Express News:
2025-08-09@18:04:24 GMT

اسرائیلی یونٹ بیاسی سو کیا بلا ہے ( حصہ چہارم )

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

متعدد عسکری ماہرین غزہ کی نسل کشی میں اہداف کے انتخاب کے عمل میں مصنوعی ذہانت (اے آئی ) پر عجلت آمیز اور کسی حد تک اندھا دھند انحصار سے خاصے تشویش زدہ ہیں۔مگر یہ تشویش بوتل سے کسی جن کو نکالنے کے بعد جیسی ہے کہ جس کی آزادی کے نتائج کو کسی بھی ایجاد کے منفی و مثبت پہلوؤوں کو عقلِ سلیم کے ترازو میں پیشگی نہیں تولا جاتا اور پھر اپنی ہی پیشانی پیٹ لی جاتی ہے۔

جیسے نوبیل انعام کے بانی الفرڈ نوبیل کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو ڈائنامائٹ کانکنی سمیت صنعتی رفتار تیز کرنے کے لیے متعارف کروا رہا ہے۔یہ ایجاد بہت جلد ہلاکت خیزی کا استعارہ بن جائے گی یا اوپن ہائمر کو بم بناتے وقت کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ایٹم کی طاقت بنی نوع انسان کی فلاح سے زیادہ نسلِ آدم کو اپنی بقا کے خوف میں مبتلا کر دے گی۔

کچھ دریافتوں اور ایجادات کے بارے میں تحقیق کو اگرچہ انسانی فطرت کے تاریک پہلوؤں کے بارے میں ٹھوس خدشات کے پیشِ نظر عارضی طور پر آگے بڑھانے سے فی الحال روک لیا گیا ہے۔ جیسے سٹم سیل ریسرچ اور کلوننگ کے تجربات۔مگر تابکہ ؟

اے آئی کی ترقی و فروغ پر بھی روائیتی خوش نیتی ظاہر کی جا رہی ہے۔مگر اے آئی روزمرہ زندگی میں بے بہا فوائد کے امکانات کھولنے کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیزی کی جانب بھی تیز رفتاری سے لے جا سکتی ہے ؟ پچیس تیس برس پہلے تک کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔وہ الگ بات کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بالخصوص مواصلاتی و صنعتی شعبوں میں جو تیز رفتار ترقی ہوئی اس کا جنم عسکری تجربہ گاہوں میں غلبہ پانے کی نئیت سے ہی ہوا۔ ان میں سے کئی ایجادات کو غیر فوجی شعبوں نے زیادہ تیزی سے بہتر انداز میں اپنانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔اس کی اہم مثال اسٹیل اور پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کی مصنوعات بالخصوص پلاسٹک کی ترقی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صنعتی پیمانے پر انسانی نسل کشی میں بیسویں صدی کے نازی بازی لے گئے مگر اکیسویں صدی میں اے آئی کی مدد سے پہلی بھیانک نسل کشی میں نازیوں کے ڈسے اسرائیل نے ’’ گرو ‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

 اب یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اے آئی کے عسکری استعمال کو حدود و قیود میں جکڑنے کے لیے جنگی آداب سے متعلق جنیوا کنونشنز اور نسل کشی کے کنونشن کی طرز پر بین الاقوامی پروٹوکولز نافذ نہیں ہوتے تو اے آئی کا بے لگام من مانا استعمال انسانی تہذیب کو بلاامتیاز خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

مگر جب تک کوئی متفقہ بین الاقوامی ضابطہ طے ہو گا اور اس پر عمل درآمد ہو گا تب تک طاقت ور ممالک اپنے اپنے تسلطی اہداف حاصل کر چکے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل ، امریکا اور دیگر ریاستوں کے ہاتھوں نئے ضوابط کی ویسی ہی گت بن سکتی ہے جو اس وقت نافذ کنونشنز اور عالمی اداروں کی بن رہی ہے۔اب تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ نوع انسانی کو ماحولیات کی ابتری پہلے ختم کرے گی یا اے آئی کا بے لگام استعمال بازی لے جائے گا۔

