جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے!
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
نیشن اسٹیٹس (Nation States) کا نظریہ زیادہ قدیم نہیں ہے۔ ارتقائی طور پر یورپ میں تو پندرھویں اور سولہویں صدی میں‘ ریاست کا یہ نیا تجربہ فکری نمو حاصل کر چکا تھا۔ مگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ‘ متعدد نئی ریاستیں وجود میں آئیں یا لائی گئیں۔ اس اثناء میں برطانیہ ایک سپر پاور کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اور عملاً نئے ملکوں کی تشکیل میں ان کی کوششوں کا کلیدی کردار تھا۔ مگر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ امریکا‘ حد درجہ خاموشی اور تندہی سے برطانیہ سے زیادہ طاقتور ہو چکا تھا۔
امریکا صنعتی ‘ معاشی‘ سماجی اور مذہبی جمود کو توڑ کر ایک ایسے طاقتور جن میں تبدیل ہو چکا تھا جس نے پہلی اور دوسری عظیم جنگوں میں پانسا پلٹ ڈالا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں خیر‘ جرمنی بلکہ ہٹلر ‘ یورپ کو تقریباً ختم کر چکا تھا۔ برطانیہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔ اور یہ وہ فیصلہ کن وقت تھا جب برطانوی وزیراعظم چرچل کی استدعا پر‘ امریکا براہ راست ‘ جنگ میں شامل ہوا۔ اور پھر اس کی بری‘ آبی اور فضائی طاقت کے سامنے‘ تمام چراغ گل ہو گئے۔
امریکی صدر اور چرچل کے درمیان امداد کی جو شرائط طے ہوئی تھیں۔ اس میں برطانوی اور دیگر یورپی ممالک کے ناجائز تسلط کو مختلف خطوں میں ختم کرنا بھی شامل تھا۔ افریقہ اور ایشیاء میں‘ کئی ایسے غلام ممالک تھے جو یورپی استعمار اور جبر کا شکار تھے۔ برٹش پبلک لائبریری میں بیٹھ کر دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ برصغیر کے متعلق امریکا اور برطانیہ کے صدور اور وزیراعظم کے مابین خط و کتابت پڑھیں تو یہ معاملہ کافی حد تک سمجھ میں آ جاتا ہے۔ بہرحال برصغیر کو دو ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔ اور یہ مکمل طور پر ایک جمہوری طریقے سے قابل عمل ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان کے ابتدائی وجود میں معمولی سے جمہور کی پیوند کاری تھی۔
مگر ایک معاملہ اور بھی اہم تھا اور آج بھی ہے کہ ہر ریاست نے اپنا اپنا سچ کشید کیا۔ کیونکہ ریاستیں Nation Statesسے پہلے‘ موجودہ جغرافیائی طریقہ سے وجود نہیںرکھتی تھیں۔ لہٰذا اس زمینی تقسیم میں متعدد خامیاں رہ گئیں۔ علاقائی تنازعات‘ پانی کی منصفانہ تقسیم اور کئی ایسے لسانی ‘ قبائلی اور سماجی مسائل پیدا ہو گئے ۔
جن کا پہلے وجود نہیں تھا۔ ان تنازعات کو ‘ گفتگو سے حل کرنے کے بجائے‘ چند ممالک اس راستہ پر چل پڑے جو جنگ و جدل سے اٹا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے‘ برصغیر میں دونوں آزاد ہونے والے ممالک‘ سنجیدہ مذاکرات سے نتائج حاصل کرنے سے آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے گئے۔ اور 1947کے بہت ہی کم عرصے کے بعد‘ طاقت کے زور پر متنازعہ علاقہ پر قابض ہونے کی دوڑ میں شامل ہو گئے‘ جس کا نتیجہ حد درجہ خطرناک نکلا۔ یعنی‘ دوستی تو دور کی بات‘ دونوں ممالک میں دلیل کی طاقت کو کمزور کر دیا گیا اور اس کی جگہ ان عناصر نے لے لی‘ جو امن کے قافلہ کے لوگ ہی نہیں تھے۔
عرض کر رہا تھا کہ ہر ملک نے اپنا سچ گڑھ لیا یا اس کو بنا بنایا دے دیا گیا۔ ضروری نہیں تھا کہ ریاستیں حقیقت پسندی سے اپنے سچ کو پرکھ پاتیں۔ اس کے برعکس ‘ پروپیگنڈے ‘ نفرت اور جبر کے زور پر اپنے اپنے سچ کو حتمی شکل دے دی گئی۔ جو کوئی بھی ‘ دلیل کی بنیاد پر ‘ معاملات کو حل کرنے کے لیے آواز اٹھاتا وہ اپنے اپنے ملک میں راندہ درگاہ قرار پاتا، غدار کہلاتا اور ریاستی نظام اس کی جان کے پیچھے پڑ جاتا۔ پاکستان اور ہندوستان میں تقریباً ایسا ہی ہوا۔ مگرحد درجہ عجیب بات یہ بھی ہے‘ کہ وہ ملک جو ترقی کے راستہ پر چل رہے تھے۔
