Express News:
2025-05-05@01:04:34 GMT

جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے!

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

نیشن اسٹیٹس (Nation States) کا نظریہ زیادہ قدیم نہیں ہے۔ ارتقائی طور پر یورپ میں تو پندرھویں اور سولہویں صدی میں‘ ریاست کا یہ نیا تجربہ فکری نمو حاصل کر چکا تھا۔ مگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ‘ متعدد نئی ریاستیں وجود میں آئیں یا لائی گئیں۔ اس اثناء میں برطانیہ ایک سپر پاور کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اور عملاً نئے ملکوں کی تشکیل میں ان کی کوششوں کا کلیدی کردار تھا۔ مگر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ امریکا‘ حد درجہ خاموشی اور تندہی سے برطانیہ سے زیادہ طاقتور ہو چکا تھا۔

امریکا صنعتی ‘ معاشی‘ سماجی اور مذہبی جمود کو توڑ کر ایک ایسے طاقتور جن میں تبدیل ہو چکا تھا جس نے پہلی اور دوسری عظیم جنگوں میں پانسا پلٹ ڈالا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں خیر‘ جرمنی بلکہ ہٹلر ‘ یورپ کو تقریباً ختم کر چکا تھا۔ برطانیہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔ اور یہ وہ فیصلہ کن وقت تھا جب برطانوی وزیراعظم چرچل کی استدعا پر‘ امریکا براہ راست ‘ جنگ میں شامل ہوا۔ اور پھر اس کی بری‘ آبی اور فضائی طاقت کے سامنے‘ تمام چراغ گل ہو گئے۔

امریکی صدر اور چرچل کے درمیان امداد کی جو شرائط طے ہوئی تھیں۔ اس میں برطانوی اور دیگر یورپی ممالک کے ناجائز تسلط کو مختلف خطوں میں ختم کرنا بھی شامل تھا۔ افریقہ اور ایشیاء میں‘ کئی ایسے غلام ممالک تھے جو یورپی استعمار اور جبر کا شکار تھے۔ برٹش پبلک لائبریری میں بیٹھ کر دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ برصغیر کے متعلق امریکا اور برطانیہ کے صدور اور وزیراعظم کے مابین خط و کتابت پڑھیں تو یہ معاملہ کافی حد تک سمجھ میں آ جاتا ہے۔ بہرحال برصغیر کو دو ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔ اور یہ مکمل طور پر ایک جمہوری طریقے سے قابل عمل ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان کے ابتدائی وجود میں معمولی سے جمہور کی پیوند کاری تھی۔

مگر ایک معاملہ اور بھی اہم تھا اور آج بھی ہے  کہ ہر ریاست نے اپنا اپنا سچ کشید کیا۔ کیونکہ ریاستیں Nation Statesسے پہلے‘ موجودہ جغرافیائی طریقہ سے وجود نہیںرکھتی تھیں۔ لہٰذا اس زمینی تقسیم میں متعدد خامیاں رہ گئیں۔ علاقائی تنازعات‘ پانی کی منصفانہ تقسیم اور کئی ایسے لسانی ‘ قبائلی اور سماجی مسائل پیدا ہو گئے ۔

جن کا پہلے وجود نہیں تھا۔ ان تنازعات کو ‘ گفتگو سے حل کرنے کے بجائے‘ چند ممالک اس راستہ پر چل پڑے جو جنگ و جدل سے اٹا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے‘ برصغیر میں دونوں آزاد ہونے والے ممالک‘ سنجیدہ مذاکرات سے نتائج حاصل کرنے سے آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے گئے۔ اور 1947کے بہت ہی کم عرصے کے بعد‘ طاقت کے زور پر متنازعہ علاقہ پر قابض ہونے کی دوڑ میں شامل ہو گئے‘ جس کا نتیجہ حد درجہ خطرناک نکلا۔ یعنی‘ دوستی تو دور کی بات‘ دونوں ممالک میں دلیل کی طاقت کو کمزور کر دیا گیا اور اس کی جگہ ان عناصر نے لے لی‘ جو امن کے قافلہ کے لوگ ہی نہیں تھے۔

عرض کر رہا تھا کہ ہر ملک نے اپنا سچ گڑھ لیا یا اس کو بنا بنایا دے دیا گیا۔ ضروری نہیں تھا کہ ریاستیں حقیقت پسندی سے اپنے سچ کو پرکھ پاتیں۔ اس کے برعکس ‘ پروپیگنڈے ‘ نفرت اور جبر کے زور پر اپنے اپنے سچ کو حتمی شکل دے دی گئی۔ جو کوئی بھی ‘ دلیل کی بنیاد پر ‘ معاملات کو حل کرنے کے لیے آواز اٹھاتا وہ اپنے اپنے ملک میں راندہ درگاہ قرار پاتا، غدار کہلاتا اور ریاستی نظام اس کی جان کے پیچھے پڑ جاتا۔ پاکستان اور ہندوستان میں تقریباً ایسا ہی ہوا۔ مگرحد درجہ عجیب بات یہ بھی ہے‘ کہ وہ ملک جو ترقی کے راستہ پر چل رہے تھے۔

