سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری کی ایک لاکھ روپے مالیت کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل سپریم کورٹ کے  3 رکنی بینچ نے جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 9 مئی واقعات: سپریم کورٹ نے سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت منظور کرکے رہا کرنے کا حکم دیدیا

فیصلے کے مطابق استغاثے کی جانب سے اندراج مقدمہ اور سپلیمنٹری بیان میں تاخیر کی وضاحت نہیں دی گئی، سازش کا الزام استغاثہ نے ٹرائل میں ثابت کرنا ہے۔

فیصلے کے مطابق سینیٹر اعجاز چوہدری 12 مئی کو درج کی جانیوالی ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیے گئے تھے، انہیں10 جون کو سوشل میڈیا مواد کی بنیاد پر مقدمہ میں نامزد کیا گیا۔

مزید پڑھیں:کوٹ لکھپت جیل انتظامیہ کا سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد سے انکار

عدالتی فیصلے کے مطابق ضمانت بطور سزا روکی نہیں جا سکتی، درخواست کو اپیل میں تبدیل کرکے منظور کیا جاتا ہے، اور اعجاز چوہدری کی تھانہ سرور روڈ لاہور میں درج مقدمے میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پی ٹی آئی جسٹس اشتیاق ابراہیم جسٹس محمد ہاشم کاکڑ جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ سینیٹر اعجاز چوہدری ضمانت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی جسٹس اشتیاق ابراہیم جسٹس محمد ہاشم کاکڑ جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ سینیٹر اعجاز چوہدری سینیٹر اعجاز چوہدری اعجاز چوہدری کی سپریم کورٹ

پڑھیں:

پنجاب اسمبلی: ایک سال کے اندر 17 پرائیویٹ یونیوسٹیز کے بل کیسے منظور ہوئے؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت پبلک سیکٹر کی 160 یو نیورسٹیز بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔ پنجاب میں 109 پرائیویٹ یونیورسٹیز  الگ سے تعلیم کے میدان میں کام کر رہی ہیں۔

پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز  بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے رولز میں بھی نرمی کر رکھی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹی کے لیے سب سے اہم شرط تھی کہ جہاں بھی یونیورسٹی بنے گی اس کی کم سے کم جگہ 10 ایکڑ مختص کی جائے گئی۔ اور وہ 10 ایکڑ جگہ ایک ہی جگہ پر ہو، مگر اب رولز کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اگر 3 ایکڑ زمین شہر میں موجود ہے اور 70 ایکٹر زمین کسی اور جگہ پر یو نیورسٹی کے نام پر رکھی ہوئی ہے تو نئی یونیورسٹی بن  سکتی ہے۔ ایک ہی جگہ پر 10 ایکڑ زمین ہونا لازمی شرط اب نہیں رہی۔ اگر کسی کے پاس اپنی زمین نہیں ہے تو وہ لیز پر زمین لے کر بھی یونیورسٹی بنا سکتا ہے۔ جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں 2024 سے لے کر جولائی 2025 تک 17 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل ایوان سے منظور کروائے گئے ہیں۔ 2024 میں 3 پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز کے ترمیمی چارٹر منظور کیے گئے مگر 2025 میں 7 ماہ کے اندر  14 نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور  بعض ترمیمی بل منظور کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے پنجاب اسمبلی: لیگی ایم پی اے نے اپنے ہی وزیر کیخلاف تحریک استحقاق جمع کردی، وجہ کیا بنی؟

2024 میں پرائیویٹ سیکٹر کی لاہور لیڈز یونیورسٹی (ترمیمی) بل، سینیٹ ہل یونیورسٹی بل۔ انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب ملتان (ترمیمی) بل۔ 2025 میں  اے جی این یونیورسٹی بل، ایشین یونیورسٹی فار ریسرچ اینڈ اڈوانسمنٹ بل ، مصرت انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بل، دی ٹائمز انسٹیوٹ ملتان بل،  مکبر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، گجرات بل، رائت بہرہ پروفیشنل یونیورسٹی، ہوشیارپور بل، گلوبس یونیورسٹی کمالیہ بل سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے بل منظور کیے گئے۔

یہ تمام بلز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پرائیویٹ ممبرز ڈے پر پیش ہوئے اور ان کو منظور کر لیا گیا۔