انھوں نے اپنی باہمی کدورتوں کو ڈائیلاگ کے ذریعے ختم کیا۔ ایک دوسرے کے لیے باہمی ترقی کے دروازے کھول دیے۔ مثال کے طور پر ‘ جرمنی نے فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک پرقبضہ کر لیا تھا۔ جنگ ہارنے کے بعد‘ جرمنی نے مفاہمت کی طرف مضبوط قدم بڑھایا ‘ اورعملاً‘ یورپ کے تمام ملکوں سے اپنے تعلقات حد درجہ مضبوط کر لیے۔ یورپی ممالک نے اپنی سرحدیں بھی ایک دوسرے کے لیے کھول دیں۔
یورپین یونین وجود میں آئی۔ اور یورپ ایک ایسی اکائی میں تبدیل ہو گیا جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ خطہ بن گیا۔ برطانیہ نے ایک سنگین غلطی کی۔ جذباتیت میں آ کر‘ اپنے ملک کو ‘ ای یو سے علیحدہ کر لیا۔ اپنی سرحدیں‘ سابقہ طریقے سے منجمد کر دیں۔ نتیجہ کیا ہوا برطانیہ‘ معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس کی مجموعی دولت بھی کم ہو گئی۔ اور آج برطانیہ‘ اقتصادی طور پر کمزور حیثیت میں جا چکا ہے۔ دراصل یورپ یہ سمجھ چکاہے کہ اگر ان کے ہمسایہ ممالک سے دشمنی کا تعلق رہے گا‘ تو وہ ترقی نہیں کر پائیں گے۔
وہ اس کلیے کو سمجھ چکے تھے کہ اگر ان کا ہمسایہ ملک‘ خوشحال ہو گا تو وہ ان کے اپنے ملک کے وجود کے لیے بہتر ہوگا۔ یورپ نے پچھلی دو دہائیوں میں اس کلیہ کو سچ کر ڈالا۔ اور آج وہ امریکا کے بعد‘ دنیا کے سب سے متمول ممالک ہیں۔ انھوں نے باہمی پیچیدہ ترین مسائل کو اس دانائی سے حل کیا ہے کہ وہ نہ صرف امن کا گہوارا بن چکے ہیں۔
بلکہ ‘پوری دنیا کے غریب ممالک بشمول پاکستان‘ لوگ جان خطرے میں ڈال کر ‘ وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی ذاتی زندگی کو بہتر کر سکیں۔ معدودے چند فیصد جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ وہاں کی محنت مشقت کو اپنے آبائی ملک کی دیمک زدہ زند گی پر ترجیح دیتے ہیں۔
اب اپنے خطے کی طرف آتا ہوں۔ کشمیر ایک ایسا الجھا ہوا مسئلہ ہے جس پر ہندوستان اور پاکستان کی کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ مگر کشمیر کو بذریعہ شمشیر کوئی بھی ملک زیر دست نہیں کر پایا۔ میرٹ تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی واضح اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی ہے اور یہ سماج کے اندر سے پیدا ہونے والا وہ جذبہ ہے ۔ جسے ہندوستان برہنہ طاقت کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ مگر تمام مظالم کے باوجود‘ ہندوستان ‘ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکا۔ ہماری حالیہ تاریخ میں دو ایسے شاندار مراحل آئے ہیں جس میں یہ مسئلہ حل ہونے کے نزدیک تھا۔ یا اس کے سنجیدہ حل کے لیے ہوا سازگار بنائی جا رہی تھی۔
ایک تو وزیراعظم نواز شریف کی وہ تاریخی سفارتی فتح تھی جس میں ہندوستانی وزیراعظم ایک وفد کے ہمراہ بس کے ذریعے لاہور تشریف لائے تھے۔ اور یہاں ان کی دل کھول کر مہمان نوازی کی گئی تھی ۔ مگر اس وقت جنرل پرویز مشرف نے ‘ ایک مذہبی جماعت کو ہلا شیری دے کر‘ لاہور کے شاہی قلعہ میں وفد کی سرکاری ضیافت کا مزہ کرکرا بنا ڈالا تھا۔
معاملہ یہاں نہیں رکتا، ہندوستانی وزیراعظم یادگار پاکستان بھی گئے تھے اور وہاں انھوں نے اس بات کا عملی ثبوت دیا تھا کہ وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور باہمی تعلق کوحد درجہ بہتر بنانے کے خواہش مند بھی ہیں۔ مگر پھر کارگل کی وہ لڑائی شروع کی گئی‘ جس نے دوستی کے کسی بھی معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔
