ٹرمپ کی ٹیرف دھمکی کے بعد بھارت نے امریکا سے F-35 طیارے نہ خریدنے کا فیصلہ کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے باضابطہ طور پر امریکی حکام کو مطلع کیا ہے کہ وہ اب ففتھ جنریشن F-35 اسٹیلتھ لڑاکا جیٹ خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی کے بعد امریکا سے F-35 لڑاکا طیارے خریدنے میں عدم دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے باضابطہ طور پر امریکی حکام کو مطلع کیا ہے کہ وہ اب ففتھ جنریشن F-35 اسٹیلتھ لڑاکا جیٹ خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں وزیراعظم نریندر مودی کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے بھارت کو جدید F-35 طیارے فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی، جس پر بھارتی حکومت نے اس وقت غور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت فی الحال امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور دوطرفہ تجارتی مذاکرات جاری رکھنا چاہتا ہے، تاہم دفاعی خریداری کی فہرست سے F-35 طیاروں کو نکال دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت اب امریکا سے کچھ دیگر تجارتی اشیاء کی خریداری بڑھانے پر غور کر رہا ہے تاکہ تعلقات متوازن رہیں، مگر دفاعی سازو سامان خاص طور پر F-35 طیارے اب اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بھارت نے
پڑھیں:
بھارت سے اختلاف صرف روسی تیل خریدنے پر نہیں ہے، امریکہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اگست 2025ء) امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کے روز کہا کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خرید و فروخت سے یوکرین کے خلاف جنگ کی کوششوں میں ماسکو کو مدد مل رہی ہے اور یہ واشنگٹن کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات میں "یقیناً اختلاف کا ایک نقطہ" ہے، تاہم بات صرف اسی مسئلے تک محدود نہیں ہے۔
فوکس ریڈیو کے ساتھ روبیو کے انٹرویو کو بھارتی میڈیا نے بھی تفصیل سے شائع کیا ہے، جس میں امریکی وزیر نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ اس حقیقت سے مایوس ہیں کہ بھارت روس سے تیل خریدنا جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ اسے بہت سے دیگر دوسرے تیل فروخت کرنے والے دستیاب بھی ہیں۔
بھارت کے تیل خریدنے سے روس کو جنگ میں مددانہوں نے کہا بھارت روسی تیل خرید کر یوکرین کے خلاف ماسکو کی جنگی کوششوں کو فنڈ دینے میں مدد کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، "بھارت کو توانائی کی بہت زیادہ ضروریات ہیں اور اس میں تیل اور کوئلہ اور گیس خریدنے کی صلاحیت اور وہ چیزیں شامل ہیں جن کی اسے ہر ملک کی طرح اپنی معیشت کو طاقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ اسے روس سے خریدتا ہے، کیونکہ روسی تیل پر پابندیاں عائد ہیں اور اسی وجہ سے وہ سستا بھی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "بدقسمتی سے اس سے روس کی جنگی کوششوں کو برقرار رکھنے میں مدد مل رہی ہے۔
لہٰذا یہ یقینی طور پر بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات میں چڑچڑاپن کا ایک نقطہ ہے، تاہم اختلافات کا یہ واحد نقطہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ان کے ساتھ اختلافات کے بہت سے دیگر نکات بھی ہیں۔" تجارتی معاہدے میں اہم رکاوٹ کیا ہیں؟مارکو روبیو نے کہا کہ تضاد کے سب سے بڑے نکات میں سے ایک وہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت اور امریکہ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے سے ناکام رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ بھارت اپنی زراعت اور ڈیری کے شعبوں کو کھولنے کے لیے مضبوط مزاحمت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت کی زرعی منڈی، خاص طور پر جی ایم (جنییاتی طور پر تبدیل شدہ) فصلوں، ڈیری، اور مکئی، سویابین، سیب، بادام اور ایتھنول جیسی مصنوعات کے لیے زیادہ سے زیادہ رسائی دینے کے لیے بھارت پر زور دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی کمپنیاں ان حساس شعبوں میں ٹیرفس کم کرنے کے لیے بھی بھارت سے اصرار کر رہی ہیں۔
لیکن نئی دہلی کا استدلال ہے کہ ملک میں سستی، سبسڈی والے ایسے امریکی سامان کی اجازت دینے سے لاکھوں چھوٹے کسانوں کی آمدن کو نقصان پہنچے گا۔
بھارت نے امریکہ سے کہا ہے کہ ڈیری، چاول، گندم اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (جی ایم) فصلوں جیسے مکئی اور سویابین پر محصولات کو کم کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق اس طرح کے اقدام سے تقریبا 70 کروڑ بھارت کے دیہی لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جن میں تقریباً 80 ملین چھوٹے ڈیری فارمرز بھی شامل ہیں۔
امریکہ زرعی اور ڈیری مصنوعات کے علاوہ دیگر مصنوعات کی وسیع رینج میں بھارتی مارکیٹ تک بہتر رسائی کے لیے بھی زور دے رہا ہے۔
اس میں ایتھنول، سیب، بادام، آٹوز، طبی آلات، دواسازی کے ساتھ ساتھ الکحل مشروبات بھی شامل ہیں۔امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت اپنی نان ٹیرفس رکاوٹوں کو کم کرے، کسٹم کے قوانین کو آسان بنائے، اور ڈیٹا اسٹوریج، پیٹنٹ اور ڈیجیٹل تجارت کے قوانین میں بھی نرمی کرے۔
ادارت: جاوید اختر