سپریم کورٹ آئینی بنچ کے فیصلے نے آئینی عمارت منہدم کر دی
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 07 مئی 2025ء ) سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آئینی بنچ کے فیصلے نے آئینی عمارت منہدم کر دی ، فیصلے نے اجازت دے دی کہ کوئی افسر بند کمروں میں سویلینز کا ٹرائل کر کے 14 سال 10 سال یا بعض کیسوں میں سزائے موت بھی دے سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کی جانب سے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کے فیصلے پر تحریک انصاف کے سینئر رہنما سلمان اکرم راجہ نے ردعمل دیا ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ آج کے فیصلے نے آئینی عمارت منہدم کر دی ہے آج کے فیصلے نے اجازت دے دی ہے کہ کرنل صاحب یا میجر صاحب سویلینز کے ٹرائل بند کمروں میں کر کے 14 سال 10 سال یا بعض کیسوں میں سزائے موت بھی دے سکتے ہیں ۔ ان عدالتوں میں کس بنیاد پر سویلین کے ٹرائلز ہونگے؟ کسی نے صرف الزام لگانا ہے کہ فلاں نے فلاں عمارت تک پہنچنے کی کوشش کی یا فلاں عمارت تک پہنچ گیا یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے لہذا اس کا ٹرائل اب ملٹری کورٹ میں ہو اور آپ کے خلاف فیصلہ آئے گا فیصلہ بھی ایسا کہ Guilty or not guilty کوئی فئیر ٹرائل نہیں ہونا اوپر سے حکم آئے گا اتنوں کو سزا سنا دو اور اس کی کوئی اپیل نہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل 175(3) پاکستان کے آئین میں انقلاب تھا اس سے پہلے بہت سارے علاقوں میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر عدالت لگایا کرتے تھے یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں سزائے موت کا اختیار بھی کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے پاس تھا ۔ دوسری جانب سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی تفصیلی ردعمل جاری کیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے جاری تفصیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئین کے ساتھ مذاق، جمہوریت پر حملہ، قومی یکجہتی کو نقصان کے مترادف سمجھتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کو افسوسناک تصور کرتی ہے جس کے تحت سویلین شہریوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ممکن قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 10-A، 175(3) اور 9 کی صریح خلاف ورزی ہے، بلکہ بنیادی انسانی حقوق، بین الاقوامی معاہدات اور جمہوری اقدار کے بھی خلاف ہے۔ آج یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے کی 2023 میں سپریم کورٹ کے 12 رکنی بنچ میں سے 7 ججز کہہ چکے ہیں کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیر آئینی ہے، تو پھر 5 ججز کی اقلیتی رائے اور 7 ججز کا بنچ کس بنیاد پر نافذ کی جا رہی ہے؟ یہ عدالتی فیصلہ ہے یا کسی اور دباؤ کا نتیجہ؟ تحریک انصاف واضح کرتی ہے کہ فوجی افسر جج نہیں ہو سکتا، اور بند دروازوں کے پیچھے ہونے والا ٹرائل، "اوپن کورٹ" نہیں کہلا سکتا۔ یہ فیصلہ انصاف نہیں بلکہ 26 ویں ترمیم کا شاخسانہ ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ فیصلہ قومی یکجہتی کے اس بیانیے کو بھی سبوتاژ کرتا ہے جسے حکومت خاص طور پہ پہلگام واقعے کے بعد روزانہ اس کا درس دیتی ہے۔ کل رات بھارت کی جارحیت کے بعد حکومت دو ہفتوں سے مسلسل اپوزیشن، خصوصاً عمران خان سے قومی یکجہتی کے نام پر حمایت مانگ رہی ہے۔ آج قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین نے وزیراعظم کی تقریر خاموشی سے سنی، صرف اس لیے کہ بھارت اور دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ ہم کسی بھی بیرونی حملے کے خلاف یکجا اور متحد ہیں۔ لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ یہ افسوسناک فیصلہ صرف اس لئے آیا تاکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو اس قانون کی آڑ میں فوجی عدالتوں کے ذریعے زبردستی سزا دلوائی جا سکے۔ عدلیہ کی جانب سے یہ فیصلہ دینا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے کیا یہ قومی یکجہتی کو تقویت دے گا یا اسے کمزور کرے گا؟ یہ فیصلہ تو واضح پیغام دیتا ہے کہ حکومت ایک طرف یکجہتی کی بات کرتی ہے، دوسری طرف اپوزیشن کو فوجی عدالتوں کے سپرد کر کے سیاسی انتقام کا ایندھن بناتی ہے۔ سویلین کا ٹرائل صرف سویلین عدالت میں ہو سکتا ہے ورنہ یہ ملک قانون نہیں، لاٹھی کے زور پر چلے گا۔ ہم اس فیصلے کے خلاف ہر آئینی، سیاسی اور عوامی محاذ پر آواز بلند کریں گے کیونکہ یہ صرف تحریک انصاف کا نہیں، آئین اور جمہوریت کا مقدمہ ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں تحریک انصاف عدالتوں میں قومی یکجہتی کے فیصلے نے کا ٹرائل یہ فیصلہ
پڑھیں:
حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اگست2025ء) چیف جسٹس آف پاکستان نے اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، سپریم کورٹ حقائق کی جانچ سے متعلق مداخلت نہیں کرے گی، ہم سمجھتے ہیں ہائیکورٹ کو بھی حقائق کی جانچ میں نہیں جانا چاہئے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلیں مسترد کردیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحی آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ فیملی کورٹ نے شادی کے تاریخ اور بچوں کی تاریخ پیدائش سے نان نفقہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے، درخواست گزار علیحدگی کے بعد سے نان نفقہ دینے کو تیار ہے۔(جاری ہے)
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں حقائق کی جانچ سے متعلق معاملات نہیں آنے چاہیئے، حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔
ہم یہاں صرف قانون کے خلاف ورزی کو دیکھیں گے۔ نان نفقہ سے متعلق حقائق کی جانچ فیملی کورٹس نے کرنی ہیں۔ سپریم کورٹ حقائق کی جانچ سے متعلق مداخلت نہیں کرے گی، ہم سمجھتے ہیں ہائیکورٹ کو بھی حقائق کی جانچ میں نہیں جانا چاہئے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مزید مکالمہ کیا کہ آپ نے 2022 سے نان نفقہ ادا نہیں کیا ہے۔ 3 برسوں سے آپ نے اپنے بچوں کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا ہے۔ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ آپ جو بات کررہے ہیں اس کے لئے ریکارڈ کا جائزہ لینا پڑے گا۔ حقائق کی جانچ کا فورم ماتحت عدالت ہے۔ چیف جسٹس یحی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ اس مرحلے پر مداخلت نہیں کرے گی۔ عدالت نے نان نفقہ کی ادائیگی کیخلاف مختلف اپیلیں مسترد کردیں۔