دونوں ممالک کی طرف سے خون بہا‘ اور نفرتیں مزید بڑھ گئیں۔ نواز شریف کو آج تک ‘ اس سفارتی کامیابی کی سزا دی جا رہی ہے۔ دوسرا مرحلہ اس وقت آیا ۔ جب جنرل پرویز مشرف نے بین الاقوامی قوتوں کو اعتماد میں لے کر مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے مابین اعتماد کو بحال کرنے والے اقدامات اٹھائے۔ ان کے وزیر خارجہ نے اپنی کتاب میں کھل کر اس کا ذکرکیا ہے ۔ مگر پھر وکلاء تحریک نے وہ قیامت برپا کر دی‘ جس کی بدولت کشمیر کا معاملہ حل نہ ہو پایا۔
موجودہ صورت حال کی طرف نظر ڈالیے تو معاملہ حد درجہ خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک‘ ایک دوسرے کی جان کے در پے نظر آتے ہیں۔ دونوں طرف کا میڈیا‘ عملاً جنگ کراچکا ہے۔ یہاں ایک فرق ضرور عرض کروں گا۔ ہندوستان کا میڈیا‘ ایک پاگل پن جنون کا شکار نظر آ رہا ہے۔ جب بھی بھارتی چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تو ایسے لگا کہ اینکر بس ابھی ایٹم بم ہاتھ میں لے گا اور پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ یہ رویہ مکمل طور پر قابل مذمت ہے۔
اس کے برعکس‘ پاکستان کے میڈیا میں سنجیدہ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ درست ہے کہ یہاں بھی میڈیا جذباتیت کا شکار ہے مگر پھر بھی‘ جنگ کے خلاف مؤثر آوازیں بہر حال سنائی دیتی ہیں۔ گزارش ہے کہ اب حل کیا ہے؟ آخر کون سا نسخہ استعمال کیا جائے کہ درجہ حرارت ٹھنڈا ہو جائے۔ طالب علم کی نظر میں‘ صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ‘ دو طرفہ مذاکرات۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان ‘ جنگ نہیں کریں گے۔
کیونکہ اگر ایٹمی قوت کا استعمال کیاگیا تو پورا برصغیر خاک کا ڈھیر بن جائے گا۔ جوکوئی بھی نہیں چاہے گا۔ حد درجہ سنجیدگی سے معاملات کو سفارت کاری‘ مذاکرات اور بیک ڈور ڈپلومیسی سے حل کرنا آج بھی ممکن ہے۔ باہمی اعتماد کے فقدان کی بدولت کسی تیسرے ملک کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مگر ایک بات ہمیں طے کرلینی چاہیے کہ جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ المناک جنگ سے بچنا ہی اصل دانائی ہے۔ ورنہ ایٹم بم تویہ نہیں دیکھے گا کہ مرنے والا مسلمان ہے یا ہندو!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چکا تھا کے بعد اور یہ کے لیے کی طرف
پڑھیں:
لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے
گزشتہ ہفتے بین الاقوامی دہشت گرد اور ریاستی دہشتگردی کے علمبردار اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے رہائشی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرکے ایک اور آزاد ریاست کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔
اسرائیلی جنگی جنون کا ناسور چاروں طرف پھیل رہا ہے مگر اسرائیل نے قطر پر ایسے حساس وقت پر حملہ کیا جب ایک طرف قطر غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا اور دوسری طرف دنیا کے مختلف ممالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت کا درد لیے صمود فلوٹیلا (قافلہ استقامت) کی شکل میں غزہ کے مظلوم و مجبور بھوکے پیاسے اور بیمار شہریوں کے لیے امدادی سامان اور ادویات لے کر دن رات آگے بڑھ رہا تھا۔
قافلہ میں پاکستان کی نمایندگی استقامت اور بہادری کی علامت بن کر ابھرنے والے سابق سینیٹر برادر عزیز مشتاق احمد خان کررہے ہیں۔ جس قافلے کا حصہ بن کر وہ غزہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اس پر اسرائیل کی جانب سے دو ڈرون حملے ہوچکے ہیں لیکن صمود فلوٹیلا بلا خوف آگے بڑھ رہا ہے۔
اللہ رب العزت صمود فلوٹیلا کے تمام ممبران کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کی سعی کو مظلومین غزہ کے زخموں کا مرہم اور اسرائیلی بربریت کے خاتمے کا ذریعہ اور وسیلہ بنائے، آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔
قطر پر اسرائیلی حملے سے نہ صرف علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ اس حملے نے قطر کی علاقائی، عسکری اور سفارتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا اور تمام عرب ممالک کی کھوکھلی شان و شوکت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔
اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزر کر اسرائیل کے دس ایف 35 جنگی طیاروں نے قطر کے خلاف اس آپریشن میں حصہ لیا۔ ان جہازوں کو قطر ہی کے ’’العدید ایئربیس‘‘ سے پرواز کر کے برطانوی اور امریکی طیاروں نے فضا میں ایندھن فراہم کیا، جس کے بعد وہ واپسی کی پرواز کے قابل ہوئے ورنہ سارے طیارے راستے میں گر راکھ کا ڈیر بن جاتے۔
دوحہ حملے کا سب سے چونکا دینے والا پہلو قطر اور سعودی عرب کے انتہائی جدید فضائی دفاعی نظام کی ناکامی ہے، نہ تو دونوں ممالک کے کسی زمینی فضائی دفاعی نظام نے کوئی ردعمل ظاہر کیا اور نہ ہی ان ممالک کی فضا میں موجود کسی طیارے نے الرٹ جاری کیا۔
اسرائیل اور اس کے گنے چنے حمائتیوں کو چھوڑ کر ساری مہذب دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اسرائیل نے ’’بدمعاش ریاست‘‘ بن کر تمام بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں اڑا کر اپنی ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کردیا۔ یہ اظہرمن شمس ہے کہ اب اسرائیل کا وجود عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکا۔
غزہ پر قبضے اور گریٹر اسرائیل کا خواب لیے توسیع پسندانہ عزائم کی حامل ریاستی دہشتگردی کا علمبردار اسرائیل اب اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر آزاد اور خود مختار اسلامی ریاستوں پر براہ راست حملوں پر اتر آیا ہے۔
اب تک سات اسلامی ممالک اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں سے بیشتر ممالک وہ ہیں جنھوں نے ہمیشہ اسرائیل کے ازلی سرپرست امریکا پر بھروسہ کیا اور امریکا کی دوستی کا دم بھرا، ان ممالک کے سربراہان تاحال امریکا کے ساتھ ہیں۔ قطر بھی امریکا کے اتحادیوں کی صف اول میں کھڑا ہے، وہ خوش فہمی مبتلا تھا کہ جب انھوں نے امریکا کے لیے اپنی سرزمین پر اڈے دیے ہیں، امریکا سے کھربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدتے ہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دورہ قطر کے موقع 400 ملین ڈالر کا جہاز گفٹ کیا گیا اور اس کے علاوہ ہر موقع پر تابعداری اور جی حضوری کے بعد قطر کی طرف کون میلی آنکھ سے دیکھ سکتاہے اور اگر کوئی دیکھے گا تو ’’امریکا ماموں‘‘ اسے خود دیکھ لے گا۔
مگر امریکا کے بغل بچے اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے دوحہ پر حملے اور اس پر امریکا کی مجرمانہ خاموشی نے قطر کی یہ خوش فہمی چکنا چور کردی۔ اسرائیل کے اس حملے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے اور ملکوں کی خود مختاری اور اقتدار کے احترام کے بیانیے محض ڈھکوسلے ہیں۔
دنیا میں ابھی بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی رائج ہے۔ جب ہر بین الاقوامی فورم پر امریکا، اسرائیلی جرائم کے دفاع کے لیے کھڑا ہوگا تو پھر صرف فلسطین، شام، ایران اور قطر نہیں جہاں بھی اسرائیلی مفادات خطرے میں ہوں گے وہاں دوسروں کی خود مختاری اور اقتدار ریت کی دیوار ثابت ہو ںگے۔