فی الحال اے آئی اسلحے کے استعمال اور پھیلاؤ سے متعلق کسی بین الاقوامی عسکری کنونشن کا حصہ نہیں ۔یعنی تیر سے میزائل تک تو اسلحہ شمار ہوتا ہے کیونکہ ان کے استعمال کا ذمے دار انسان کو قرار دیا گیا ہے۔لیکن جو آلاتِ حرب مکمل طور پر اے آئی کے تابع اور آزاد فیصلے کرنے کے اہل ہیں یا ہوں گے۔ انھیں کیسے کسی عدالت میں بطور ملزم پیش کر کے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟یہ وہ موشگافی ہے جو اس وقت بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سلٹانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

کیا اے آئی کو دوہرے استعمال ( فوجی و غیر فوجی ) کی فہرست میں ڈال کر اس پر موجودہ کنونشنز اور ضوابط کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ؟ یہ سوال بھی قانون دانوں کو چکرا رہا ہے۔

ویسے بھی زیادہ تر بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی تیاری کے عمل میں اب تک مغربی دنیا زیادہ فعال اور موثر رہی ہے اور سب سے زیادہ خود کو یا حاشیہ برداروں کو ان قوانین کی زد سے بچاتی بھی آئی ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ کے بعد نورمبرگ اور ٹوکیو ٹریبونلز میں شکست خوردہ جرمنوں اور جاپانیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا یا پھر کمپوچیا میں ستر کی دہائی میں کھیمر روج حکومت کے عہدیداروں کو نسل کشی کرنے یا پھر نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے چند سرب مجرموں کو جنگی جرائم ثابت ہونے پر سزا ہوئی۔

جب کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حکم دینے والے ہیری ٹرومین اور اقوامِ متحدہ کے منہ پر تھوک کے دو ہزار تین میں عراق کو تاراج کرنے والے جارج بش کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں کہ ان پر بھی نسل کشی کی فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔

انیس سو بیاسی میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی کیمپوں میں قتلِ عام کا ذمے دار اس وقت کے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کو اگرچہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے قرار دیا۔مگر کسی نے اس فیصلے کی بنیاد پر عالمی عدالت میں شیرون کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کرنے کی کوشش نہیں کی۔جس نیتن یاہو پر بین الاقوامی عدالت نے باقاعدہ فردِ جرم عائد بھی کی وہ آج بھی دندناتا پھر رہا ہے۔جب کہ سوڈان کے سابق آمر احمد البشیر اور سیرالیون اور روانڈا میں نسل کشی کے مجرموں کے گریبان تک انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا ہاتھ آسانی سے پہنچ گیا۔

غزہ میں اے آئی کی مدد سے نسل کشی کے بارے میں اسرائیلی موقف ہے کہ اے آئی صرف ڈیٹا جمع کرنے اور اس کے تجزیے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اس ڈیٹا کے حتمی استعمال کا فیصلہ کوئی ذمے دار پروفیشنل کمانڈر ہی کرتا ہے۔مگر آزادانہ صحافتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی کمانڈر اے آئی کے تجزیے کو حرفِ آخر سمجھ کر اس پر فیصلے کی رسمی مہر لگا دیتے ہیں۔

اسرائیل کا یہ بھی دعوی ہے کہ اے آئی کا استعمال محض اہداف کی درست نشاندہی کے لیے ہوتا ہے تاکہ بے قصور انسانوں کا کم سے کم جانی اتلاف ہو۔ غزہ میں اسرائیلی دفاعی ذرایع کے مطابق لگ بھگ چار ہزار حماسی جنگجو ایسے تھے یا ہیں کہ جن کا زندہ رہنا اسرائیل کی سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں۔ تو پھر ان چار ہزار کے علاوہ وہ پچاس ہزار عورتیں ، بچے اور عام شہری کون تھے جو مار ڈالے گئے اور جو سوا لاکھ شہری زخمی ہوئے وہ کیسے نشانہ بن گئے ؟

