Express News:
2025-11-08@16:04:19 GMT

اسرائیلی یونٹ بیاسی سو کیا بلا ہے ( حصہ چہارم )

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

متعدد عسکری ماہرین غزہ کی نسل کشی میں اہداف کے انتخاب کے عمل میں مصنوعی ذہانت (اے آئی ) پر عجلت آمیز اور کسی حد تک اندھا دھند انحصار سے خاصے تشویش زدہ ہیں۔مگر یہ تشویش بوتل سے کسی جن کو نکالنے کے بعد جیسی ہے کہ جس کی آزادی کے نتائج کو کسی بھی ایجاد کے منفی و مثبت پہلوؤوں کو عقلِ سلیم کے ترازو میں پیشگی نہیں تولا جاتا اور پھر اپنی ہی پیشانی پیٹ لی جاتی ہے۔

جیسے نوبیل انعام کے بانی الفرڈ نوبیل کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو ڈائنامائٹ کانکنی سمیت صنعتی رفتار تیز کرنے کے لیے متعارف کروا رہا ہے۔یہ ایجاد بہت جلد ہلاکت خیزی کا استعارہ بن جائے گی یا اوپن ہائمر کو بم بناتے وقت کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ایٹم کی طاقت بنی نوع انسان کی فلاح سے زیادہ نسلِ آدم کو اپنی بقا کے خوف میں مبتلا کر دے گی۔

کچھ دریافتوں اور ایجادات کے بارے میں تحقیق کو اگرچہ انسانی فطرت کے تاریک پہلوؤں کے بارے میں ٹھوس خدشات کے پیشِ نظر عارضی طور پر آگے بڑھانے سے فی الحال روک لیا گیا ہے۔ جیسے سٹم سیل ریسرچ اور کلوننگ کے تجربات۔مگر تابکہ ؟

اے آئی کی ترقی و فروغ پر بھی روائیتی خوش نیتی ظاہر کی جا رہی ہے۔مگر اے آئی روزمرہ زندگی میں بے بہا فوائد کے امکانات کھولنے کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیزی کی جانب بھی تیز رفتاری سے لے جا سکتی ہے ؟ پچیس تیس برس پہلے تک کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔وہ الگ بات کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بالخصوص مواصلاتی و صنعتی شعبوں میں جو تیز رفتار ترقی ہوئی اس کا جنم عسکری تجربہ گاہوں میں غلبہ پانے کی نئیت سے ہی ہوا۔ ان میں سے کئی ایجادات کو غیر فوجی شعبوں نے زیادہ تیزی سے بہتر انداز میں اپنانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔اس کی اہم مثال اسٹیل اور پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کی مصنوعات بالخصوص پلاسٹک کی ترقی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صنعتی پیمانے پر انسانی نسل کشی میں بیسویں صدی کے نازی بازی لے گئے مگر اکیسویں صدی میں اے آئی کی مدد سے پہلی بھیانک نسل کشی میں نازیوں کے ڈسے اسرائیل نے ’’ گرو ‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

 اب یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اے آئی کے عسکری استعمال کو حدود و قیود میں جکڑنے کے لیے جنگی آداب سے متعلق جنیوا کنونشنز اور نسل کشی کے کنونشن کی طرز پر بین الاقوامی پروٹوکولز نافذ نہیں ہوتے تو اے آئی کا بے لگام من مانا استعمال انسانی تہذیب کو بلاامتیاز خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

مگر جب تک کوئی متفقہ بین الاقوامی ضابطہ طے ہو گا اور اس پر عمل درآمد ہو گا تب تک طاقت ور ممالک اپنے اپنے تسلطی اہداف حاصل کر چکے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل ، امریکا اور دیگر ریاستوں کے ہاتھوں نئے ضوابط کی ویسی ہی گت بن سکتی ہے جو اس وقت نافذ کنونشنز اور عالمی اداروں کی بن رہی ہے۔اب تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ نوع انسانی کو ماحولیات کی ابتری پہلے ختم کرے گی یا اے آئی کا بے لگام استعمال بازی لے جائے گا۔

