جے-10 بمقابلہ رافیل: پاک بھارت فضائی جنگ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
اسلام آباد / نئی دہلی: پاکستان اور بھارت کے درمیان 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب ہونے والی فضائی جھڑپ نے دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے۔
اس جھڑپ میں چین کے تیار کردہ پاکستانی جے-10 لڑاکا طیارے اور فرانسیسی ساختہ بھارتی رافیل طیارے ایک دوسرے کے مدِمقابل آئے، جسے عالمی ماہرین آئندہ جنگی حکمت عملیوں اور فضائی ٹیکنالوجی کی جانچ کے لیے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔
پاک فوج کے مطابق، پاکستانی فضائیہ نے بھرپور دفاع کرتے ہوئے 5 بھارتی طیارے مار گرائے جن میں 3 رافیل طیارے شامل تھے۔ امریکی ذرائع نے تصدیق کی کہ پاکستانی پائلٹوں نے دو بھارتی طیاروں کو نشانہ بنایا۔ جھڑپ کے دوران 125 سے زائد طیارے شریک تھے جبکہ میزائلوں کا تبادلہ 160 کلومیٹر تک کی دوری سے بھی کیا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ دنیا کی افواج کے لیے ایک عملی مظاہرہ تھا جس سے وہ جدید فضائی ہتھیاروں، پائلٹس کی مہارت، اور حکمت عملیوں کا تجزیہ کر سکیں گے۔
امریکا، چین، اور یورپی ممالک اس جھڑپ کی مکمل رپورٹس کا تفصیلی مطالعہ کریں گے تاکہ اپنی فضائی افواج کو مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار کیا جا سکے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اضافی امریکی ٹیرف کے نفاذپر بھارت کا ردعمل سامنے آگیا
بھارت نے امریکا کی جانب سے روس سے تیل کی درآمدات پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے پر سخت اعتراض کیا ہے۔ بھارتی حکام نے اس اقدام کو غیر منصفانہ اور غیر معقول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی تیل کی درآمدات مارکیٹ کے اصولوں پر مبنی ہیں اور ان کا مقصد ملک کی 1.4 ارب کی آبادی کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا کا یہ اقدام انتہائی افسوسناک ہے، خاص طور پر اس وقت جب کئی دوسرے ممالک بھی اپنے قومی مفادات کے تحت ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ ان کارروائیوں کو نہ صرف غیر منصفانہ سمجھا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ یہ کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ہیں۔ بھارتی حکام نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا کے فیصلے سے بھارت کے تجارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اور بھارت عالمی سطح پر اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اقدامات جاری رکھے گا۔
یہ فیصلہ امریکی صدر کی جانب سے 30 جولائی کو باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا تھا، جس میں بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کے ساتھ ساتھ روس سے مسلسل فوجی ساز و سامان اور تیل کی خریداری پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔
بھارت نے اس پر وزارت خارجہ کے ذریعے سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور یورپی یونین نے 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھارت کو روسی تیل خریدنے کی ترغیب دی تھی تاکہ عالمی توانائی کی مارکیٹ میں استحکام قائم رکھا جا سکے۔
بھارت نے یہ مؤقف اپنایا کہ امریکا خود بھی روس سے مختلف اشیاء درآمد کرتا ہے، لہذا بھارت پر تنقید غیر منصفانہ ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق، امریکا آج بھی روس سے جوہری صنعت کے لیے یورینیم ہیگزا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پیلڈیم، کھاد، اور دیگر کیمیکلز درآمد کر رہا ہے۔
بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ بھارت کے توانائی کے فیصلے صرف معیشت، صارفین کے مفادات، اور داخلی ضروریات کے تحت کیے جاتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ کے تحت۔ بھارت کا موقف بالکل واضح ہے۔
Post Views: 10