جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے!
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
نیشن اسٹیٹس (Nation States) کا نظریہ زیادہ قدیم نہیں ہے۔ ارتقائی طور پر یورپ میں تو پندرھویں اور سولہویں صدی میں‘ ریاست کا یہ نیا تجربہ فکری نمو حاصل کر چکا تھا۔ مگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ‘ متعدد نئی ریاستیں وجود میں آئیں یا لائی گئیں۔ اس اثناء میں برطانیہ ایک سپر پاور کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اور عملاً نئے ملکوں کی تشکیل میں ان کی کوششوں کا کلیدی کردار تھا۔ مگر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ امریکا‘ حد درجہ خاموشی اور تندہی سے برطانیہ سے زیادہ طاقتور ہو چکا تھا۔
امریکا صنعتی ‘ معاشی‘ سماجی اور مذہبی جمود کو توڑ کر ایک ایسے طاقتور جن میں تبدیل ہو چکا تھا جس نے پہلی اور دوسری عظیم جنگوں میں پانسا پلٹ ڈالا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں خیر‘ جرمنی بلکہ ہٹلر ‘ یورپ کو تقریباً ختم کر چکا تھا۔ برطانیہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔ اور یہ وہ فیصلہ کن وقت تھا جب برطانوی وزیراعظم چرچل کی استدعا پر‘ امریکا براہ راست ‘ جنگ میں شامل ہوا۔ اور پھر اس کی بری‘ آبی اور فضائی طاقت کے سامنے‘ تمام چراغ گل ہو گئے۔
امریکی صدر اور چرچل کے درمیان امداد کی جو شرائط طے ہوئی تھیں۔ اس میں برطانوی اور دیگر یورپی ممالک کے ناجائز تسلط کو مختلف خطوں میں ختم کرنا بھی شامل تھا۔ افریقہ اور ایشیاء میں‘ کئی ایسے غلام ممالک تھے جو یورپی استعمار اور جبر کا شکار تھے۔ برٹش پبلک لائبریری میں بیٹھ کر دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ برصغیر کے متعلق امریکا اور برطانیہ کے صدور اور وزیراعظم کے مابین خط و کتابت پڑھیں تو یہ معاملہ کافی حد تک سمجھ میں آ جاتا ہے۔ بہرحال برصغیر کو دو ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔ اور یہ مکمل طور پر ایک جمہوری طریقے سے قابل عمل ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان کے ابتدائی وجود میں معمولی سے جمہور کی پیوند کاری تھی۔
مگر ایک معاملہ اور بھی اہم تھا اور آج بھی ہے کہ ہر ریاست نے اپنا اپنا سچ کشید کیا۔ کیونکہ ریاستیں Nation Statesسے پہلے‘ موجودہ جغرافیائی طریقہ سے وجود نہیںرکھتی تھیں۔ لہٰذا اس زمینی تقسیم میں متعدد خامیاں رہ گئیں۔ علاقائی تنازعات‘ پانی کی منصفانہ تقسیم اور کئی ایسے لسانی ‘ قبائلی اور سماجی مسائل پیدا ہو گئے ۔
جن کا پہلے وجود نہیں تھا۔ ان تنازعات کو ‘ گفتگو سے حل کرنے کے بجائے‘ چند ممالک اس راستہ پر چل پڑے جو جنگ و جدل سے اٹا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے‘ برصغیر میں دونوں آزاد ہونے والے ممالک‘ سنجیدہ مذاکرات سے نتائج حاصل کرنے سے آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے گئے۔ اور 1947کے بہت ہی کم عرصے کے بعد‘ طاقت کے زور پر متنازعہ علاقہ پر قابض ہونے کی دوڑ میں شامل ہو گئے‘ جس کا نتیجہ حد درجہ خطرناک نکلا۔ یعنی‘ دوستی تو دور کی بات‘ دونوں ممالک میں دلیل کی طاقت کو کمزور کر دیا گیا اور اس کی جگہ ان عناصر نے لے لی‘ جو امن کے قافلہ کے لوگ ہی نہیں تھے۔
