مودی دنیا بھر میں گھومتے ہیں، دوست بناتے ہیں اور ہمیں سیز فائر و ٹیرف جھیلنا پڑتا ہے، پرینکا گاندھی
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ حکومت کو دو بڑے سوالات کا جواب دینا ہوگا، ایک ٹرمپ کے سیز فائر دعوے کا اور دوسرا امریکی ٹیرف پالیسی پر حکومت کی جانب سے اب تک اختیار کردہ خاموشی کا۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس لیڈر اور وائناڈ سے رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی واڈرا نے نریندر مودی کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹرمپ نے ہندوستانی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے اور بھارت و پاکستان سیز فائر میں اپنے کردار کا دعویٰ کرتے ہوئے نئی دہلی کی خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان لگایا، جس پر کانگریس قیادت نے حکومت کی خاموشی کو ملک کی خودمختاری کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم مودی پوری دنیا میں گھومتے ہیں، دوستیاں کرتے ہیں اور پھر ہمیں ٹیرف اور سیز فائر جیسے نقصانات جھیلنے پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو دو بڑے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔ ایک ٹرمپ کے سیز فائر دعوے کا اور دوسرا امریکی ٹیرف پالیسی پر حکومت کی جانب سے اب تک اختیار کردہ خاموشی کا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں مسئلے نہ صرف سفارتی سطح پر ہندوستان کی خودداری سے جڑے ہیں بلکہ ملک کی تجارتی خودمختاری اور بین الاقوامی وقار پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
کانگریس کے سینیئر لیڈر اور سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان پر 25 فیصد ٹیرف اور روسی تیل کی خرید پر جرمانہ جیسے اقدامات ملک کی معیشت کے لئے بڑا دھچکا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوستی، سفارت کاری اور صبر آزما گفت و شنید کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ پی چدمبرم نے امریکہ کی اس پالیسی کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کئی بار دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکا۔ اس دعوے کو کانگریس نے ہندوستان کی خودمختاری کے منافی قرار دیتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ صاف الفاظ میں عوام کو بتائیں کہ آیا ٹرمپ کا بیان درست ہے یا جھوٹ۔
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے بھی تیکھے انداز میں کہا کہ ٹرمپ، مودی کے اردگرد سانپ کی طرح لپٹے ہوئے ہیں اور راہل گاندھی نے انہیں اس سے نکلنے کا سنہرا موقع دیا تھا، مگر وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کر لی۔ کانگریس کا موقف واضح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں خاموشی کمزوری کی علامت ہے اور موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی نہ صرف تضاد کا شکار ہے بلکہ ملک کی خودمختاری اور وقار کو زک پہنچا رہی ہے۔ پرینکا گاندھی اور دیگر لیڈروں کی تنقید اب اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں حکومت سے عوامی وضاحت کی امید زور پکڑ رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیراعظم مودی امریکی صدر کے ان متنازع بیانات پر کوئی جواب دیں گے یا خاموشی کے پردے میں سفارتی تعلقات کو ڈھکنے کی پالیسی جاری رکھیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پرینکا گاندھی سیز فائر حکومت کی ملک کی کہا کہ
پڑھیں:
ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کینیڈا کے وزیرِ اعظم مارک کارنی نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک اینٹی ٹیرف سیاسی اشتہار کے معاملے پر ذاتی طور پر معافی مانگی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اشتہار کی نشریات سے قبل ہی انہوں نے ریاست اونٹاریو کے وزیرِ اعلیٰ ڈگ فورڈ کو اس کے نشر ہونے سے روکنے کی ہدایت دی تھی۔
جنوبی کوریا میں ایشیا پیسیفک سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مارک کارنی نے کہا کہ انہوں نے بدھ کی شب جنوبی کوریا کے صدر کی جانب سے دیے گئے عشائیے کے دوران صدر ٹرمپ سے بالمشافہ معذرت کی۔
کینیڈین وزیرِ اعظم نے مزید بتایا کہ وہ اشتہار کے مواد سے پہلے ہی آگاہ تھے اور ڈگ فورڈ کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال بھی کر چکے تھے، تاہم انہوں نے اس کے استعمال کی مخالفت کی تھی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق مذکورہ اشتہار اونٹاریو کے وزیرِ اعلیٰ ڈگ فورڈ نے تیار کروایا تھا، جو ایک قدامت پسند رہنما ہیں اور اکثر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشابہ قرار دیے جاتے ہیں۔
اشتہار میں سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کا ایک بیان شامل کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “ٹیرف تجارتی جنگوں اور معاشی تباہی کو جنم دیتے ہیں۔”
اس اشتہار کے ردِعمل میں صدر ٹرمپ نے کینیڈین مصنوعات پر ٹیرف میں اضافے کا اعلان کیا اور کینیڈا کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات بھی معطل کر دیے۔
دوسری جانب، رواں ہفتے کے آغاز میں جنوبی کوریا سے روانگی کے موقع پر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کی مارک کارنی سے عشائیے کے دوران “انتہائی خوشگوار گفتگو” ہوئی، تاہم انہوں نے بات چیت کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