 اسرائیلی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل اویوو کوشاوی نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کی حماس کی مسلح کارروائی سے چھ ماہ قبل ایک اسرائیلی ویب سائٹ وائی نیٹ کو انٹرویو میں کہا کہ ’’ بظاہر اے آئی ٹیکنالوجی عسکری مقاصد کے لیے بطور ڈیٹا ٹول استعمال ہو رہی ہے مگر ہم لاشعوری طور پر اس ٹیکنالوجی کے رفتہ رفتہ اتنے اسیر ہوتے چلے جائیں گے کہ وہ ہمارے فیصلہ ساز دماغوں پر مکمل قبضہ کر لے گی اور ہمیں احساس تک نہ ہو گا ۔‘‘

جنرل اویوو کوشاوی کی اس پیش گوئی کی گواہی آج غزہ کے کھنڈرات سے اٹھنے والا دھواں دے رہا ہے۔

اسرائیل کے پشتیبان امریکا کی سینیٹ میں بائیڈن انتظامیہ کے آخری دنوں میں سینیٹر پیٹر ویلش نے ’’ آرٹیفشل انٹیلی جینس ویپنز اکاؤنٹیبلٹی اینڈ رسک ایولیوشن بل ‘‘ کا مسودہ پیش کیا۔یہ مسودہ آج تک امریکی سینیٹ میں کہیں پڑا خاک چاٹ رہا ہے۔

 چونکہ یہ اسرائیل ہے جسے ساتوں خون معاف ہیں لہٰذا بے گناہ شہریوں کو اے آئی کی تباہ کن زد سے بچانے کا معاملہ ’’ مشن کی تکمیل ‘‘ تک فی الحال پاؤں پسار کے سو سکتا ہے۔  (اختتام)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے بارے میں اے ا ئی کی سکتا ہے کے بعد کے لیے رہا ہے رہی ہے

پڑھیں:

امریکی میڈیا نیتن یاہو سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے

جب سے غزہ کا بحران شروع ہوا ۔مغربی میڈیا کی جانبداری پر درجنوں سوالات اٹھ چکے ہیں۔اگر اس وقت کھلی صحافتی جانبداری کا ورلڈ کپ منعقد ہو تو ٹیم امریکا کو یورپ بھی شاید نہ ہرا سکے ۔

مثلاً اخبار نیویارک ٹائمز کی مئی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں غزہ کے لاکھوں قحط متاثرین میں سے ایک محمد زکریا المتواق ( عمر ڈیڑھ برس ) کا بھی ذکر ہوا۔ زکریا کی ماں نے بتایا کہ اس کا بچہ صحت مند پیدا ہوا تھا۔مگر مسلسل ناکافی غدائیت کے سبب ابتر حالت میں ہے۔

یہ رپورٹ شایع ہونے کے لگ بھگ ایک ماہ بعد اخبار نیویارک ٹائمز نے قارئین سے معذرت کرتے ہوئی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ہمیں مزید چھان بین سے معلوم ہوا کہ محمد زکریا پیدائش کے وقت ہی سے سیریبرل پالسی ( اعصابی بیماری ) میں مبتلا تھا۔لہٰذا اس کی خراب حالت محض ناکافی غذائیت کا نتیجہ نہیں ہے۔

اس ’’ تصیح ‘‘ پر ایک مبصر نے طنز کیا کہ اچھا ہوا اخبار نے صفائی پیش کر دی کہ ڈیڑھ سالہ محمد زکریا کی لاغری کا سبب خوراک کا ملنا نہیں بلکہ پیدائشی نقص ہے۔اس وضاحت کے بعد اب جرمن نازیوں کے اس موقف کو بھی سچ ماننا ہو گا کہ ہالوکاسٹ کا ایک شہرہ آفاق کردار بارہ سالہ این فرینک کسی کنسنٹریشن کیمپ میں نازی پہرے داروں کے ظلم کے نتیجے میں نہیں بلکہ ٹائفس کے سبب مری تھی۔

