امریکہ کے بعد برطانوی حکومت نے بھی اپنی شہریوں کو پاک بھارت سفر سے روک دیا۔
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
پاک بھارت کشیدگی :امریکہ کے بعد برطانوی حکومت نے بھی اپنے شہریوں کو پاکستان اور بھارت کا سفرنہ کرنے کی ہدایت جاری کردی ہیں۔ بھارت کا اپنا پلان کیا ہوا پہلگام حملہ کے بعد طاقت کے جنون میں پاگل مودی سرکار اور اس کے سیکیورٹی اداروں نے بنا کسی ثبوت کے پاکستان پر الزامات عائد کیے جس کے بعد پاکستان اور بھارت میں ایک نئی کشیدگی نے جنم لیا۔ جس کی لہر دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ اس معاملے کے بعد برطانوی حکام نےسفری انتباہ میں اپنے شہریوں کو پاک بھارت بارڈر اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب سفر کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔ حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ علاقے سیکیورٹی خدشات کی بنا پر خطرناک ہو سکتے ہیں۔ برطانوی دفتر خارجہ نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس خطے کا سفر ملتوی کر دیں جب تک حالات معمول پر نہ آئیں۔ بھارت اور پاکستان اپنے اپنے حصے میں سرحد پر مضبوط فوجی موجودگی رکھتے ہیں۔ برطانوی ایڈوائزری کے مطابق، بھارت اور پاکستان کے شہریوں کے لیے واحد سرکاری سرحدی گزرگاہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واگہ اور بھارت کے اٹاری کے درمیان واقع ہے۔ واضح رہے اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بھی اپنے شہریوں کے لئے بھارت اور پاکستان کی ٹریول ایڈوائزری جاری کی جا چکی ہے جس میں امریکی شہریوں کو دہشت گردی اور دیگر خطرات کے پیش نظر احتیاط برتنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ایڈوائزری میں بھارتی شہر منی پور میں تشدد اورجرائم کےعلاوہ بھارت میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خلافت و ملوکیت کا فرق
اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِ جنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔
خلافتِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔
مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے (خلافت اور ملوکیت کا فرق، ترجمان القرآن، ستمبر 1965)۔
٭—٭—٭
سانحۂ مسجدِ اقصیٰ
اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں (سانحۂ مسجدِ اقصیٰ)۔