چناب میں پانی روکنے کی چھیڑ چھاڑ سے پاکستان متاثر نہیں ہوگا، ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
انڈیا کی جانب سے بگلیہار ڈیم کے سپل ویز بند کیے جانے اور دریائے چناب کے بہاؤ میں اچانک کمی پر ماہرین نے تشویش کو غیر ضرورری قرار دے دیا ہے اور کہا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگرچہ انڈیا کی طرف سے یہ عمل ایک معمولی تکنیکی سرگرمی قرار دیا جا رہا ہے، تاہم پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام موجودہ سیاسی ماحول میں ایک ”نفسیاتی حربہ“ بھی ہو سکتا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انڈیا نے بغیر اطلاع دیے مئی کے مہینے میں بگلیہار ڈیم کی صفائی اور دوبارہ پانی جمع کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، حالانکہ یہ کام عموماً اگست میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے آبی ماہرین کے مطابق مئی کا مہینہ برصغیر میں پانی کی قلت کا دور ہوتا ہے، اور اس وقت سپل ویز بند کرنا بظاہر پاکستان کے لیے پانی کی عارضی قلت پیدا کر سکتا ہے۔
آبی امور کے ماہر ڈاکٹر شعیب احمد نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ عمل اگرچہ ہر سال ہوتا ہے، لیکن اس بار وقت کا انتخاب غیر معمولی ہے۔ بظاہر یہ ایک نفسیاتی چال لگتی ہے تاکہ پاکستان کو دباؤ میں لایا جا سکے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ عملی اثر نہیں پڑے گا۔‘
اسی رائے کی توثیق نصیر میمن نے بھی کی، جو آبی تنازعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کی آبی ذخائر کی صلاحیت اتنی نہیں ہے کہ وہ طویل عرصے تک پانی روک سکے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا اپنا ہائیڈرو پاور سسٹم متاثر ہوگا۔‘
ان کے مطابق انڈیا کے پاس ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس سے وہ چناب یا دیگر دریاؤں کا پانی مکمل طور پر موڑ سکے۔
انڈس واٹر کمیشن کے سابق ایڈیشنل کمشنر شیراز میمن نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب درجہ حرارت بڑھے گا اور پہاڑوں پر برف پگھلے گی تو بہاؤ خود بخود بحال ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت خطے میں پانی کی کمی اور بارشوں کی قلت بھی بہاؤ پر اثر انداز ہو رہی ہے، لیکن یہ عارضی کیفیت ہے۔‘
ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا پر لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے قبل پاکستان کو مطلع کرے اور پانی کے بہاؤ سے متعلق ڈیٹا فراہم کرے، لیکن موجودہ صورتحال میں نقصان محدود ہے۔
ان کے مطابق انڈیا کی جانب سے معلومات نہ دینا معاہدے کی خلاف ورزی ضرور ہے، لیکن اس سے فوری طور پر پاکستان کی زراعت یا معیشت کو شدید دھچکا لگنے کا امکان نہیں۔
ماہرین اس پر بھی متفق ہیں کہ انڈیا اگر مستقبل میں دریاؤں کے بہاؤ کا رخ موڑنے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے بڑے پیمانے پر نہریں تعمیر کرنی پڑیں گی، جو کم از کم دو دہائیاں لے سکتی ہیں۔ اس دوران پاکستان کے پاس سفارتی اور قانونی ذرائع موجود ہیں جنہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ کے باعث پاکستان میں ایرانی مصنوعات کی سپلائی شدید متاثر
اچھے معیار اور کم قیمتوں کے باعث پاکستان میں ایرانی مصنوعات کی طلب زیادہ ہے تاہم ایران اسرائیل جنگ کے باعث پاکستان میں ایرانی مصنوعات کی سپلائی شدید متاثر ہوئی ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے پیشِ نظر بلوچستان کے ذریعے پاکستان اور ایران کو ملانے والے راستوں پر تجارت اور مصنوعات کی سپلائی متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ایرانی مصنوعات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
تاجروں کا کہنا ہے صورتحال معمول پر آنے تک مشکلات برقرار رہیں گی، راولپنڈی کی ایران مارکیٹ میں کاروباری لوگ مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کے باعث پریشان ہیں۔
دوسری جانب صارفین کا کہنا ہے ایرانی مصنوعات دیگر بین الاقوامی مصنوعات کے مقابلے میں 50 فیصد تک سستی ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں ایرانی دودھ، مکھن، زیتون، بسکٹ، کیک، ٹافیاں، شہد، چاکلیٹس، مشروبات، نوڈلز، صابن، ڈرائی فروٹ، اچار، آئل، گھی، مسالے، کیچ اپ، پرفیوم، شیمپو، کاسمیٹکس اور دالوں سمیت دیگر اشیائے خوردنی کی چیزیں زیادہ درآمد کی جاتی ہیں۔
ایرانی مصنوعات معیاری اور سستی ہونے کے باعث پاکستان میں درآمد شدہ دیگر بین الاقوامی مصنوعات کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں۔
Post Views: 5