انھوں نے اپنی باہمی کدورتوں کو ڈائیلاگ کے ذریعے ختم کیا۔ ایک دوسرے کے لیے باہمی ترقی کے دروازے کھول دیے۔ مثال کے طور پر ‘ جرمنی نے فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک پرقبضہ کر لیا تھا۔ جنگ ہارنے کے بعد‘ جرمنی نے مفاہمت کی طرف مضبوط قدم بڑھایا ‘ اورعملاً‘ یورپ کے تمام ملکوں سے اپنے تعلقات حد درجہ مضبوط کر لیے۔ یورپی ممالک نے اپنی سرحدیں بھی ایک دوسرے کے لیے کھول دیں۔

یورپین یونین وجود میں آئی۔ اور یورپ ایک ایسی اکائی میں تبدیل ہو گیا جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ خطہ بن گیا۔ برطانیہ نے ایک سنگین غلطی کی۔ جذباتیت میں آ کر‘ اپنے ملک کو ‘ ای یو سے علیحدہ کر لیا۔ اپنی سرحدیں‘ سابقہ طریقے سے منجمد کر دیں۔ نتیجہ کیا ہوا برطانیہ‘ معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس کی مجموعی دولت بھی کم ہو گئی۔ اور آج برطانیہ‘ اقتصادی طور پر کمزور حیثیت میں جا چکا ہے۔ دراصل یورپ یہ سمجھ چکاہے کہ اگر ان کے ہمسایہ ممالک سے دشمنی کا تعلق رہے گا‘ تو وہ ترقی نہیں کر پائیں گے۔

وہ اس کلیے کو سمجھ چکے تھے کہ اگر ان کا ہمسایہ ملک‘ خوشحال ہو گا تو وہ ان کے اپنے ملک کے وجود کے لیے بہتر ہوگا۔ یورپ نے پچھلی دو دہائیوں میں اس کلیہ کو سچ کر ڈالا۔ اور آج وہ امریکا کے بعد‘ دنیا کے سب سے متمول ممالک ہیں۔ انھوں نے باہمی پیچیدہ ترین مسائل کو اس دانائی سے حل کیا ہے کہ وہ نہ صرف امن کا گہوارا بن چکے ہیں۔

بلکہ ‘پوری دنیا کے غریب ممالک بشمول پاکستان‘ لوگ جان خطرے میں ڈال کر ‘ وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی ذاتی زندگی کو بہتر کر سکیں۔ معدودے چند فیصد جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ وہاں کی محنت مشقت کو اپنے آبائی ملک کی دیمک زدہ زند گی پر ترجیح دیتے ہیں۔

اب اپنے خطے کی طرف آتا ہوں۔ کشمیر ایک ایسا الجھا ہوا مسئلہ ہے جس پر ہندوستان اور پاکستان کی کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ مگر کشمیر کو بذریعہ شمشیر کوئی بھی ملک زیر دست نہیں کر پایا۔ میرٹ تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی واضح اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی ہے اور یہ سماج کے اندر سے پیدا ہونے والا وہ جذبہ ہے ۔ جسے ہندوستان برہنہ طاقت کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ مگر تمام مظالم کے باوجود‘ ہندوستان ‘ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکا۔ ہماری حالیہ تاریخ میں دو ایسے شاندار مراحل آئے ہیں جس میں یہ مسئلہ حل ہونے کے نزدیک تھا۔ یا اس کے سنجیدہ حل کے لیے ہوا سازگار بنائی جا رہی تھی۔

ایک تو وزیراعظم نواز شریف کی وہ تاریخی سفارتی فتح تھی جس میں ہندوستانی وزیراعظم ایک وفد کے ہمراہ بس کے ذریعے لاہور تشریف لائے تھے۔ اور یہاں ان کی دل کھول کر مہمان نوازی کی گئی تھی ۔ مگر اس وقت جنرل پرویز مشرف نے ‘ ایک مذہبی جماعت کو ہلا شیری دے کر‘ لاہور کے شاہی قلعہ میں وفد کی سرکاری ضیافت کا مزہ کرکرا بنا ڈالا تھا۔

معاملہ یہاں نہیں رکتا، ہندوستانی وزیراعظم یادگار پاکستان بھی گئے تھے اور وہاں انھوں نے اس بات کا عملی ثبوت دیا تھا کہ وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور باہمی تعلق کوحد درجہ بہتر بنانے کے خواہش مند بھی ہیں۔ مگر پھر کارگل کی وہ لڑائی شروع کی گئی‘ جس نے دوستی کے کسی بھی معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔

