اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پہلگام واقعے کے بعد سے اب تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی جاری ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے نامور سپر اسٹارز کے سوشل میڈیا اکاونٹس بھی بلاک کیے جا رہے ہیں۔ یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ بھارت خطے میں بجائے امن کے جنگی صورتحال کو بڑھاوا دے رہا ہے جو کہ خطے اور پوری دنیا کے لیے نقصان کا باعث ثابت ہوسکتا ہے۔

اگر بھارت کا جنگی جنون ختم نہ ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو گئی تو اس سے خطے میں کتنا نقصان ہو سکتا ہے اور اس کے چین اور امریکا پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ اس حوالے سے وی نیوز نے ماہرین سے ان کی رائے دریافت کی۔

امن سب کے مفاد میں ہے، سابق سفیر مسعود خالد

سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ ایک مکمل جنگ سے بچا جا سکے گا، کیونکہ یہ بھارت اور پاکستان بلکہ خطے اور پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور کوئی بھی تنازع غیر متوقع طور پر بڑھ سکتا ہے جس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری مشترکہ آبادی تقریباً 1.

5 بلین ہے جو باہمی تباہی کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امریکا اور چین کے مفاد میں ہے کہ خطے میں امن قائم رہے۔ امریکا بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک اسٹریٹجک توازن کے طور پر دیکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ بھارت اس مقصد سے ہٹ کر تنازعات میں نہ الجھے۔ اسی طرح پاکستان اپنی اقتصادی ترقی پر توجہ دینا چاہتا ہے اور جنگ اس مقصد کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ لہٰذا امریکا اور چین دونوں کے پاس بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کو فروغ دینے کی مضبوط وجوہات ہیں۔

ایک سوال پر مسعود خالد کا کہنا تھا کہ ایک کھلی جنگ کے نتائج کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا کی جیو پولیٹیکل صورتحال میں ایک مستقل چیلنج ہے اور اس کا حل ہونا غیر یقینی ہے۔ تاہم، بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو کشمیریوں کی بڑھتی ہوئی بیگانگی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک فرضی جنگ تقریباً 1.5 بلین لوگوں کی مارکیٹ کو تباہ کر دے گی جو امریکا اور چین دونوں کے اقتصادی مفادات کے خلاف ہے لہٰذا امن سب کے مفاد میں ہے۔

جنگ شروع ہوئی تو قابو سے باہر ہوسکتی ہے، ریسرچر فیضان ریاض

اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ(اپری) کے اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ فیضان ریاض کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور ایک دوسرے کے ہمسایہ اور قریب ممالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو وہ بہت جلد قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے جو دونوں کے لیے بہت خطرناک ہوگی۔

فیضان ریاض نے کہا کہ بھارت کہتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں ’نو فرسٹ یوز‘ کی پالیسی پر عمل کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ بھارت صرف اسی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا اگر اس پر پہلے ایٹمی حملہ کیا جائے۔ دوسری طرف پاکستان اس پالیسی پر عمل نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا عام (غیر ایٹمی) فوجی طاقت میں پاکستان پر بہت زیادہ برتری ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایک طاقتور ہمسائے کے دباؤ میں نہیں آ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے اگر بھارت کبھی پاکستان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے، کراچی بندرگاہ کو بند کرے، یا پاکستان میں پانی کی آمد کو روکنے کی کوشش کرے تو پاکستان ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے، یہ اپنی حفاظت کا ایک مناسب طریقہ ہے تاکہ بھارت اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے اس واقعے پر فکرمند ہے اور بھارت کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کے خلاف ایک غیر جانبدار اور آزاد بین الاقوامی تحقیقات کے لیے تیار ہے جن میں کہا گیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کا آغاز نہیں کرے گا لیکن اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ بھرپور اور مناسب جواب دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان صورتحال کو قابو میں رکھے گا، جیسے کہ اس نے سنہ 2019 کے ’آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ‘ میں کیا تھا، جب اس نے ذمہ داری کے ساتھ جواب دیا اور کشیدگی کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔

فیضان ریاض نے کہا کہ عقلی انتخاب کے نظریے کے مطابق  بھارت کی قیادت کو ہوش مندی سے کام لینا چاہیے اور پاکستان پر حملے سے گریز کرنا چاہیے، چاہے بھارتی میڈیا جنگی جنون میں مبتلا ہو کر حکومت پر ایسا قدم اٹھانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہو جو بھارت کے اپنے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو یہ دونوں ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی افواج نہ صرف بڑی ہیں بلکہ جدید ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں، اس لیے جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ دونوں ممالک کی آبادی بہت زیادہ ہے۔

