خیبر پختونخوا، سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 8 خوارج ہلاک، ایک سکیورٹی اہلکار شہید
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
آئی ایس پی آر کے مطابق 4 اور 5 مئی کو مختلف علاقوں میں 8 خوارج کو ہلاک کیا گیا۔شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا گیا جس میں 3 خوارج مارے گئے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز نے کامیاب کارروائیاں کرتے ہوئے 8 خوارج کو ہلاک کردیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 4 اور 5 مئی کو مختلف علاقوں میں 8 خوارج کو ہلاک کیا گیا۔شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا گیا جس میں 3 خوارج مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جنوبی وزیرستان میں بھی سکیورٹی فورسز نےکارروائی کی جس میں 2 خوارج ہلاک ہوگئے۔ فائرنگ کے تبادلے میں نائیک مجاہد خان شہید ہوگئے۔ نائیک مجاہد خان کی عمر 40 سال تھی اور ضلع کوہاٹ کے رہائشی تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق خیبر اور بنوں میں بھی سکیورٹی فورسز اور خوارج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جھڑپوں کے دوران 3 خوارج مارے گئے۔ مارے گئے خوارج کے قبضے سے اسلحہ، گولہ بارود اور بارودی مواد برآمد ہوا۔ ہلاک دہشت گرد سکیورٹی فورسز پر حملوں اور شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہےکہ علاقے میں کلیئرنس اور سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے، پاک فوج دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سکیورٹی فورسز کے مطابق کیا گیا ایس پی
پڑھیں:
فضل الرحمان کے بیٹے کے اغوا کی کوشش،کیا خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع نو گو ایریاز بن گئے؟
خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں نامعلوم مسلح افراد نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بیٹے کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں:ڈی آئی خان: وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا رشتہ دار فائرنگ سے جاں بحق
اس واقعے کے بعد یہ سوال شدت سے اٹھنے لگا ہے کہ کیا صوبے کے جنوبی اضلاع سکیورٹی کے حوالے سے ’نو گو ایریا‘ بن چکے ہیں؟
اغوا کی کوشش کی تصدیقجے یو آئی (ف) اور ڈی آئی خان پولیس دونوں نے واقعے کی تصدیق کر دی ہے۔ پارٹی رہنما اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر مولانا عطا الرحمان نے سینیٹ کو بتایا کہ ان کے بھتیجے اور جے یو آئی (ف) کے رہنما اسجد محمود کو کس طرح اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔
پولیس کے مطابق واقعے کی رپورٹ سی ٹی ڈی نے درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، تاہم تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
نیشنل ہائی وے پر 50 مسلح افراد کی جانب سے قافلے پر حملہمولانا عطا الرحمان نے سینیٹ میں بتایا کہ چند روز قبل اسجد محمود ایک جنازے میں شرکت کے لیے ڈی آئی خان سے لکی مروت جا رہے تھے۔ اسی دوران نیشنل ہائی وے پر تقریباً 50 مسلح افراد نے ان کا قافلہ روک لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسجد محمود عام انتخابات میں لکی مروت سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شیر افضل مروت کے مدمقابل تھے، اور وہ پارٹی کے سرگرم کارکن بھی ہیں۔
مسلح تصادم کی صورتحال، لیکن بات چیت سے رہائیمولانا اسجد کے ساتھ موجود محافظوں نے مزاحمت کی اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر بندوقیں تان لی گئیں، جس سے صورتحال کشیدہ ہو گئی۔
تاہم اسجد محمود کی طرف سے کی گئی بات چیت کے بعد شدت پسندوں کے کمانڈر نے انہیں جانے دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ڈی آئی خان: نامعلوم افراد کی فائرنگ اور بم دھماکے کے نتیجے میں بلوچستان لیویز کے 4 اہلکار شہید
عطا الرحمان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ گفتگو میں کیا بات ہوئی یا کس بنیاد پر رہائی ملی، لیکن بعد ازاں شدت پسندوں کی طرف سے موصول پیغام میں اسجد کو چھوڑنے کو ’غلطی‘ قرار دیا گیا۔
جے یو آئی کا تحفظ کا مطالبہعطا الرحمان نے سینیٹ میں زور دیا کہ جے یو آئی (ف) ہمیشہ ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑی رہی ہے، لیکن اب ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے حکومت سے اپنے رہنماؤں کے لیے تحفظ کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر ایسی کارروائیاں جاری رہیں تو جماعت خاموش نہیں رہے گی۔
ڈی آئی خان اور جنوبی اضلاع دہشتگردی کی لپیٹ میںڈی آئی خان، جو کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا آبائی ضلع بھی ہے، کافی عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صوبے کے جنوبی اضلاع، جیسے ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں، ٹانک وغیرہ میں دہشتگردوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
یہ علاقے اغوا، بھتہ خوری، اور حملوں جیسے جرائم کے لیے مشہور ہوتے جا رہے ہیں۔
ڈی آئی خان دہشتگردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کیوں؟سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، ڈی آئی خان میں دہشت گردوں کی موجودگی 2004 سے ہے۔
ان کے مطابق ڈی آئی خان چار یا اس سے زائد اطراف سے جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور پنجاب سے جڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے دہشتگردوں کے لیے یہاں سے فرار ہونا آسان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:گورنر خیبرپختونخوا کا ڈی آئی خان اور سکھر ایئرپورٹس جیسے منصوبے جلد شروع کرنے کا مطالبہ
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی آئی خان کے نواحی علاقے پسماندہ ہیں، جہاں شدت پسند گروپوں کے لیے کارروائیاں کرنا اور چھپنا آسان ہے۔
گنڈاپور گروپ کی سرگرمیاں کلاچی میں جاری ہیں اور وہ پورے ضلع میں متحرک ہے۔
گنڈاپور گروپ کی طاقت میں اضافہ کیسے ہوا؟رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، طالبان کی موجودگی اس علاقے میں پرانے وقتوں سے ہے، کیونکہ طالبان کے بانیوں میں کچھ افراد کا تعلق انہی علاقوں سے تھا۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد کئی طالبان جنگجو پاکستان آئے اور جنوبی اضلاع میں مقامی گروپوں سے مل گئے، جس سے ان گروہوں کی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ 2 سال قبل لکی مروت میں سرگرم ٹیپو گروپ نے طالبان سے الحاق کیا، جس کے بعد اس کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
تشویشناک سیکیورٹی صورتحالرفعت اللہ اورکزئی کے مطابق، طالبان کی موجودگی کا اندازہ ان اضلاع میں دہشتگردی کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے، جو صوبے کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اغوا ڈی آئی خان گنڈاپور گروپ مولانا اسجد محمود مولانا عطا الرحمان مولانا فضل الرحمان