روس سے تیل کی خریداری جاری رہے گی، امریکی دباؤ کے باوجود انڈیا کا دوٹوک مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
امریکا کی جانب سے ماسکو سے تجارت کرنے والوں پر پابندیوں کی دھمکی کے باوجود بھارتی حکام نے واضح کیا ہے کہ روس سے سستا خام تیل خریدنے کا سلسلہ جاری رہے گا، اور تیل کی درآمدات میں کسی قسم کی رکاوٹ کا کوئی امکان نہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق انڈین میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ بھارتی ریفائنریز امریکی دباؤ کے پیش نظر روسی تیل کی خریداری بند کرنے پر غور کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا دعویٰ:’سنا ہے بھارت اب روسی تیل نہیں خریدے گا ‘، بھارتی حکام کا اظہارِ لاعلمی
اس تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہاکہ اگر بھارت روسی تیل کی درآمد روک دیتا ہے تو یہ خوش آئند اقدام ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ میری معلومات کے مطابق انڈیا اب روس سے تیل نہیں خریدے گا، اگر ایسا ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
تاہم خبر رساں ادارے اے این آئی نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے روس سے خام تیل کی خریداری بند نہیں کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع نے واضح کیا کہ درآمدی فیصلے قیمت، معیار، لاجسٹکس اور مارکیٹ کی ضروریات جیسے معاشی عوامل کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکا نے یوکرین جنگ کے تناظر میں روس کے ساتھ تجارت جاری رکھنے والے ممالک پر سخت اقتصادی اقدامات کی دھمکی دی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے روسی اسلحہ اور توانائی کی خریداری جاری رکھنے پر بھارت سمیت دیگر ممالک کی مصنوعات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف لگانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن کو 8 اگست تک یوکرین میں جنگ ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔
ادھر روئٹرز کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارتی ریفائنریز نے قیمتوں میں کمی اور پابندیوں کے خطرے کے پیش نظر روسی تیل کی خریداری وقتی طور پر معطل کردی ہے۔ تاہم ہفتے کے روز نیویارک ٹائمز نے دو اعلیٰ بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا کہ مودی حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور تیل کمپنیوں کو خریداری روکنے کے لیے کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے۔
بھارتی حکام نے وضاحت دی کہ روس کے ساتھ طویل مدتی تیل معاہدے موجود ہیں، جنہیں راتوں رات معطل کرنا عملی طور پر ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ بھارتی ریفائنریز بین الاقوامی ضوابط کے مطابق کام کرتی ہیں اور روسی تیل کی خریداری پر امریکا یا یورپی یونین کی جانب سے براہِ راست کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، بلکہ اسے جی سیون اور یورپی یونین کی مقرر کردہ قیمت کے ڈھانچے سے مشروط کیا گیا ہے، جس کا مقصد روس کی آمدنی کو محدود کرتے ہوئے عالمی تیل کی فراہمی کو برقرار رکھنا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ بھارت کی روسی تیل کی خریداری نہ صرف قانونی ہے بلکہ بین الاقوامی اصولوں کے دائرے میں رہ کر کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیاکہ اگر بھارت اوپیک پلس ممالک کے علاوہ روس سے بھی یومیہ 58 لاکھ بیرل تیل نہ خریدتا تو مارچ 2022 میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 137 ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کر جاتیں۔
روس اس وقت بھارت کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو ملک کی مجموعی درآمدات کا قریباً 35 فیصد فراہم کرتا ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق توانائی کے ایک بڑے صارف ملک ہونے کے ناطے انڈیا کو سب سے کم قیمت پر وسائل حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اپنی عوام کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
جمعے کے روز بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہاکہ بھارت عالمی منڈی کی صورت حال، دستیاب مواقع اور موجودہ جغرافیائی سیاسی حالات کا جائزہ لے کر فیصلے کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا دعویٰ:’سنا ہے بھارت اب روسی تیل نہیں خریدے گا ‘، بھارتی حکام کا اظہارِ لاعلمی