اسرائیل کا مہینوں سے موقف ہے کہ ہم نے فلسطینیوں کو اٹھہتر برس سے امداد بانٹنے والی اقوامِ متحدہ کی تنظیم انرا پر اس لیے پابندی لگائی کہ اسے دھشت گردوں نے ہائی جیک کر لیا تھا۔اور یہ کہ غزہ میں گزشتہ بائیس ماہ کے دوران جتنی بھی بین الاقوامی امداد پہنچی اس کا بیشتر حصہ حماس نے لوٹ لیا چنانچہ امداد کی تقسیم کا کام بادلِ ناخواستہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے سپرد کرنا پڑا۔

اس پورے عرصے میں اخبار نیویارک ٹائمز حماس کے ہاتھوں امداد کی چوری کا الزام تندہی سے شایع کرتا رہا۔ گزشتہ ہفتے اس نے پہلی بار ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کیا کہ چار اسرائیلی ذرایع نے تصدیق کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کا امدادی تقسیم کا نظام خاصا موثر تھا اور یہ کہ حماس اقوامِ متحدہ کی امداد کی چوری میں ملوث نہیں ۔ البتہ حماس چند چھوٹی امدادی تنظیموں کو ملنے والی رسد ضرور ضبط کرتی رہی ہے۔

مگر اس وضاحت سے پہلے جنوری سے جولائی کے آخری ہفتے تک غزہ میں امداد کی چوری کا اسرائیلی الزام نیویارک ٹائمز کی اکسٹھ رپورٹوں اور مضامین میں دھرایا گیا۔ان میں سے نو رپورٹوں میں صرف اسرائیلی موقف پر ہی تکیہ کیا گیا۔بارہ مضامین میں یہ تشویش ظاہر کی گئی کہ حماس امداد کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔مگر گزشتہ ہفتے شایع ہونے والی وضاحت میں یہ پھر بھی نہیں قبولا گیا کہ اخبار اب تک مسلسل غلط بیانی کرتا رہا۔الٹا اخبار آج بھی بضد ہے کہ وہ اسرائیل کے سرکاری دعوے اور فلسطینیوں کا موقف باریک بینی سے چھان پھٹک کے بعد ہی چھاپتا ہے۔

اگر یہ وضاحت درست ہے تو پھر تو اور تعجب خیز ہے کہ اخبار کو مہینوں سے دھرائے جانے والا انرا کا یہ موقف کیوں دکھائی نہیں دیا کہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ حماس یا اسرائیل سے برسرِ پیکار دیگر مسلح گروہ ہماری امداد کی چوری میں ملوث ہیں۔ بلکہ اس طرح کا دعوی امداد کی تقسیم اپنے ہاتھ میں لینے کے جواز کے طور پر کیا جا رہا ہے۔حالانکہ امداد کی موجودہ تقسیم بین الاقوامی انسانی قوانین کو خاطر میں لائے بغیر ہو رہی ہے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں جو بھی امداد عالمی فلاحی اداروں کی جانب سے پہنچی۔اس کا محض ایک فیصد غائب ہوا یا لوٹا گیااور اس کام میں بھی اسرائیلی حمائیت یافتہ ابو شباب گروپ آگے آگے ہے۔یورپی یونین کمیشن بھی اسی نتیجے پر پہنچا۔مگر نیویارک ٹائمز میں ان تردیدوں کے باوجود امریکی اہلکاروں کے حوالے سے تین ایسی خبریں پھر بھی شایع ہوئیں کہ حماس امداد چوری کر رہی ہے۔