فی الحال اے آئی اسلحے کے استعمال اور پھیلاؤ سے متعلق کسی بین الاقوامی عسکری کنونشن کا حصہ نہیں ۔یعنی تیر سے میزائل تک تو اسلحہ شمار ہوتا ہے کیونکہ ان کے استعمال کا ذمے دار انسان کو قرار دیا گیا ہے۔لیکن جو آلاتِ حرب مکمل طور پر اے آئی کے تابع اور آزاد فیصلے کرنے کے اہل ہیں یا ہوں گے۔ انھیں کیسے کسی عدالت میں بطور ملزم پیش کر کے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟یہ وہ موشگافی ہے جو اس وقت بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سلٹانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

کیا اے آئی کو دوہرے استعمال ( فوجی و غیر فوجی ) کی فہرست میں ڈال کر اس پر موجودہ کنونشنز اور ضوابط کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ؟ یہ سوال بھی قانون دانوں کو چکرا رہا ہے۔

ویسے بھی زیادہ تر بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی تیاری کے عمل میں اب تک مغربی دنیا زیادہ فعال اور موثر رہی ہے اور سب سے زیادہ خود کو یا حاشیہ برداروں کو ان قوانین کی زد سے بچاتی بھی آئی ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ کے بعد نورمبرگ اور ٹوکیو ٹریبونلز میں شکست خوردہ جرمنوں اور جاپانیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا یا پھر کمپوچیا میں ستر کی دہائی میں کھیمر روج حکومت کے عہدیداروں کو نسل کشی کرنے یا پھر نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے چند سرب مجرموں کو جنگی جرائم ثابت ہونے پر سزا ہوئی۔

جب کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حکم دینے والے ہیری ٹرومین اور اقوامِ متحدہ کے منہ پر تھوک کے دو ہزار تین میں عراق کو تاراج کرنے والے جارج بش کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں کہ ان پر بھی نسل کشی کی فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔

انیس سو بیاسی میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی کیمپوں میں قتلِ عام کا ذمے دار اس وقت کے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کو اگرچہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے قرار دیا۔مگر کسی نے اس فیصلے کی بنیاد پر عالمی عدالت میں شیرون کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کرنے کی کوشش نہیں کی۔جس نیتن یاہو پر بین الاقوامی عدالت نے باقاعدہ فردِ جرم عائد بھی کی وہ آج بھی دندناتا پھر رہا ہے۔جب کہ سوڈان کے سابق آمر احمد البشیر اور سیرالیون اور روانڈا میں نسل کشی کے مجرموں کے گریبان تک انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا ہاتھ آسانی سے پہنچ گیا۔

غزہ میں اے آئی کی مدد سے نسل کشی کے بارے میں اسرائیلی موقف ہے کہ اے آئی صرف ڈیٹا جمع کرنے اور اس کے تجزیے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اس ڈیٹا کے حتمی استعمال کا فیصلہ کوئی ذمے دار پروفیشنل کمانڈر ہی کرتا ہے۔مگر آزادانہ صحافتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی کمانڈر اے آئی کے تجزیے کو حرفِ آخر سمجھ کر اس پر فیصلے کی رسمی مہر لگا دیتے ہیں۔

اسرائیل کا یہ بھی دعوی ہے کہ اے آئی کا استعمال محض اہداف کی درست نشاندہی کے لیے ہوتا ہے تاکہ بے قصور انسانوں کا کم سے کم جانی اتلاف ہو۔ غزہ میں اسرائیلی دفاعی ذرایع کے مطابق لگ بھگ چار ہزار حماسی جنگجو ایسے تھے یا ہیں کہ جن کا زندہ رہنا اسرائیل کی سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں۔ تو پھر ان چار ہزار کے علاوہ وہ پچاس ہزار عورتیں ، بچے اور عام شہری کون تھے جو مار ڈالے گئے اور جو سوا لاکھ شہری زخمی ہوئے وہ کیسے نشانہ بن گئے ؟

 اسرائیلی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل اویوو کوشاوی نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کی حماس کی مسلح کارروائی سے چھ ماہ قبل ایک اسرائیلی ویب سائٹ وائی نیٹ کو انٹرویو میں کہا کہ ’’ بظاہر اے آئی ٹیکنالوجی عسکری مقاصد کے لیے بطور ڈیٹا ٹول استعمال ہو رہی ہے مگر ہم لاشعوری طور پر اس ٹیکنالوجی کے رفتہ رفتہ اتنے اسیر ہوتے چلے جائیں گے کہ وہ ہمارے فیصلہ ساز دماغوں پر مکمل قبضہ کر لے گی اور ہمیں احساس تک نہ ہو گا ۔‘‘