عرض کر رہا تھا کہ ہر ملک نے اپنا سچ گڑھ لیا یا اس کو بنا بنایا دے دیا گیا۔ ضروری نہیں تھا کہ ریاستیں حقیقت پسندی سے اپنے سچ کو پرکھ پاتیں۔ اس کے برعکس ‘ پروپیگنڈے ‘ نفرت اور جبر کے زور پر اپنے اپنے سچ کو حتمی شکل دے دی گئی۔ جو کوئی بھی ‘ دلیل کی بنیاد پر ‘ معاملات کو حل کرنے کے لیے آواز اٹھاتا وہ اپنے اپنے ملک میں راندہ درگاہ قرار پاتا، غدار کہلاتا اور ریاستی نظام اس کی جان کے پیچھے پڑ جاتا۔ پاکستان اور ہندوستان میں تقریباً ایسا ہی ہوا۔ مگرحد درجہ عجیب بات یہ بھی ہے‘ کہ وہ ملک جو ترقی کے راستہ پر چل رہے تھے۔
انھوں نے اپنی باہمی کدورتوں کو ڈائیلاگ کے ذریعے ختم کیا۔ ایک دوسرے کے لیے باہمی ترقی کے دروازے کھول دیے۔ مثال کے طور پر ‘ جرمنی نے فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک پرقبضہ کر لیا تھا۔ جنگ ہارنے کے بعد‘ جرمنی نے مفاہمت کی طرف مضبوط قدم بڑھایا ‘ اورعملاً‘ یورپ کے تمام ملکوں سے اپنے تعلقات حد درجہ مضبوط کر لیے۔ یورپی ممالک نے اپنی سرحدیں بھی ایک دوسرے کے لیے کھول دیں۔
یورپین یونین وجود میں آئی۔ اور یورپ ایک ایسی اکائی میں تبدیل ہو گیا جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ خطہ بن گیا۔ برطانیہ نے ایک سنگین غلطی کی۔ جذباتیت میں آ کر‘ اپنے ملک کو ‘ ای یو سے علیحدہ کر لیا۔ اپنی سرحدیں‘ سابقہ طریقے سے منجمد کر دیں۔ نتیجہ کیا ہوا برطانیہ‘ معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس کی مجموعی دولت بھی کم ہو گئی۔ اور آج برطانیہ‘ اقتصادی طور پر کمزور حیثیت میں جا چکا ہے۔ دراصل یورپ یہ سمجھ چکاہے کہ اگر ان کے ہمسایہ ممالک سے دشمنی کا تعلق رہے گا‘ تو وہ ترقی نہیں کر پائیں گے۔
وہ اس کلیے کو سمجھ چکے تھے کہ اگر ان کا ہمسایہ ملک‘ خوشحال ہو گا تو وہ ان کے اپنے ملک کے وجود کے لیے بہتر ہوگا۔ یورپ نے پچھلی دو دہائیوں میں اس کلیہ کو سچ کر ڈالا۔ اور آج وہ امریکا کے بعد‘ دنیا کے سب سے متمول ممالک ہیں۔ انھوں نے باہمی پیچیدہ ترین مسائل کو اس دانائی سے حل کیا ہے کہ وہ نہ صرف امن کا گہوارا بن چکے ہیں۔
بلکہ ‘پوری دنیا کے غریب ممالک بشمول پاکستان‘ لوگ جان خطرے میں ڈال کر ‘ وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی ذاتی زندگی کو بہتر کر سکیں۔ معدودے چند فیصد جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ وہاں کی محنت مشقت کو اپنے آبائی ملک کی دیمک زدہ زند گی پر ترجیح دیتے ہیں۔
اب اپنے خطے کی طرف آتا ہوں۔ کشمیر ایک ایسا الجھا ہوا مسئلہ ہے جس پر ہندوستان اور پاکستان کی کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ مگر کشمیر کو بذریعہ شمشیر کوئی بھی ملک زیر دست نہیں کر پایا۔ میرٹ تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی واضح اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی ہے اور یہ سماج کے اندر سے پیدا ہونے والا وہ جذبہ ہے ۔ جسے ہندوستان برہنہ طاقت کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ مگر تمام مظالم کے باوجود‘ ہندوستان ‘ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکا۔ ہماری حالیہ تاریخ میں دو ایسے شاندار مراحل آئے ہیں جس میں یہ مسئلہ حل ہونے کے نزدیک تھا۔ یا اس کے سنجیدہ حل کے لیے ہوا سازگار بنائی جا رہی تھی۔