گزشتہ برس اپریل میں ایک موقر آن لائن امریکی جریدے ’’دی انٹرسیپٹ ‘‘ نے نیویارک ٹائمز کے عملے کے لیے جاری ہونے والے ایک انٹرنل میمو کا حوالہ دیا۔اس میمو میں اسٹاف کو ہدائیت کی گئی کہ وہ نسل کشی، نسلی صفائی، مقبوضہ علاقے جیسی اصطلاحات استعمال نہ کرے اور فلسطین اور غزہ کے پناہ گزین کیمپ کی اصطلاح بھی کم از کم برتے۔

غزہ کے بحران کے ابتدائی چھ ہفتے کے دوران اخبار نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز کی کوریج کے جائزے سے پتہ چلا کہ ان اخبارات نے اسرائیلی اموات اور امریکا میں یہودیوں سے تعصب کی خبروں کو نمایاں شایع کیا۔جب کہ فلسطینی اموات کی خبریں سرسری انداز میں محض خانہ پری کے لیے شایع ہوئیں۔

ان اخبارات نے اسرائیلی حکام کے ایسے بیانات کی تشہیر کو بھی دبایا جن سے نسل پرستی اور نسل کشی کی بو آتی ہے۔ان میں اسرائیلی وزیرِ سلامتی بن گویر کا یہ بیان بھی شامل تھا کہ غزہ میں گندم کے ایک دانے کے بجائے سیکڑوں ٹن بموں کی رسد جاری رہنی چاہیے۔اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلل سموترخ نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بیس لاکھ لوگوں کو بھوکا مارنا ایک سودمند پالیسی ہے بھلے دنیا اس پالیسی کی کتنی بھی مخالف ہو۔

دو ہفتے پہلے ہی وزیرِ ثقافت امشائی ایلیاہو نے کہا کہ فلسطینی اندر سے نازی ہیں۔غزہ میں کوئی بھوکا نہیں۔اگر ہو بھی تو یہ ہمارا نہیں باقی دنیا کا دردِ سر ہے۔امریکی میڈیا نے ان بیانات کو چیختی چنگھاڑتی سرخیاں بنانا پسند نہیں کیا کیونکہ یہ کسی فلسطینی یا عرب کے بیانات نہیں تھے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی آدھی تعداد غذا کی عدم دستیابی کے سبب زندگی و موت کے درمیان معلق ہے۔ بھوک سے مرنے والوں میں بچوں کا تناسب اسی فیصد ہے۔پانچ لاکھ افراد قحط کی لپیٹ میں ہیں اور باقی آبادی ناکافی غذائیت بھگت رہی ہے۔یعنی انسانی جسم کو روزانہ جتنی لازمی کیلوریز درکار ہیں وہ غزہ کے کسی بھی باشندے کو میسر نہیں۔

خوراک سے بھرے ہزاروں ٹرک غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں اور ان میں بھرا سامان مسلسل ضایع ہو رہا ہے۔جب کہ اب تک خوراک کے متلاشی ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی قاتل غزہ ہومینٹیرین فاؤنڈیشن کی ’’ شاندار ‘‘ کارکردگی کو امریکا ہر تھوڑے عرصے بعد سراہتے ہوئے سو سو ملین ڈالر کے چیک دے رہا ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر قبضہ نہیں حماس سے آزاد کرانے جارہے ہیں؛ اسرائیلی وزیراعظم
  • غزہ پر قبضہ نہیں حماس سے آزاد کرانے جارہے ہیں،اسرائیلی وزیراعظم
  • تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے حکومت لاعلم نکلی
  • امریکی میڈیا نیتن یاہو سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے
  • غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب
  • ماہانہ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے بڑی خبر
  • غزہ پر اسرائیلی قبضے کا انسانیت دشمن منصوبہ
  • ایمریٹس نے پروازوں میں پاور بینکس کیلئے نئے قوانین متعارف کرادیئے
  • اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ شہر پر قبضے کی منظوری دے دی، مزید خونریزی کا خدشہ
  • بھارت نے پاکستان کیخلاف اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا؛ نیتن یاہو کا بڑا اعتراف