جنرل اویوو کوشاوی کی اس پیش گوئی کی گواہی آج غزہ کے کھنڈرات سے اٹھنے والا دھواں دے رہا ہے۔

اسرائیل کے پشتیبان امریکا کی سینیٹ میں بائیڈن انتظامیہ کے آخری دنوں میں سینیٹر پیٹر ویلش نے ’’ آرٹیفشل انٹیلی جینس ویپنز اکاؤنٹیبلٹی اینڈ رسک ایولیوشن بل ‘‘ کا مسودہ پیش کیا۔یہ مسودہ آج تک امریکی سینیٹ میں کہیں پڑا خاک چاٹ رہا ہے۔

 چونکہ یہ اسرائیل ہے جسے ساتوں خون معاف ہیں لہٰذا بے گناہ شہریوں کو اے آئی کی تباہ کن زد سے بچانے کا معاملہ ’’ مشن کی تکمیل ‘‘ تک فی الحال پاؤں پسار کے سو سکتا ہے۔  (اختتام)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے بارے میں اے ا ئی کی سکتا ہے کے بعد کے لیے رہا ہے رہی ہے

پڑھیں:

صہیونی رجیم کے مقابلے میں مسلمان ممالک کی قوت کے استعمال کی ضرورت

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں پاکستانی مذہبی علما، اساتذہ یونیورسٹی اور فکری و سماجی شخصیات سے خطاب میں ایرانی پارلیمان کے سربراہ نے کہا کہ ہم ہمیشہ امام، انقلاب اور قرآن مجید، احادیث اور اہلِ بیتؑ کے عقائد و روایات سے یہ سیکھتے آئے ہیں کہ ظلم کے مقابلے پر ثابت قدم رہنا لازم ہے۔ مسلمانوں کو ایسے خودمختار، مضبوط اور باصلاحیت ملکوں کی ضرورت ہے جو علمی و فنی میدانوں میں، خاص طور پر اس دورِ جدید میں جب جدید ٹیکنالوجی عروج پر ہے، بلند ترین مقام حاصل کریں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں؛ ہمیں چند صدیوں کی پسماندگی کو دور کرنا ہوگا۔ اس پسماندگی کی جڑ بھی استعماری نظریات ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے۔ رئیسِ مجلس نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران انقلاب کے بعد ہمیشہ سازشوں، ترہریوں، مسلط شدہ جنگ، اندرونی دباؤ اور منافق و الحاد گروہوں کا نشانہ رہا ہے۔ خصوصی رپورٹ:

ایرانی پارلیمنٹ (مجلسِ شورائے اسلامی) کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کو صہیونی رجیم کے خلاف طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ رجیم صرف زبانِ قدرت کو سمجھتی ہے۔ تسنیم نیوز کی پارلیمانی رپورٹ کے مطابق قالیباف پاکستان کے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی دعوت پر پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں ایران کے سفارتخانے میں پاکستانی دینی مفکرین، یونیورسٹی اساتذہ اور سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ جب ۱۲ روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی عوام، حکومت اور پارلیمان نے ملتِ ایران کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دیا، تو میں نے فیصلہ کیا کہ جنگ کے بعد پہلا غیرملکی دورہ پاکستان کا ہی ہوگا۔

پاکستان نے حق‌ طلبی، عدالت‌ پسندی اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کی براہِ راست حمایت یافتہ صہیونی حملے کے مقابلے میں ملتِ ایران کی بہادری سے حمایت کی۔ قالیباف نے کہا کہ ہمیں اس جنگ کے اسباب اور نتائج پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ یہ امتِ اسلامیہ کے لیے ایک تاریخی سبق بن سکتا ہے۔ اس موضوع پر طویل گفتگو اور درست تجزیہ ضروری ہے تاکہ ہم عوام اور نوجوانوں کو صحیح سمت دکھا سکیں۔ انہوں نے صہیونی رجیم کی فوجی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس رجیم کا اصول رہا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کو جنم لینے سے پہلے ہی ختم کر دیتی ہے، آئرن ڈوم کے ذریعے ان کی سرحدیں ناقابلِ نفوذ ہیں اور اگر کوئی کارروائی ان کے خلاف ہوئی تو فوراً جواب دیا جائے گا۔