فیضان ریاض نے کہا کہ جنگ کی صورت میں پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی معیشت بڑی ہے لیکن اسے بھی نقصان ہوگا کیونکہ غیر ملکی کمپنیاں جو بھارت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں وہ پیچھے ہٹ سکتی ہیں جس سے بھارت کی معاشی ترقی متاثر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سنہ 2019 کے بعد سے سفارتی تعلقات منجمد ہیں اور پہلگام حملے کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور اگر کشیدگی بڑھی تو تعلقات مزید خراب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال جنوبی ایشیا کے لیے اچھی نہیں ہے، یہ خطہ پہلے ہی دنیا کے سب سے کم جڑے اور کم تعاون کرنے والے خطوں میں سے ایک ہے اور جب 2 ایٹمی ہمسائے آپس میں بات چیت بھی نہ کر رہے ہوں تو خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر جنگ چھڑتی ہے تو امریکا اور چین دونوں کو مداخلت پر مجبور ہونا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات حالیہ برسوں میں بالکل واضح ہو چکی ہے کہ بھارت، امریکا کے کیمپ میں شامل ہے، کیونکہ امریکا کی پالیسی چین کو گھیرنے (Containment Policy) پر مبنی ہے اسی وجہ سے امریکا گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کو مضبوط کر رہا ہے اور اسے جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ امریکا چاہتا ہو کہ بھارت پاکستان کے خلاف پوری جارحیت دکھائے البتہ امریکا یہ ضرور چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات ختم کرے اور چین کے خلاف بھارت کے ساتھ اتحاد کرے جو کہ پاکستان کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف چین نے بھارت پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر پاکستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو خطرہ لاحق ہوا تو چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ کشمیر ہمیشہ پاکستان کی شہ رگ رہا ہے اور پاکستان نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کی ہمیشہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے، بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے اپنے وعدے پر پورا نہیں اتر سکی اور اگر اس بار جنگ چھڑتی ہے، تو یہ کہنا مشکل ہوگا کہ یہ جنگ مسئلہ کشمیر کو کسی فیصلہ کن انجام تک پہنچا سکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ بھارت جموں و کشمیر پر غیر قانونی قابض ہے جو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بن چکا ہے اور جہاں بھارت نے 5 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں لیکن خصوصاً مغربی ممالک کے لیے بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے  اس لیے وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے وہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف کوئی قرارداد منظور کرنے سے گریز کرتے ہیں، تاکہ بھارت ناراض نہ ہو۔ یوں وہ یہ معاملہ بھارت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ خود پاکستان کے ساتھ نمٹے۔

فیضان ریاض نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر پر پہلے ہی 3 جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن ان جنگوں کے باوجود کشمیر کا مستقبل نہ پاکستان اور نہ ہی بھارت کے حق میں فیصلہ کن طور پر طے ہو سکا اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ اگر اب کوئی محدود روایتی جنگ بھی ہوتی ہے تو وہ بھی مسئلہ کشمیر کو کسی واضح یا فیصلہ کن حل تک نہیں پہنچا سکے گی۔

جنگ خطے کے باہر بھی شدید تباہی لائے گی، پروفیسر عائشہ یونس

قائداعظم یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشن کی پروفیسر عائشہ یونس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ خطے کی آبادی دنیا کی آبادی کے 25 فیصد ہے، جیسا کہ دنیا کی مجموعی آبادی 8 بلین سے زائد ہے، اس کا یہ 2.80 بلین بنتا ہے اور یہ خطہ کسی نہ کسی طرح سے آپس میں جڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ایک بہت بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان نظر آتا ہے اور اب تو جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ دونوں ممالک چونکہ نیوکلیئر پاور رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر نیوکلیئر جنگ ہوتی ہے تو اس سے انسانی نقصان تو ہوگا ہی مگر اس کے ساتھ اس خطے میں ایک طویل عرصے تک شاید کوئی ایگریکلچر نہیں ہو پائی گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پورا ماحولیاتی نظام تباہ ہو جائے گا۔ اس جنگ کے خطے میں بہت بڑے پیمانے پر نقصانات ہونگے اور لوگ شاید اس خطے میں رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

