شعیب ملک کے بغیر بچہ پالنے میں کتنی مشکل ہو رہی ہے، ثانیہ مرزا کا انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
مایہ ناز ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے بچوں کیلئے ماؤں کی قربانیوں سے متعلق گفتگو میں کہا ہے کہ والدین کی ذمہ داریاں کبھی بھی 50-50 نہیں ہوتیں، ماں ہمیشہ زیادہ کرتی ہے، یہ دنیا ماں کےلیے برابر نہیں۔
ثانیہ مرزا نے بچوں کیلئے ماؤں کی قربانیوں سے متعلق گفتگو میں کہا ہے کہ والدین کی ذمہ داریاں کبھی بھی 50-50 نہیں ہوتیں، ماں ہمیشہ زیادہ کرتی ہے، یہ دنیا ماں کیلئے برابر نہیں۔ پاکستانی کرکٹر شعیب ملک کی سابقہ اہلیہ اور بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے ناصرف کھیلوں میں اپنی الگ پہچان بنائی بلکہ ماں بن کر بھی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔
ثانیہ مرزا نے ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جہاں انہوں نے ماں بننے کے سفر، جسمانی اور ذہنی مشکلات اور والدین کی غیر مساوی ذمہ داریوں پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ بیٹے کی ہیدائش سے پہلے کا عرصہ کافی اچھا رہا، لیکن پیدائش کے بعد بچے کو دودھ پلانے کا مرحلہ بہت مشکل ثابت ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ کیریئر، مصروف زندگی اور ایک ورکنگ ماں ہونے کی حیثیت سے میری جدوجہد الگ تھی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ صرف 6 ہفتے بعد جب میں کام پر واپس گئی، تو ہوائی جہاز میں انہیں شدید عجیب محسوس ہوا، میں روتی تھی جب اپنے بچے کو پیچھے چھوڑ کر جاتی تھی۔
ثانیہ نے کہا کہ والدین کی ذمہ داریاں کبھی بھی 50-50 نہیں ہوتیں، ماں ہمیشہ زیادہ کرتی ہے، یہ دنیا ماں کیلئے برابر نہیں، یہ صرف کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر جگہ یہی حال ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک ماں جذباتی، جسمانی اور وقت کے اعتبار سے کہیں زیادہ قربانی دیتی ہے، چاہے وہ کسی بھی طبقے یا پیشے سے ہو۔
ثانیہ کے اس بیان پر خواتین کی بڑی تعداد نے ان سے اتفاق کیا، سوشل میڈیا صارفین کہنا ہے کہ ایک کھلاڑی ہو کر بھی وہ اپنی ماں ہونے کو سب سے اوپر رکھتی ہیں، ماں ہونا سب سے مشکل اور خوبصورت ذمہ داری ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ثانیہ مرزا نے ذمہ داریاں والدین کی انہوں نے
پڑھیں:
لوگ یومیہ کتنی مائیکروپلاسٹک سانس کے ذریعے اندر لے رہے ہیں، خوفناک انکشاف
تازہ ترین تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہم يومِياً تقریباً 68,000 ایک سے 10 مائیکرو میٹر قطر والے مائیکروپلاسٹک ذرات سانس کے ذریعے اندر لے رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ تعداد پہلے کے اندازوں سے تقریباً 100 گنا زیادہ ہے۔ فرانس کی ٹولوز یونیورسٹی کی ٹیم نے 16 اندرونی ہوا جیسے اپارٹمنٹس اور کاروں کے نمونوں کو جانچا تاکہ 1–10 مائیکرومیٹر قطر کے مائیکروپلاسٹک ذرات کو شمار کیا جاسکے۔
ماہرین نے پایا کہ گھروں میں تقریباً 528 اور گاڑیوں میں تقریباً 2238 particles/m³ مائیکروپلاسٹک موجود ہوتے ہیں۔ محققین نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ ہر انسان یومیہ 10–300 مائیکرومیٹر قطر کے 3,200 بڑے مائیکروپلاسٹک سانس کے ذریعے اندر لے رہا ہے۔
اس کے علاوہ 1 سے 10 مائیکرومیٹر قطر کے 68,000 چھوٹے مائیکروپلاسٹ کے ذرات سانس کے ذریعے یومیہ داخل ہوتے ہیں۔
یہ چھوٹے ذرات آسانی سے جسم کے اندرونی حصوں تک پہنچ سکتے ہیں، جیسے پھیپھڑے، خون، اور حتیٰ کہ دماغ تک بھی۔
مائیکروپلاسٹک جسم میں اکٹھا ہو کر سوزش اور ہارمونز میں بگاڑ اور سنگین صورتحال میں اعضا کے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