قالیباف نے مزید کہا کہ آپریشن طوفانُ الأقصیٰ دراصل فلسطینی عوام کے ۸۰ سالہ زخموں اور دبی ہوئی فریاد کا دھماکہ تھا۔ وہ قوم جو دہائیوں سے صہیونی ظلم، قتل، محاصرے اور بے‌دخلی کا شکار رہی، اس نے پہلی بار متحد ہو کر اپنی مظلومیت کے خلاف قیام کیا۔ انہوں نے ان دعووں کو جھوٹ اور خیانت قرار دیا کہ ۷ اکتوبر کو فلسطینیوں نے جنگ شروع کی تھی۔ قالیباف نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ ۸۰ برسوں میں فلسطینیوں پر قتل، آوارگی اور جبر کے پہاڑ توڑے گئے۔ انہوں نے صرف ایک بار فیصلہ کیا کہ صہیونی جرائم کے خلاف عملی اقدام کریں۔ ماضی میں اسلامی ممالک کی جنگیں صہیونی رجیم کے خلاف کبھی ۵ یا ۶ دن سے زیادہ نہ چل سکیں، اور ہر بار شکست اسلامی دنیا کے حصے میں آئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ، جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے، دو ملین سے زائد انسانوں پر مشتمل ہے جو مکمل محاصرے میں ہیں۔ انہوں نے ۷ اکتوبر کو یہ طے کیا کہ ایک ایسی کارروائی کریں جو صہیونی رجیم کے تمام فوجی نظریات کو چیلنج کر دے اور وہی مکڑی کے جالے کا گھر ثابت ہو جو شہید سید حسن نصراللہ نے کہا تھا۔ قالیباف نے بتایا کہ حماس نے اس وقت حملہ کیا جب اسرائیل نے اپنے دفاع کو زمین سے ۲۰ تا ۳۰ میٹر زیرِ زمین تک مضبوط کر رکھا تھا، سرحدوں پر دیواریں، الیکٹرانک سینسرز، جاسوس ڈرونز اور سیٹلائٹ نگرانی موجود تھی۔ اس کے باوجود نوجوان فلسطینی ان تمام رکاوٹوں کو پار کر کے سرحدیں توڑنے میں کامیاب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ حتیٰ کہ ایف-۱۵ طیارے کو ٹرک پر گھسیٹے جانے کی ویڈیو اس رجیم کی ذلت اور بے بسی کی علامت بن گئی۔ آخر میں قالیباف نے زور دیا کہ اسلامی ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری اصل قوت منطق اور ایمان ہے، مگر جب فہم ختم ہو جائے، تو طاقت کے مقابلے میں طاقت ہی جواب ہے، کیونکہ صہیونی رجیم کسی اور زبان کو نہیں سمجھتی۔ قالیباف نے مزید کہا: تمام استعماری قوتیں، خاص طور پر امریکہ، صہیونی رجیم کی حمایت کرتی ہیں؛ میں نے 12 روزہ جنگ کے دوران ایرانی عوام اور نوجوانوں سے کہا تھا کہ اگر اسرائیل اکیلا اور امریکی حمایت کے بغیر ہوتا تو وہ سات دن سے بھی کم میں سخت شکست کھا جاتا اور یہ بات ثابت ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ جنگ کے ابتدائی ایام میں جب امریکی وزیرِ خارجہ تل ابیب گئے تو انہوں نے وہاں کی حالت دیکھ کر ایک علاقائی وزیرِ خارجہ کو بتایا کہ تل ابیب تباہ حال ہے اور اس رجیم کی فوجی و ستادی قوتیں بکھر چکی ہیں۔ دراصل امریکہ ہی تھا جس نے اپنے مشیروں اور کمانڈروں کے ذریعے اس مرکزی کمانڈ کو سنبھالا اور دوبارہ بحال کیا اور جب امریکی صدر اسرائیل سفر پر گیا تو اس نے کہا کہ اگر پہلے ہم نے اسرائیل کو وجود میں نہ لایا ہوتا تو آج ہمیں خطے میں ایک نیا اسرائیل بنانا پڑتا۔ امریکہ کا یہ استعماری نظریہ ہمیں مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کرنے کی غرض دکھاتا ہے۔