انہوں نے مزید کہاکہ روس کے ساتھ بھارت کی شراکت داری وقت کی آزمائش پر پوری اتری ہے اور اسے مستقبل میں بھی برقرار رکھا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا امریکی دھمکی بھارت تیل خریداری روس روس سے تیل کی خریداری وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی دھمکی بھارت تیل خریداری روس سے تیل کی خریداری وی نیوز روسی تیل کی خریداری بھارتی حکام کے مطابق انہوں نے کہ بھارت
پڑھیں:
بھارت سے اختلاف صرف روسی تیل خریدنے پر نہیں ہے، امریکہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اگست 2025ء) امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کے روز کہا کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خرید و فروخت سے یوکرین کے خلاف جنگ کی کوششوں میں ماسکو کو مدد مل رہی ہے اور یہ واشنگٹن کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات میں "یقیناً اختلاف کا ایک نقطہ" ہے، تاہم بات صرف اسی مسئلے تک محدود نہیں ہے۔
فوکس ریڈیو کے ساتھ روبیو کے انٹرویو کو بھارتی میڈیا نے بھی تفصیل سے شائع کیا ہے، جس میں امریکی وزیر نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ اس حقیقت سے مایوس ہیں کہ بھارت روس سے تیل خریدنا جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ اسے بہت سے دیگر دوسرے تیل فروخت کرنے والے دستیاب بھی ہیں۔
بھارت کے تیل خریدنے سے روس کو جنگ میں مددانہوں نے کہا بھارت روسی تیل خرید کر یوکرین کے خلاف ماسکو کی جنگی کوششوں کو فنڈ دینے میں مدد کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، "بھارت کو توانائی کی بہت زیادہ ضروریات ہیں اور اس میں تیل اور کوئلہ اور گیس خریدنے کی صلاحیت اور وہ چیزیں شامل ہیں جن کی اسے ہر ملک کی طرح اپنی معیشت کو طاقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ اسے روس سے خریدتا ہے، کیونکہ روسی تیل پر پابندیاں عائد ہیں اور اسی وجہ سے وہ سستا بھی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "بدقسمتی سے اس سے روس کی جنگی کوششوں کو برقرار رکھنے میں مدد مل رہی ہے۔
لہٰذا یہ یقینی طور پر بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات میں چڑچڑاپن کا ایک نقطہ ہے، تاہم اختلافات کا یہ واحد نقطہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ان کے ساتھ اختلافات کے بہت سے دیگر نکات بھی ہیں۔" تجارتی معاہدے میں اہم رکاوٹ کیا ہیں؟مارکو روبیو نے کہا کہ تضاد کے سب سے بڑے نکات میں سے ایک وہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت اور امریکہ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے سے ناکام رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ بھارت اپنی زراعت اور ڈیری کے شعبوں کو کھولنے کے لیے مضبوط مزاحمت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت کی زرعی منڈی، خاص طور پر جی ایم (جنییاتی طور پر تبدیل شدہ) فصلوں، ڈیری، اور مکئی، سویابین، سیب، بادام اور ایتھنول جیسی مصنوعات کے لیے زیادہ سے زیادہ رسائی دینے کے لیے بھارت پر زور دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی کمپنیاں ان حساس شعبوں میں ٹیرفس کم کرنے کے لیے بھی بھارت سے اصرار کر رہی ہیں۔
لیکن نئی دہلی کا استدلال ہے کہ ملک میں سستی، سبسڈی والے ایسے امریکی سامان کی اجازت دینے سے لاکھوں چھوٹے کسانوں کی آمدن کو نقصان پہنچے گا۔
بھارت نے امریکہ سے کہا ہے کہ ڈیری، چاول، گندم اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (جی ایم) فصلوں جیسے مکئی اور سویابین پر محصولات کو کم کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق اس طرح کے اقدام سے تقریبا 70 کروڑ بھارت کے دیہی لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جن میں تقریباً 80 ملین چھوٹے ڈیری فارمرز بھی شامل ہیں۔
امریکہ زرعی اور ڈیری مصنوعات کے علاوہ دیگر مصنوعات کی وسیع رینج میں بھارتی مارکیٹ تک بہتر رسائی کے لیے بھی زور دے رہا ہے۔
اس میں ایتھنول، سیب، بادام، آٹوز، طبی آلات، دواسازی کے ساتھ ساتھ الکحل مشروبات بھی شامل ہیں۔امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت اپنی نان ٹیرفس رکاوٹوں کو کم کرے، کسٹم کے قوانین کو آسان بنائے، اور ڈیٹا اسٹوریج، پیٹنٹ اور ڈیجیٹل تجارت کے قوانین میں بھی نرمی کرے۔
ادارت: جاوید اختر