مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی: کیا ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ وہ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں لیکن نظر ثانی کے گراؤنڈز نہیں بتا رہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ جو باتیں آپ بتا رہے ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے، آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں اسے چھوڑ دیں۔
جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے، آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں اور آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں پہلے یہ بتاٸیں۔
یہ بھی پڑھیں:
سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی بینچ میں شامل ہیں، سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آگئے، ان کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی۔
جس پر جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق عدالت کے سامنے آراو کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔
مزید پڑھیں:
حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکلا کی فوج نے بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں، کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ عدالت نے سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا، جسٹس عقیل عباسی بولے؛ آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں لیکن نظر ثانی کے گراؤنڈز نہیں بتا رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی دائر ہے، پی ٹی آئی کے وکیل رہنما سلمان اکرم راجہ بولے؛ توہین عدالت کی درخواست آج لگی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں:
جسٹس ہاشم کاکڑ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے، ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن بولے؛ ہم نے ایک پیرااگراف کی حد تک عمل کیا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے دریافت کیا کہ کیا یہ آپ کی منشا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیس کو چھوڑیں یہ آپ سپریم کورٹ کو لے کہاں جا رہے ہیں، کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ انہیں دائر کردہ پٹیشن کے قابل سماعت ہونے سے متعلق ایک سوال ہے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھا لیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکشن کمیشن جسٹس جمال مندوخیل جسٹس عائشہ ملک جسٹس عقیل عباسی جسٹس ہاشم کاکڑ حارث عظمت سپریم کورٹ سکندر بشیر مہمند مخصوص نشستوں نظر ثانی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن جسٹس جمال مندوخیل جسٹس عائشہ ملک جسٹس عقیل عباسی جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ مخصوص نشستوں جسٹس جمال مندوخیل جسٹس عقیل عباسی جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں الیکشن کمیشن فیصلے پر کے فیصلے رہے ہیں کے وکیل
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کل تک ملتوی
سپر ٹیکس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ 80 ارب روپے میں سے 42.5 فیصد شیٸر وفاق کے پاس جائے گا تو باقی کہاں جائیں گے، ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کو یہ شیٸر این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملے گا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس مقصد کے لیے پیسہ اکٹھا ہو تو اسی پر ہی خرچ ہونا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ 80 ارب سپر ٹیکس سے اکھٹے ہونے پر اسکی تقسیم کیسے ہوگی، رضا ربانی کا جواب تھا کہ وفاقی حکومت کے ذریعے یہ فنڈز خرچ ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: سپر ٹیکس کا ایک روپیہ بھی بے گھر افراد کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، وکیل مخدوم علی خان کا دعویٰ
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ یہ متاثرین کون ہے جن پر یہ فنڈز خرچ ہونا ہیں، جس پر رضا ربانی نے بتایا کہ دہشتگردی سے خیبرپختونخوا اور فاٹا کے متاثرین کے لیے یہ فنڈز ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ جب بجٹ تقریر میں واضح ہے تو یہ پیسے پورے ملک میں کیوں خرچ ہوں گے، جس پر رضا ربانی کا مؤقف تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ قومی مسئلہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صوبوں کا معاملہ انتہائی اہم ہے، این ایف سی بھی اسی لیے تشکیل دیا گیا، اگر میں آپ کے نام پر پیسہ لوں اور خرچ نہ کروں تو کیا ہوگا۔
مزید پڑھیں: سوال یہ ہے کہ سپر ٹیکس مقصد کے مطابق خرچ ہوئے ہیں یا نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس
ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ آپ تو 18ویں آٸینی ترمیم کے آرکیٹیکٹ ہیں، ایسے تو آپ این ایف سی ایوارڈ کا ستیاناس کردیں گے، یہ پیسے پورے ملک سے اکٹھے ہورہے ہیں تو اس پر تمام صوبوں کا حق ہے۔ جس پر میں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وہ معذرت خواہ ہیں کہ عدالت کو درست سمجھا نہیں پارہے، این ایف سی ایوارڈ کے تحت تمام پیسے فیڈرل کنسالیڈیٹڈ فنڈ میں اکٹھا ہوتے ہیں جبکہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت حصہ مل رہا ہے۔
سماعت کے اختتام پر کمپنیز کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت سے آڈیٹر جنرل اور سیکریٹری فائنانس کو طلب کرنے کی درخواست کی، جس پر آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان بولے؛ اٹارنی جنرل کا جواب آنے دیں پھر دیکھتے ہیں انہیں بلانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
ان ریمارکس کے ساتھ سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آڈیٹر جنرل سپر ٹیکس کیس سپریم کورٹ سیکریٹری فائنانس