قالیباف نے کہا کہ ہم ہمیشہ امام، انقلاب اور قرآن مجید، احادیث اور اہلِ بیتؑ کے عقائد و روایات سے یہ سیکھتے آئے ہیں کہ ظلم کے مقابلے پر ثابت قدم رہنا لازم ہے۔ مسلمانوں کو ایسے خودمختار، مضبوط اور باصلاحیت ملکوں کی ضرورت ہے جو علمی و فنی میدانوں میں، خاص طور پر اس دورِ جدید میں جب جدید ٹیکنالوجی عروج پر ہے، بلند ترین مقام حاصل کریں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں؛ ہمیں چند صدیوں کی پسماندگی کو دور کرنا ہوگا۔ اس پسماندگی کی جڑ بھی استعماری نظریات ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے۔ رئیسِ مجلس نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران انقلاب کے بعد ہمیشہ سازشوں، ترہریوں، مسلط شدہ جنگ، اندرونی دباؤ اور منافق و الحاد گروہوں کا نشانہ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہی گروہوں نے سیاسی شخصیات جیسے صدر، رئیسِ قضائیہ، پارلیمانی ارکان، علمی و ثقافتی شخصیات اور عام شہریوں کو نشانہ بنا کر قریباً 26 ہزار افراد کو شہید کیا۔ استعماری طاقتوں نے بعث پارٹی کی مدد سے ہمارے تئیں جنگ تھوپ دی، مگر ایرانی قوم نے ظلم کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا، پابندیوں کا سامنا کیا اور علمی میدان میں شاندار ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریہ اسلامی ایران کی ایک اہم سائنسی پیشرفت ایٹمی میدان میں ہے، ہمارے پاس اس شعبے میں بہت سے سائنسدان اور ماہرین موجود ہیں اور ہم ابتدا سے اعلان کرتے آئے ہیں کہ ہم جوہری ہتھیار بنانے کی طرف نہیں جا رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کے بعد بھی، عالمی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ گروسی نے کہا کہ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کی کوئی دستاویزی نشاندہی موجود نہیں۔ اس کے باوجود ہمارا ملک ایٹمی میدان میں ترقی یافتہ شمار ہوتا ہے اور جدید ترین سینٹری فیوجز یہاں موجود ہیں۔ نیز نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہم دنیا کے پانچ بہترین ممالک میں ہیں اور فضائی و طبّی شعبوں میں بھی ہم نمایاں ہیں، حالانکہ پچھلے بیس سالوں میں امریکہ نے ہمارے خلاف ناجائز پابندیاں عائد کیں، کیونکہ وہ کسی بھی خودمختار ملک کی موجودگی یا مسلم ممالک کی ترقی کو برداشت نہیں کرنا چاہتے۔

قالیباف نے اشارہ کیا کہ ہمارے اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے چھٹے دور کے زمانے میں، جب عمان میں بات چیت کی از سرِ نو تاریخ قریب تھی، اسرائیل نے ہمارے ملک پر وسیع حملہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایران دو روز سے زیادہ مزاحمت نہیں کرے گا، حالانکہ ہم نے سولہ گھنٹوں سے بھی کم میں سخت ترین جوابی کارروائیاں کیں، چوتھے روز ہم نے تقریباً 2000 کلومیٹر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے ردعمل ظاہر کیا۔ اس عمل نے امریکہ کو براہِ راست مداخلت پر مجبور کیا اور ہم نے خطے میں سینٹ کام کے کمانڈ مرکز کو 14 میزائلوں سے نشانہ بنایا جن میں سات میزائل ہدف پر لگے۔