پنجاب میں تعلیم نعروں کی حدد تک نظر آتی ہے

ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی کا وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پنجاب حکومت  کی طرف سے پہلے ہی پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیز کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، ان کی فنڈنگ کم کر دی گئی ہیں جبکہ بعض یونیورسٹیوں کے فنڈز روک دئیے گئے ہیں۔ پہلے اضلاع کی سطح پر یونیورسٹیز بنائی گئیں۔ اب تحصیل لیول تک یونیورسٹیز بنائی جارہی ہیں۔ اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کے چارٹر بڑی تعداد میں منظور کروائے جارہے ہیں۔ پیسے والے لوگ اسمبلیوں سے چارٹر منظور کروا لیتے ہیں اور یونیورسٹیز بناتے نہیں ہیں۔ پھر وہ چارٹر کسی کو بیچ دیتے ہیں۔ حکومت کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ پنجاب میں تعلیم کے فروغ سے زیادہ یونیورسٹیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ معیار تعلیم کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

محکمہ تعلیم کا موقف کیا ہے؟

وی نیوز نے اس حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات سے رابط کیا، انہیں سوالنامہ بھیجا گیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، مگر کچھ عرصہ قبل ہائر ایجوکیشن کی اسٹیڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ دوران اجلاس صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے عہدیداروں سے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ایک ماہ میں 25، 25 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل پاس ہوتے ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ اب تو صوبہ کے لوگ چوک چوراہوں میں باتیں کر رہے ہیں کہ اسمبلی میں 2، 2 کروڑ روپے لے کر یونیورسٹیوں کے بل پاس کروائے جاتے ہیں۔ بل آنے سے قبل طے ہوتا ہے کہ بل آئے گا اور پاس ہو جائے گا۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ پرائیویٹ ممبر بل کا روٹ کیوں لیا جارہا ہے۔ ہم یونیورسٹی مالکان سے رابطے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بل کہاں سے آ رہے ہیں۔ 32 پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے بل 3 ہفتوں میں منظور کروائے گئے۔ پاکستان کو بنے 77 سال ہو گئے ہیں اتنے بل تاریخ میں کبھی منظور نہیں ہوئے جتنے 3 ہفتوں میں ہوئے ہیں۔

صوبائی وزیر تعلیم کے اس بیان کے بعد اراکین نے پنجاب اسمبلی میں اپنے ہی وزیر کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی۔

یہ بھی پڑھیے فروغ تعلیم کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا انقلابی فیصلے کیے ہیں؟

صوبائی وزیر تعلیم کے اس خطاب کے خلاف مسلم لیگ ن کے ایم پی اے امجد علی جاوید نے تحریک استحقاق جمع کروا رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہ خطاب ایوان کی حرمت، وقار  اور استحقاق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اراکین اسمبلی پر بدعنوانی کا عمومی الزام لگایا ہے اور الزام لگانے سے پہلے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ اس خطاب سے ہمارا عوامی اعتماد مجروح ہوا اور ایوان کی ساکھ کو دھچکا پہنچا ہے۔

 ذرائع کے مطابق تحریک استحقاق آنے کے بعد صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے بل منظور ہونے پر خاموش ہوگئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پنجاب اسمبلی صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات

متعلقہ مضامین

  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں
  • نان نفقہ کو لیکر حقائق کی جانچ فیملی کورٹس نے کرنی ہیں یہ سپریم کورٹ کا کام نہیں. چیف جسٹس
  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے، چیف جسٹس
  • سندھ کے محکموں میں فوکل پرسنز کا تقرر؛ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے میں ترمیم کردی
  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے: چیف جسٹس
  • حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے: چیف جسٹس
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کا 4 تا 8 اگست کا روسٹر جاری
  • پنجاب اسمبلی: ایک سال کے اندر 17 پرائیویٹ یونیوسٹیز کے بل کیسے منظور ہوئے؟
  • سی ایس ایس امتحانات 2026 کے شیڈول کا اعلان
  • اکبر ایس بابر کا بیرسٹر گوہر کی آسٹریلیا کے ہائی کمشنر سے ملاقات پر خط، غلطی تسلیم کرنے کا مطالبہ