دونوں ممالک کی طرف سے خون بہا‘ اور نفرتیں مزید بڑھ گئیں۔ نواز شریف کو آج تک ‘ اس سفارتی کامیابی کی سزا دی جا رہی ہے۔ دوسرا مرحلہ اس وقت آیا ۔ جب جنرل پرویز مشرف نے بین الاقوامی قوتوں کو اعتماد میں لے کر مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے مابین اعتماد کو بحال کرنے والے اقدامات اٹھائے۔ ان کے وزیر خارجہ نے اپنی کتاب میں کھل کر اس کا ذکرکیا ہے ۔ مگر پھر وکلاء تحریک نے وہ قیامت برپا کر دی‘ جس کی بدولت کشمیر کا معاملہ حل نہ ہو پایا۔

موجودہ صورت حال کی طرف نظر ڈالیے تو معاملہ حد درجہ خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک‘ ایک دوسرے کی جان کے در پے نظر آتے ہیں۔ دونوں طرف کا میڈیا‘ عملاً جنگ کراچکا ہے۔ یہاں ایک فرق ضرور عرض کروں گا۔ ہندوستان کا میڈیا‘ ایک پاگل پن جنون کا شکار نظر آ رہا ہے۔ جب بھی بھارتی چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تو ایسے لگا کہ اینکر بس ابھی ایٹم بم ہاتھ میں لے گا اور پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ یہ رویہ مکمل طور پر قابل مذمت ہے۔

اس کے برعکس‘ پاکستان کے میڈیا میں سنجیدہ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ درست ہے کہ یہاں بھی میڈیا جذباتیت کا شکار ہے مگر پھر بھی‘ جنگ کے خلاف مؤثر آوازیں بہر حال سنائی دیتی ہیں۔ گزارش ہے کہ اب حل کیا ہے؟ آخر کون سا نسخہ استعمال کیا جائے کہ درجہ حرارت ٹھنڈا ہو جائے۔ طالب علم کی نظر میں‘ صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ‘ دو طرفہ مذاکرات۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان ‘ جنگ نہیں کریں گے۔

کیونکہ اگر ایٹمی قوت کا استعمال کیاگیا تو پورا برصغیر خاک کا ڈھیر بن جائے گا۔ جوکوئی بھی نہیں چاہے گا۔ حد درجہ سنجیدگی سے معاملات کو سفارت کاری‘ مذاکرات اور بیک ڈور ڈپلومیسی سے حل کرنا آج بھی ممکن ہے۔ باہمی اعتماد کے فقدان کی بدولت کسی تیسرے ملک کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مگر ایک بات ہمیں طے کرلینی چاہیے کہ جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ المناک جنگ سے بچنا ہی اصل دانائی ہے۔ ورنہ ایٹم بم تویہ نہیں دیکھے گا کہ مرنے والا مسلمان ہے یا ہندو!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چکا تھا کے بعد اور یہ کے لیے کی طرف

پڑھیں:

پہلگام واقعہ کی یو این او کے تحت انکوائری کروائی جائے،  پرویز اشرف

وزیر آباد: سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو تکلیف پہنچائی، بغیر انکوائری پاکستان پر الزام لگانا بھارت کی جارحانہ پالیسی ہے، پوری قوم چٹان کی طرح پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے۔ اب اگر ہم پرجنگ مسلط کی گئی توجواب دینا جانتے ہیں۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ دنیا نے پہلگام واقعہ پر بھارتی الزامات کورد کیا اور پاکستان کی حمایت کی۔ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہے ہم دنیا کے سامنے سارے ثبوت رکھ سکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو تکلیف دی، جعفر ایکسپریس واقعہ میں بھی بھارت ملوث ہے، پہلگام واقعہ ہونے کے 10 منٹ کے بعد ایف آئی آر بھی ہو جاتی ہے؟ پہلگام واقعہ کی یو این او کے تحت انکوائری کروائی جائے۔
پرویزاشرف نے کہا کہ پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، بھارت کئی واقعات میں پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث رہا ہے، عرب ممالک سمیت ہمارے سارے دوست ممالک نے ہماری حمایت کی۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ 13 مئی کو سعودی عرب کا دورہ کریں گے، 6 خلیجی ممالک سربراہان سے ملاقات بھی متوقع
  • کشمیر اور فلسطین میں ہونیوالے مظالم کیخلاف اسلامی ممالک کو متحد ہونا چاہیے، آفتاب شیرپاو
  • بھارت کی جانب سے ابھی خطرہ کم نہیں ہوا: وزیر دفاع
  • دنیا کے اہم ممالک کوشش میں ہیں کہ پاک بھارت تنازع آگے نہ بڑھے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • بھارت نے پاکستان سے درآمدات پر پابندی عائد کر دی
  • مدبر سیاستدانوں کی ضرورت
  • سفارتی محاذ پر اچھا مقدمہ لڑا، دوست ممالک نے موقف مانا، عطا تارڑ
  • پہلگام واقعہ کی یو این او کے تحت انکوائری کروائی جائے،  پرویز اشرف
  • فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور مسئلے کے حل سے متعلق برطانیہ کا بڑا اقدام