احسن خان کا پیغام: پاکستان کا موقف، امن کے لیے ایک آواز
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
پاکستان کے مشہور اداکار احسن خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی بزدلانہ کارروائی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کی بات کرتا آیا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ پورے خطے میں امن قائم ہو احسن خان نے کہا کہ پاکستان کا موقف ہمیشہ صاف اور واضح رہا ہے کہ جنگ نہیں، بلکہ امن اور استحکام کی طرف بڑھنا ضروری ہے انہوں نے بھارت کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر رات کے اندھیرے میں دہشت گردی کی جائے تو اس کا کیا جواب دیا جانا چاہیے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب پورے ملک کی قوم کو دینا ہوگا احسن خان نے قوم سے اپیل کی کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک متحدہ طاقت بن کر اپنے وطن کا دفاع کریں پاکستان کی شوبز شخصیات سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بھارت کی جانب سے کی جانے والی بزدلانہ کارروائیوں پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور پورے ملک میں ایک نیا عزم اور جذبہ نظر آ رہا ہے کہ قومی یکجہتی کے ساتھ وطن کا دفاع کیا جائے گا
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
دنیا کا ’پہلا‘ برین ٹو وائس ٹرانسپلانٹ: قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے نئی امید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2025ء) رواں ماہ نیچر سائنس جرنل میں شائع ایک اہم تحقیق نے قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے ایک انقلابی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے۔ اسے 'برین ٹو وائس نیورو پروستھیسس‘ یا 'برین ٹرانسپلانٹ‘ کہا جا رہا ہے، جو دماغ کی برقی سرگرمیوں کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ریئل ٹائم میں آواز میں تبدیل کرتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی پرانے سسٹمز کے مقابلے میں نمایاں طور پر تیز ہے، جو دماغی سگنلز کو آواز میں بدلنے میں تاخیر کا باعث بنتے تھے۔ نئی ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے؟یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس (UC Davis) کے سائنسدانوں نے ایک جدید برین کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) تیار کیا ہے، جو اعصابی امراض جیسے امیوٹروفک لیٹرل سکیلیروسس (اے ایل ایس) کے باعث قوت گویائی سے محروم افراد کی بات چیت کی صلاحیت بحال کرتا ہے۔
(جاری ہے)
یہ سسٹم دماغی سرگرمیوں کو بغیر کسی تاخیر کے آواز میں ڈھالتا ہے۔تحقیق کے تجربات ایک 45 سالہ اے ایل ایس مریض پر کیے گئے، جو موٹر نیورون کی بیماری کی وجہ سے واضح بولنے سے قاصر تھا۔ اے ایل ایس ایک ایسی حالت ہے، جس میں پٹھوں کو کنٹرول کرنے والے اعصاب متاثر ہوتے ہیں، بشمول وہ اعصاب، جو بولنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔
مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ بھی اسی مرض کا شکار تھے، جو رخساروں کی حرکت اور آنکھوں کے اشاروں سے کمپیوٹر کی مدد سے بات چیت کرتے تھے، لیکن اس عمل میں کافی وقت لگتا تھا۔
اس نئی ٹیکنالوجی نے اے ایل ایس مریض کو اپنے خاندان سے بات چیت، لہجہ بدل کر جواب دینے اور سادہ دھنوں پر گانا گانے کی مشق کروائی، جس کے نتائج حوصلہ افزا رہے۔
تحقیق کے پیچھے سائنستحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس نیورو پروستھیٹک لیب کے کو-ڈائریکٹر سرگئی ستاوسکی کے مطابق پرانے بی سی آئی سسٹمز ٹیکسٹ میسجنگ کی طرح کام کرتے تھے، جن میں دماغی سرگرمیوں کو آواز میں ڈھالنے میں تاخیر ہوتی تھی۔
نئی ٹیکنالوجی ایک صوتی کال کی طرح ہے، جو نیورل سگنلز کو فوری طور پر آواز میں بدلتی ہے۔ اس سے معذور افراد دوران گفتگو اپنی رائے فوراً پیش کر سکتے ہیں۔انسانی دماغ میں چپ امپلانٹ کی منظوری مل گئی، نیورا لنک
تحقیق کی مرکزی مصنف میتری ویراگکر بتاتی ہیں کہ مریض کی سرجری کے ذریعے دماغ کے موٹر ایریا میں 256 سلیکون الیکٹروڈز (تقریباً 1.5 ملی میٹر سائز) نصب کیے گئے۔
یہ الیکٹروڈز ہر 10 ملی سیکنڈ میں دماغی سگنلز کو پکڑتے ہیں۔ ایک ڈیپ لرننگ سسٹم ان سگنلز کو ریئل ٹائم میں ڈی کوڈ کر کے بولے گئے الفاظ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ویراگکر کے مطابق بات چیت صرف الفاظ تک محدود نہیں ہوتی، چہرے کے تاثرات کے ساتھ ساتھ 'اوہ‘، 'ہمم‘ جیسی غیر معیاری اصوات بھی اہم ہیں۔ ان کی ٹیم نے اس سسٹم کے ذریعے ان اصوات کو بھی ڈی کوڈ کرنے کے قابل بنایا، جو مریض کی آواز کو زیادہ فطری بناتی ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کا مستقبلپاکستان کے نیورو سرجن ڈاکٹر امان اللہ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی اے ایل ایس اور دیگر اعصابی امراض کے مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''گویائی کی قوت سے محرومی ایک تکلیف دہ تجربہ ہے، جو مریض کو سماجی اور جذباتی طور پر الگ تھلگ کر دیتا ہے۔ یہ بی سی آئی سسٹم ان افراد کو معمول کی زندگی میں واپس لانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
‘‘تاہم ڈاکٹر امان اللہ نے خبردار کیا کہ فی الحال یہ تحقیق صرف ایک اے ایل ایس مریض پر کی گئی ہے۔ چونکہ اعصابی امراض کی نوعیت ہر فرد میں مختلف ہوتی ہے، اس لیے اس ٹیکنالوجی کی افادیت کو جانچنے کے لیے دیگر امراض سے متاثرہ افراد پر بھی تجربات کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ برین ٹو وائس نیورو پروستھیسس قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے ایک انقلابی پیش رفت ہے۔ تاہم اس کی وسیع پیمانے پر افادیت کے لیے مزید تحقیق ضروری ہے۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں لاکھوں افراد کی زندگیاں بدل سکتی ہے۔
ادارت: امتیاز احمد