اسرائیلی حملہ صرف قطر کے لیے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ بالخصوص عربوں کے لیے بہت بڑا دھچکا، لمحہ فکریہ اور وارننگ ہے۔ اللہ کرے اس دھچکے کے بعد مسلمان حکمرانوں اور خاص کر عرب ممالک نیند سے جاگ جائیں اور اپنے پہلو میں موجود غزہ کے مظلوم و مجبور اور غذائی قلت کا شکار فلسطینیوں کے حق میں کھڑے ہو کر اﷲ کو راضی کریں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ اسرائیل طاقتور ہے، المیہ یہ ہے کہ مظلوم امت مسلمہ کے حکمران کمزور، مصلحت پسند اور تقسیم ہیں۔ امت مسلمہ کے حکمران اب بھی متحد نہ ہوئے تو تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس حملے کے نتیجے میں مسلم امہ انگڑائی لیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
حملے کے فوری بعد قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے قطر کا دورہ کیا، اس دورے میں اسرائیل کے بغل بچے بھارت کو شکست فاش دینے والے ریاست پاکستان کی طرف اسرائیل کے لیے واضح پیغام تھا کہ ’’تمہاری بدمعاشی مزید نہیں چلے گی۔
جس طرح ہم نے تمہارے اسٹرٹیجک اتحادی ہندوستان کو آپکی سرپرستی، آشیرباد اور مدد سے کی گئی جارحیت کا منہ توڑ اور دندان شکن جواب دیا اس سے خطرناک انجام سے اسرائیل کو دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ اگر پوری مسلم امہ ساتھ دے تو پاکستان نے جس طرح انڈیا پر پھینکے گئے میزائلوں پر ان شہداء کے نام لکھے تھے جو رات کی تاریکی میں ہندوستان سے داغے گئے میزائلوں سے شہید ہوئے تھے۔
بلکل اسی طرح پاکستان اپنی میزائلوں پر صیہونی دہشت گردی کے شکار غزہ کے مظلوم شہید بچوں کے نام لکھ کر اسرائیل کو سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر اور پاک فوج کی کمان ایک ایسے سپہ سالار کے ہاتھوں میں ہے جس کا سینہ قرآن کے نور سے منور ہے، اگر وہ ہندوستان کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں تو دہشت گرد اسرائیل کو بھی لگام ڈال سکتے ہیں۔
یہ خوش آیند ہے کہ اس حملے کے بعد عرب دنیا میں اتحاد کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ تاحال تمام عرب ممالک اسرائیل کے خلاف ایک پیج پر اور سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اتوار اور سوموار کو دو روزہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس ہوا، اس اجلاس میں شریک مسلم ممالک کے سربراہان نے پہلی بار متفقہ لائحہ عمل اپنایا اور اسرائیل کی سخت الفاظ میں مزمت کی۔
مسلم سربراہان نے کہا کہ ’’اسرائیل نے تمام ریڈلائنزکراس کرلی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹراورعالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا، صہیونی جارحیت روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
سوموار کی شام جاری ہونے والے اعلامیہ میں مسلم ممالک کی جانب سے جارحیت کے لیے اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیہ میں قطر پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیرقانونی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت، قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی اور قطری ردعمل کی حمایت کی۔
مگر یہ اب صرف مطالبات سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک ملکر انسداد ریاستی دہشتگردی کے لیے ’’بین الاقوامی اسلامی فورس خالد بن ولید فورس کے نام سے تشکیل دے کر دہشت گرد ریاست اسرائیل کو میدان جنگ میں نشان عبرت بنائیں۔
اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی دنیا ہماری بات تب تک نہیں سنے گی جب تک ہم متحد و متفق ہو کر عملی اقدامات کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، اب محض زبانی جمع خرچ، کھوکھلے بیان بازیوں اور مذمتوں پر وقت ضایع کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا تو آج قطر تو کل کسی اور اسلامی ریاست کو اسرائیلی جارحیت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