پاک بھارت جنگ کے چین اور امریکا پر اثرات کے حوالے سے عائشہ یونس کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کی جنگ خطے کے لیے مکمل تباہی ہے بلکہ خطے کے باہر بھی شدید تباہی کا سبب بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کا انحصار لیبر کے حوالے سے ایشیا پر ہے اور اس سے وہ بہت متاثر ہونے والے ہیں اور میرے خیال سے یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکا اور چین، پاکستان اور انڈیا کو پراکسی کی طرح تحفظ فراہم کریں گے کیونکہ ان دونوں ممالک کے لیے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان میں سے کون انڈیا پاکستان کے تنازع کو ختم کروانے میں مدد کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی ملک یہ مسئلہ سلجھانے کی کوشش کرے گا اس کا ظاہر ہے ایشیائی خطے پر کافی اثر پڑے گا کہ اس خطے میں کون سی پاور زیادہ اثر رکھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ اہم یہ ہوگا کہ کون سی پاور زیادہ امن کو فروغ دیتی ہے۔
مزید پڑھیں: مودی سے ملاقات کرنے والے وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے خود کو لعنت کا حقدار کیوں قرار دیا

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور پاکستان کے درمیان فیضان ریاض نے کہا کہ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور پاکستان ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین کہ دونوں ممالک دونوں ممالک کے انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ ایٹمی ہتھیار ہے کہ بھارت پاکستان کی کہ امریکا ہے اور اس کہا کہ اس بھارت کے بھارت کی حوالے سے بھارت کو ہے کہ وہ کے خلاف نہیں ہے سکتا ہے کے ساتھ سکتی ہے ہیں اور کہ ایک رہا ہے چین کے کہ خطے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ملائشیا انڈیا سے پہلگام واقعہ کی بین الاقوامی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کرے، وزیراعظم شہباز کی درخواست

سٹی 42:  وزیر اعظم شہباز شریف نے ملائیشیاکے وزیر اعظم داتو سری انور ابراہیم کو  بھارت کے اشتعال انگیز رویے کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں موجودہ کشیدگی سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ ملائشیا بھارت پر پہلگام واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کروانے کا مطالبہ کرے۔ انہوں نے ملائشیا سے  بھی اس تحقیقات میں شامل ہونے کی بھی درخواست کی۔

شہباز شریف نے آج اتوار کے روز ملائشیا کے وزیراعظم کو فون کال کی اور انہین صورتحال سے آگاہ کیا۔ 

پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز اور کراچی کنگز میں آج جوڑ پڑے گا

شہباز شریف نےپہلگام مین سیاحوں کے قتل کے واقعہ کو  بغیر کسی ثبوت کے  پاکستان کو جوڑنے کی کوشش کو مسترد کر دیا اور اس واقعے کے پس پردہ حقائق کا پتہ لگانے کے لیے بین الاقوامی تحقیقات کے لیے پاکستان کی پیشکش کو دہرایا۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان ان تحقیقات میں ملائیشیا  کی شرکت کا خیر مقدم کرے گا۔

 وزیر اعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر پاکستان کے کردار اور اس کوشش میں اس کی زبردست قربانیوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے اقدامات پاکستان کی مغربی سرحد پر انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔پاکستان بھارت کے ساتھ  اس طرح کے تنازعہ میں الجھنا نہیں چاہتا۔

9سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرنے والا ملزم عمر گرفتار

دونوں وزرائے اعظم نے پاکستان ملائیشیا  تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے اپنے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔ اس تناظر میں وزیراعظم نے بتایا کہ وہ اس سال  ملائیشیاء کا سرکاری دورہ کرنے کے منتظر ہیں۔ یہ ٹیلی فون کال پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان قریبی دوستی کی عکاس ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفت پر رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔

بانی پی ٹی آئی آج بھی مقبول لیڈر ہیں:مسرت چیمہ

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے، جنگ ہوئی تو قابو سے باہر ہوگی، امریکی کانگریس مین
  • ملائشیا انڈیا سے پہلگام واقعہ کی بین الاقوامی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کرے، وزیراعظم شہباز کی درخواست
  • پاک بھارت جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے، جنگ ہوئی تو کنٹرول سے باہر ہو جائیگی، امریکی کانگریس مین
  • انڈیا پاکستان تنازعہ: جنگ ہوئی تو امریکا اور چین پر کیا اثرات ہونگے؟
  • پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو قابو سے باہر ہوگی، امریکا اسے روکے، کانگریس اراکین
  • خود چھیڑی ہوئی پروپیگنڈا  کی جنگ میں  انڈیا کی کرکری ہو گئی
  • دنیا کے اہم ممالک کوشش میں ہیں کہ پاک بھارت تنازع آگے نہ بڑھے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • انڈین بیانئے کی حمایت کرنے والے مسلمانوں کے دشمن تصور ہونگے، ایمان شاہ
  • ہم امن کے خواہاں ہیں اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے،سفیر پاکستان