ایک تو وزیراعظم نواز شریف کی وہ تاریخی سفارتی فتح تھی جس میں ہندوستانی وزیراعظم ایک وفد کے ہمراہ بس کے ذریعے لاہور تشریف لائے تھے۔ اور یہاں ان کی دل کھول کر مہمان نوازی کی گئی تھی ۔ مگر اس وقت جنرل پرویز مشرف نے ‘ ایک مذہبی جماعت کو ہلا شیری دے کر‘ لاہور کے شاہی قلعہ میں وفد کی سرکاری ضیافت کا مزہ کرکرا بنا ڈالا تھا۔
معاملہ یہاں نہیں رکتا، ہندوستانی وزیراعظم یادگار پاکستان بھی گئے تھے اور وہاں انھوں نے اس بات کا عملی ثبوت دیا تھا کہ وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور باہمی تعلق کوحد درجہ بہتر بنانے کے خواہش مند بھی ہیں۔ مگر پھر کارگل کی وہ لڑائی شروع کی گئی‘ جس نے دوستی کے کسی بھی معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔
دونوں ممالک کی طرف سے خون بہا‘ اور نفرتیں مزید بڑھ گئیں۔ نواز شریف کو آج تک ‘ اس سفارتی کامیابی کی سزا دی جا رہی ہے۔ دوسرا مرحلہ اس وقت آیا ۔ جب جنرل پرویز مشرف نے بین الاقوامی قوتوں کو اعتماد میں لے کر مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے مابین اعتماد کو بحال کرنے والے اقدامات اٹھائے۔ ان کے وزیر خارجہ نے اپنی کتاب میں کھل کر اس کا ذکرکیا ہے ۔ مگر پھر وکلاء تحریک نے وہ قیامت برپا کر دی‘ جس کی بدولت کشمیر کا معاملہ حل نہ ہو پایا۔
موجودہ صورت حال کی طرف نظر ڈالیے تو معاملہ حد درجہ خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک‘ ایک دوسرے کی جان کے در پے نظر آتے ہیں۔ دونوں طرف کا میڈیا‘ عملاً جنگ کراچکا ہے۔ یہاں ایک فرق ضرور عرض کروں گا۔ ہندوستان کا میڈیا‘ ایک پاگل پن جنون کا شکار نظر آ رہا ہے۔ جب بھی بھارتی چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تو ایسے لگا کہ اینکر بس ابھی ایٹم بم ہاتھ میں لے گا اور پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ یہ رویہ مکمل طور پر قابل مذمت ہے۔
اس کے برعکس‘ پاکستان کے میڈیا میں سنجیدہ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ درست ہے کہ یہاں بھی میڈیا جذباتیت کا شکار ہے مگر پھر بھی‘ جنگ کے خلاف مؤثر آوازیں بہر حال سنائی دیتی ہیں۔ گزارش ہے کہ اب حل کیا ہے؟ آخر کون سا نسخہ استعمال کیا جائے کہ درجہ حرارت ٹھنڈا ہو جائے۔ طالب علم کی نظر میں‘ صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ‘ دو طرفہ مذاکرات۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان ‘ جنگ نہیں کریں گے۔
کیونکہ اگر ایٹمی قوت کا استعمال کیاگیا تو پورا برصغیر خاک کا ڈھیر بن جائے گا۔ جوکوئی بھی نہیں چاہے گا۔ حد درجہ سنجیدگی سے معاملات کو سفارت کاری‘ مذاکرات اور بیک ڈور ڈپلومیسی سے حل کرنا آج بھی ممکن ہے۔ باہمی اعتماد کے فقدان کی بدولت کسی تیسرے ملک کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مگر ایک بات ہمیں طے کرلینی چاہیے کہ جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ المناک جنگ سے بچنا ہی اصل دانائی ہے۔ ورنہ ایٹم بم تویہ نہیں دیکھے گا کہ مرنے والا مسلمان ہے یا ہندو!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چکا تھا کے بعد اور یہ کے لیے کی طرف
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
 لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