اسرائیلی کابینہ نے پورے غزہ پر قبضے کا منصوبہ منظور کر لیا، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
بن یامین نتن یاہو کی کابینہ نے حماس کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ کارروائی کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت پورے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا جائے گا اور اسرائیلی فورسز وہاں غیر معینہ مدت تک تعینات رہیں گی۔
دو اسرائیلی حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ فیصلہ پیر کی صبح کے اوائل میں ووٹنگ کے ذریعے ہوا۔
اس اقدام کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کی طرف دھکیل دیا جائے گا، جو پہلے ہی انسانی بحران سے دوچار علاقے میں صورت حال کو مزید سنگین بنا دے گا، اور اس فیصلے پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید متوقع ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زمیر نے کہا تھا کہ اسرائیل دفاعی افواج (IDF) قیدیوں کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ’دباؤ میں اضافہ‘ کر رہی ہیں جب کہ وزیراعظم نے حملے جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
فوجی سربراہ نے اتوار کو کہا ’اس ہفتے ہم اپنے ریزرو اہلکاروں کو دسیوں ہزار ڈرافٹ آرڈرز بھیج رہے ہیں تاکہ غزہ میں اپنی کارروائیوں کو تیز اور وسیع کیا جا سکے۔ ہم اپنے لوگوں کی واپسی اور حماس کی شکست کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج ’مزید علاقوں میں کارروائی کرے گی اور حماس کے تمام زمینی اور زیر زمین انفراسٹرکچر کو تباہ کرے گی۔‘
اتوار کو ایک ویڈیو پیغام میں، جسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کیا گیا، نتن یاہو نے بتایا کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کی جانب سے یمن سے داغا گیا ایک میزائل اسرائیل کے بین گوریون ہوائی اڈے کے قریب گرا۔
اس کے بعد نتن یاہو نے کہا کہ وہ غزہ میں حملوں کے ’اگلے مرحلے‘ پر بات کرنے کے لیے سکیورٹی کابینہ کا اجلاس طلب کر رہے ہیں۔
نیوز سائٹ Ynet کے مطابق، نتن یاہو نے ’دسیوں ہزار‘ ریزرو اہلکاروں کو طلب کیا ہے، جنہیں لبنان کی سرحد اور مقبوضہ مغربی کنارے پر تعینات کیا جائے گا، جب کہ پیشہ ور فوجی غزہ میں نئے آپریشن کی قیادت کریں گے۔
سکیورٹی کابینہ نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے لیے ایک نئے منصوبے کی بھی منظوری دی، اگرچہ یہ واضح نہیں کہ امدادی سامان کب غزہ میں داخل ہونے دیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق اس وقت اسرائیلی فوج کی تین ڈویژنز غزہ میں سرگرم عمل ہیں۔ نتن یاہو کی حکومت کئی بار انتباہ کر چکی ہے کہ اگر قیدیوں کے حوالے سے نیا معاہدہ طے نہیں پایا تو فوج ایک بڑی کارروائی شروع کرے گی جس کا مقصد حماس کا خاتمہ ہو گا۔
اب تک 59 قیدیوں کی رہائی کے لیے فائر بندی کے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، جن میں سے 24 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔
اسرائیلی قیدیوں کے خاندانوں نے کہا ہے کہ پورے غزہ پر قبضے کے منصوبے کے ذریعے فوج ان کے پیاروں کی ’قربانی‘ دے رہی ہے۔
’یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے فورم‘ نے ایک بیان میں کہا ’قوم کی زبردست اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اسرائیلی فتح کا تصور یرغمالیوں کی واپسی کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ہم یرغمالیوں کو کھو بیٹھے تو یہ اسرائیل کی شکست ہو گی۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ کابینہ کی منظور کردہ اس حکمت عملی کو ’سموتریچ-نتن یاہو منصوبہ‘ کہا جانا چاہیے، کیونکہ یہ یرغمالیوں کی قربانی پر مبنی ہے۔
مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ غزہ میں یہ عسکری توسیع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے ہفتے خطے کے دورے کے بعد عمل میں لائی جائے گی۔
ٹرمپ اسرائیل کا دورہ نہیں کریں گے بلکہ مئی کے وسط میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات میں بات چیت کریں گے۔
حماس نے اسرائیل پر اس مرحلہ وار امن معاہدے کو چھوڑنے کا الزام عائد کیا ہے جو مارچ کے اوائل میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد ختم ہو گیا تھا۔
اسرائیل نے تقریباً دو ہفتے بعد 18 مارچ کو غزہ پر فضائی حملے دوبارہ شروع کر دیے تھے۔
تب سے اسرائیلی فوج نے بمباری تیز کر دی ہے اور غزہ میں بڑے بفر زون قائم کر دیے ہیں، جس کے نتیجے میں 23 لاکھ کی آبادی کو غزہ کے مرکزی حصے اور ساحلی علاقوں میں مزید تنگ اور امداد کی ترسیل بند کر دی گئی ہے۔
نومبر 2023 سے اب تک 192 قیدیوں کو مذاکرات اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے رہا کروایا جا چکا ہے۔
زیادہ تر افراد سات اکتوبر، 2023 کو اس وقت اغوا کیے گئے تھے جب حماس کے زیر قیادت عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے تقریباً 1,200 افراد کو مار دیا تھا، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی،
اسرائیل کے جوابی حملے نے غزہ کے بیشتر علاقوں کو کھنڈر بنا دیا ہے اور حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق، اب تک 51,000 سے زائد فلسطینی قتل ہو چکے ہیں۔
ہفتے کے آخر میں اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اعلان کیا کہ نتن یاہو نے آذربائیجان کا دورہ مؤخر کر دیا ہے، جس کی وجہ غزہ اور شام میں تازہ پیش رفت بتائی گئی ہے۔
وزیراعظم کے دفتر نے ’سفارتی اور سکیورٹی شیڈول‘ کو بھی وجہ قرار دیا، تاہم دورے کی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ نتن یاہو کو اس ہفتے آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف سے ملاقات کرنا تھی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