انہوں نے کہا کہ اسی حالتِ جنگ نے دشمن کو آتش بس کی درخواست پر مجبور کیا اور ہم نے واضح کیا کہ آتش بس اسی وقت ہو گی جب ہم آخری ضرب لگائیں گے۔ قالیباف نے زور دیا کہ دشمن کے مقابلے ہمیں مضبوط ہونا پڑے گا اور یاد دہانی کروائی کہ اسلامی ممالک کو صہیونی رجیم کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ہماری اصل قوت منطق ہے، مگر جب سمجھ بوجھ و ادراک موجود نہ ہو تو طاقت کے سامنے طاقت دکھانی پڑتی ہے، کیونکہ یہ رجیم کسی اور زبان کو نہیں سمجھتی۔ انہوں نے آگے کہا کہ صہیونی رجیم کی خواہش تھی کہ فلسطین کا نام و نشان مٹ جائے، مگر 1948 کے بعد کئی نسلوں کے گزر جانے کے باوجود بھی لوگ فلسطین کے حق کے لیے کھڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کر رہی ہے اور ہمیں اسلامی ممالک کے اندر اس مسئلے پر توجہ دے کر آپس میں نزدیکی بڑھانی چاہیے تاکہ اس رجیم کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوں۔ اس وقت اسرائیل امریکی حمایت کے ساتھ عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے اور لبنان، شام اور دیگر اسلامی ممالک کو بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔ قالیباف نے کہا کہ امریکہ امتِ اسلامیہ کو دو دھڑوں میں بانٹ رہا ہے، ایک وہ جو حملے اور قبضے کے تابع ہوں گے اور دوسرا وہ جو ابراہیمی معاہدے کو قبول کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کریں گے، کسی بھی مسلم ملک کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کے ساتھ روابط قائم کرے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی مسلط شدہ امن اور مسلط شدہ جنگ نے بعض ملکوں کو کمزور کیا، تو کوئی بھی ملک عالم اسلام میں مضبوط اور خودمختار نہیں رہا، اگر وہ ایران پر جنگ مسلط کرتے ہیں تو مقصد یہ ہے کہ ایران خودمختار اور طاقتور نہ رہے بلکہ ایک کمزور ایران چاہتے ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جیسا کہ ہم نے شام، لیبیا اور لبنان میں دیکھا، داعش جو ان ہی کی پیداوار تھی، اسی منصوبے کو آگے بڑھا رہا تھا تاکہ علاقائی ممالک کو تباہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کو ایک ہو کر صہیونی دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہیے، اس لئے اگر کسی مسلم ملک پر اس رجیم کا حملہ ہوا تو تمام مسلمان اسے روکنے کے لیے اکٹھے ہوں۔

اختتامی کلمات میں قالیباف نے کہا کہ ہمیں سیاسی، ثقافتی، تعلیمی، سائنسی، سماجی اور ماحولیاتی شعبوں میں عالم اسلام کے اندر روابط کو یکجا کرنا ہوگا، اگر ہم واقعی خودمختاری چاہتے ہیں اور دنیا میں ایک نیا نظم قائم کرنا چاہتے ہیں تو لازمی ہے کہ ہم متحد اور مربوط ہوں۔ ہمارا مقصد کسی کی زمین پر قبضہ کرنا نہیں، ہم سب کے لیے امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس نشست کے آغاز میں پاکستانی مذہبی علما، اساتذہ یونیورسٹی اور فکری و سماجی شخصیات نے دونوں ملکوں کے ثقافتی قرابت، مسئلہ فلسطین اور امتِ مسلمہ کے اتحاد بالخصوص انقلابِ اسلامی کے خطّی اثرات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

متعلقہ مضامین

  • اسمارٹ فون کا استعمال بچوں کی ذہنی صحت کیلیے خطرناک ہے، تحقیق
  • قوانین کو سیاسی دباؤ یا انتقامی کارروائی کیلئے استعمال نہیں ہونے دینگے: سہیل آفریدی
  • نیپرا نے بجلی 48 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا
  • بجلی 48 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری
  • عوامی جگہوں پر موبائل فون چارج کرنیوالوں کیلئے اہم خبر
  • جامعہ کراچی کے طلباکی صحت عامہ کے شعبے میں منفرد ایجادات
  • صہیونی رجیم کے مقابلے میں مسلمان ممالک کی قوت کے استعمال کی ضرورت
  • حکومت کا بجلی کی کھپت بڑھانے کے لیے 22.98 روپے فی یونٹ کا نیا پیکیج تجویز
  • 3 ماہ کے لیے بجلی 45 پیسے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان
  • ملتان، آئی ایس او نشتر میڈیکل یونیورسٹی یونٹ کی تنظیم نو، ساجد حسین نئے صدر منتخب