی واضح ہوتی ہے۔ امریکی حکومت نے جنوبی افریقہ پر 30 فیصد، سوئٹزرلینڈ 39فیصد، ترکیہ اور اسرائیل 15فیصد،کینیڈا 35فیصد، برطانیہ، برازیل، فاک لینڈ آئی لینڈز 10فیصد، میانمار، لائوس 40فیصد، شام پر41 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ پاکستان انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا 19 فیصد ٹیرف والے ممالک میں شامل ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہونے کی توقع ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکی حکومت پاکستان پر ٹیرف کی شرح مزید کم کر دے۔
پاکستان اور چین کے درمیان بھی تعلقات میں بہتری ہو رہی ہے۔ یہ بھی پاکستان کی ایک کامیاب حکمت عملی ہے کہ اس نے امریکا کے ساتھ بھی ایک اچھا تعلق رکھا ہے جب کہ چین کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنایا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی مستحکم اور غیر متزلزل ہے، پاک فوج اور پی ایل اے سچے بھائی ہیں، ان کی پائیدار شراکت داری علاقائی استحکام کو فروغ دینے اور مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے قیام کی 98ویں سالگرہ کے موقع پر کیا۔ آئی ایس پی آرکے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے قیام کی 98ویں سالگرہ جمعے کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں منائی گئی۔ تقریب میں پاکستان میں تعینات چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات باہمی اعتماد، غیر متزلزل حمایت اور مشترکہ عزم کی مثال ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات منفرد اور ابھرتے ہوئے علاقائی اور عالمی چیلنجوں کے درمیان غیر معمولی طور پر لچکدار ہیں۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کے ثابت قدم کردار کا اعتراف کیا۔ چینی سفیر نے پاکستان کے ساتھ اپنی اسٹرٹیجک شراکت داری کے لیے چین کی غیر متزلزل حمایت اور عزم کا اعادہ کیا۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک انتہائی اہم ملک کے طور پر ابھرا ہے جب کہ بھارت کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔
بھارت اور امریکا کے درمیان بھی تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسینٹ نے کہا ہے کہ بھارت روس سے خام تیل خرید کر اسے ریفائن کرکے فروخت کرتا ہے جو عالمی برادری کی توقعات کے برعکس ہے۔ یوں بھارت خود کو ایک ذمے دار عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایک انٹرویو میں امریکی وزیرخزانہ نے کہا بھارت کے رویئے نے امریکا کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات کو غیریقینی بنا دیا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی پوری ٹیم بھارت کے موجودہ فیصلوں سے سخت مایوس ہے، مستقبل میں تجارتی معاہدے کا انحصار بھارت کے رویے پر ہوگا۔
برطانوی خبررساں ایجنسی نے ایک امریکی سینئر اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا اور انڈیا کے درمیان تجارتی معاہدے پر پہنچنے کے لیے اختلافات کو راتوں رات حل نہیں کیا جا سکتا۔ انڈیا کے ساتھ ہمارے چیلنجز یہ ہیں کہ انڈین مارکیٹ دیگر ممالک کے ساتھ کاروبار کے لیے زیادہ اوپن نہیں ہے۔ برکس کی رکنیت اور دیگر جغرافیائی سیاسی مسائل بھی ہیں۔
بھارت کے ساتھ امریکا کے اختلافات اب ڈھکے چھپے رہے ہیں۔
ادھر ایک اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے امریکا سے F-35 لڑاکا طیارے خریدنے میں عدم دلچسپی ظاہر کردی، بلومبرگ رپورٹ کے مطابق بھارت نے باضابطہ طور پر امریکی حکام کو فیصلے سے متعلق مطلع کر دیا ہے۔ نریندر مودی کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ٹرمپ نے بھارت کو جدید F-35 طیارے فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ بھارت کے وزیر تجارت پیوش گوئل نے کہا انڈیا اب نازک معیشت نہیں رہا، وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی صف بندیاں ایک بار پھر تبدیل ہو رہی ہیں۔ امریکا کے گہرے دوست اور اتحادی بھی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے مخمصے اور تحفظات کا شکار ہیں۔ برطانیہ اور فرانس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے حق میں نہیں ہیں۔ یورپی یونین اور برطانیہ نے یوکرین کے ایشو پر صدر ٹرمپ کا ساتھ نہیں دیا تھا اور بھارت کے ساتھ بھی یورپی یونین اچھے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ حال ہی میں بھارت اور برطانیہ کے درمیان بڑا تجارتی معاہدہ ہوا ہے۔
ادھر چین بھی امریکا کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے۔ ادھر امریکا کی طرف سے درجنوں ممالک پر بھاری ٹیکس عائد کرنے سے عالمی اسٹاک مارکیٹیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز بیشتر مارکیٹیں گری ہیں جب کہ تیل کی قیمتوں میں بھی کمی کا رجحان ہے۔ دوسری جانب کموڈیٹی مارکیٹس میں بھی مندی کا رجحان رہا، جہاں جمعرات کو ایک فیصد کمی کے بعد تیل کی قیمتوں میں مزید گراوٹ دیکھی گئی۔کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے امریکی صدر کی طرف سے ٹیرف عائد کرنے کے بعد اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔
امریکی فیصلے سے لکڑی،اسٹیل، ایلومینیم، اور گاڑیوں کے شعبے شدید متاثر ہوں گے۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسی یورپ کی صنعتوں کے لیے بھی کڑا امتحان ہے۔ صدرٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ ٹیرف1930 کی دہائی کے بعد بلند ترین ٹیرف ہیں۔ انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اینڈریو ولسن نے کہا ہے کہ امریکا سے تجارت کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے، یہ صورت حال شاید اسی وقت بدلے گی جب امریکی معیشت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں۔ اس عالمی منظرنامے کو دیکھا جائے تو دنیا ایک نئی تجارتی چپقلش کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
اس کے اثرات وسیع پیمانے پر بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ یہ بھی لازم ہے کہ کچھ عرصے کے بعد امریکی معیشت بھی اس تجارتی چپقلش کی لپیٹ میں آ جائے گی اور اس کے اثرات بھی امریکی عوام پر خصوصاً امریکا کی مڈل کلاس پر پڑیں گے۔