پہلگام واقعہ کے بعد بھارت انسانیت بھول گیا، ماں سے معصوم بچے چھین کر پاکستان بھیج دیے
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
لاہور:
پہلگام واقعہ کے بعد بھارت انسانیت بھول گیا، واہگہ بارڈر پر پیر کے روز ایک ایسا منظر پیش آیا جس نے ہر حساس دل کو لرزا کر رکھ دیا۔ بھارتی حکام نے ایک بھارتی ماں ثناء بلال سے اس کے دو معصوم بچوں کو جدا کر کے پاکستان کے حوالے کر دیا جبکہ ماں بچوں کی جدائی پر تڑپتی رہی اور انسانی ہمدردی کی اپیل کرتی رہی۔
ثناء بلال، جو بھارتی شہر میرٹھ کی رہائشی اور بھارتی پاسپورٹ ہولڈر ہیں، نے چند سال قبل پاکستانی شہری بلال گجر سے شادی کی تھی اور وہ کراچی میں مقیم تھیں۔ وہ 45 دن کے ویزے پر اپنے والدین سے ملنے بھارت آئی تھیں، مگر ان کا یہ دورہ ایک اذیت ناک جدائی کی شکل اختیار کر گیا۔
ثناء کے مطابق، 25 اپریل کو جب بھارتی حکومت نے پاکستان سے آئے شہریوں کو واپسی کی ہدایت کی تو وہ فوراً اپنے دونوں بچوں ایک سالہ ماہ نور اور تین سالہ مصطفیٰ کے ساتھ اٹاری بارڈر پہنچ گئیں۔ لیکن بھارتی حکام نے انہیں پاکستان جانے سے روک دیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ثناء بھارتی شہری ہیں، جبکہ ان کے بچے پاکستانی شہریت رکھتے ہیں، اس لیے بچوں کو پاکستان واپس بھیجنا ہوگا۔
پیر کے روز جذبات سے لبریز اور دکھ بھرا وہ لمحہ آیا جب زیرو لائن پر کھڑی ماں نے اپنے معصوم بچوں کو روتے ہوئے پاکستان کی حدود میں کھڑے اپنے شوہر کے حوالے کیا۔ بچوں کی چیخ و پکار اور ماں کی آہ و بکا نے وہاں موجود سیکیورٹی اہلکاروں اور دیگر افراد کو بھی آبدیدہ کر دیا۔
ثناء نے روتے ہوئے کہا "بتائیں، یہ معصوم بچے ماں کے بغیر کیسے رہیں گے؟ کیا قانون میں انسانیت کی کوئی گنجائش نہیں؟"بچوں کے والد بلال ،انہیں سینے سے لگائے اور اپنی اہلیہ کو نم آنکھوں کے ساتھ الوداع کہتے ہوئے کراچی روانہ ہوگئے۔
یہ واقعہ نہ صرف سرحدی قانون اور شہریت کے پیچیدہ مسائل کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا قوانین اتنے بے رحم ہو سکتے ہیں کہ وہ ایک ماں کو اپنے بچوں سے جدا کر دیں؟ ماں کی ممتا، بچوں کی معصومیت، اور ایک خاندان کی بکھرتی ہوئی تصویر اس واقعے میں پوری شدت سے نمایاں ہوئی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارتی فلم ساز پاکستان سے جنگ میں شکست کابدلہ لینے کیلئے سرگرم
بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے کچھ فلم ساز حالیہ پاک-بھارت کشیدگی پر مبنی کہانیوں کو فلمی منصوبوں میں تبدیل کر کے تجارتی فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ، بھارتی فلم ساز ان عنوانات کے حقوق حاصل کر رہے ہیں جن سے پاکستان کے خلاف جنگی جذبات اور حب الوطنی کی لہر کو فلمی کامیابی میں بدلا جا سکے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مئی 2025 میں دونوں جوہری طاقتوں — پاکستان اور بھارت — کے درمیان شدید جنگ چھڑ گئی تھی، جو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ایک حملے کا الزام پاکستان پر دھرنے کے بعد شروع ہوئی۔ جنگ چار روز جاری رہی اور بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اچانک مداخلت سے جنگ بندی پر ختم ہوئی۔
آپریشن سندور” پر فلمی دوڑ
بھارت نے اس کارروائی کو آپریشن سندور کا نام دیا، جو ہندی زبان میں شادی شدہ ہندو عورتوں کے ماتھے پر لگائے جانے والے سرخ رنگ کی علامت ہے۔ یہ نام خاص طور پر **پہلگام حملے میں بیوہ ہونے والی خواتین کے بدلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اسی عنوان کو بنیاد بناتے ہوئے، متعدد فلمی اسٹوڈیوز نے مشن سندور، سندور: دی ریونج ، دی پہلگام ٹیرر اور سندور آپریشن” جیسے نام رجسٹر کروا لیے ہیں ۔
فلم سازوں کی رائے منقسم
معروف ہدایتکار وویک اگنی ہوتری، جن کی فلم “دی کشمیر فائلز” 2022 میں ریلیز ہوئی تھی، اس موضوع پر فلم بنانے کے حق میں ہیں۔ ان کے بقول، “اگر یہ ہالی ووڈ ہوتا تو اب تک ایسی 10 فلمیں بن چکی ہوتیں۔” تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی فلمیں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔
دوسری جانب، سینئر فلم ساز انیل شرما ، جن کی فلمیں غدر اورغدر 2 مقبول رہی ہیں، اس رجحان کو بھیڑ چال قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “فلم سازی کوئی فوری ردعمل کا عمل نہیں، بلکہ جذباتی سچائی اور ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔
حب الوطنی یا پروپیگنڈا؟
فلم نقاد راجا سین نے خبردار کیا کہ جنگ جیسے حساس موضوعات پر یکطرفہ فلمیں بناناپروپیگنڈا اور غلط معلومات کو فروغ دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، جب ایک ایجنڈا کے تحت درجنوں فلمیں بنیں اور دوسری طرف کو سننے کا موقع نہ ملے، تو یہ سینما کی سچائی پر سوال اٹھاتا ہے۔
معروف ہدایتکار راکیش اوم پرکاش مہرانے بھی اس رجحان پر تنقید کی اور کہا، “اصل حب الوطنی وہ ہے جو فلم کے ذریعے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دے۔
یاد رہے، مہرا کی فلم رنگ دے بسنتی (2006) نہ صرف نیشنل فلم ایوارڈ جیت چکی ہے بلکہ گولڈن گلوب اور آسکر ایوارڈز کے لیے بھارت کی سرکاری انٹری بھی رہی۔