اسرائیلی یونٹ بیاسی سو کیا بلا ہے ( حصہ چہارم )
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
متعدد عسکری ماہرین غزہ کی نسل کشی میں اہداف کے انتخاب کے عمل میں مصنوعی ذہانت (اے آئی ) پر عجلت آمیز اور کسی حد تک اندھا دھند انحصار سے خاصے تشویش زدہ ہیں۔مگر یہ تشویش بوتل سے کسی جن کو نکالنے کے بعد جیسی ہے کہ جس کی آزادی کے نتائج کو کسی بھی ایجاد کے منفی و مثبت پہلوؤوں کو عقلِ سلیم کے ترازو میں پیشگی نہیں تولا جاتا اور پھر اپنی ہی پیشانی پیٹ لی جاتی ہے۔
جیسے نوبیل انعام کے بانی الفرڈ نوبیل کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو ڈائنامائٹ کانکنی سمیت صنعتی رفتار تیز کرنے کے لیے متعارف کروا رہا ہے۔یہ ایجاد بہت جلد ہلاکت خیزی کا استعارہ بن جائے گی یا اوپن ہائمر کو بم بناتے وقت کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ایٹم کی طاقت بنی نوع انسان کی فلاح سے زیادہ نسلِ آدم کو اپنی بقا کے خوف میں مبتلا کر دے گی۔
کچھ دریافتوں اور ایجادات کے بارے میں تحقیق کو اگرچہ انسانی فطرت کے تاریک پہلوؤں کے بارے میں ٹھوس خدشات کے پیشِ نظر عارضی طور پر آگے بڑھانے سے فی الحال روک لیا گیا ہے۔ جیسے سٹم سیل ریسرچ اور کلوننگ کے تجربات۔مگر تابکہ ؟
اے آئی کی ترقی و فروغ پر بھی روائیتی خوش نیتی ظاہر کی جا رہی ہے۔مگر اے آئی روزمرہ زندگی میں بے بہا فوائد کے امکانات کھولنے کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیزی کی جانب بھی تیز رفتاری سے لے جا سکتی ہے ؟ پچیس تیس برس پہلے تک کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔وہ الگ بات کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بالخصوص مواصلاتی و صنعتی شعبوں میں جو تیز رفتار ترقی ہوئی اس کا جنم عسکری تجربہ گاہوں میں غلبہ پانے کی نئیت سے ہی ہوا۔ ان میں سے کئی ایجادات کو غیر فوجی شعبوں نے زیادہ تیزی سے بہتر انداز میں اپنانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔اس کی اہم مثال اسٹیل اور پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کی مصنوعات بالخصوص پلاسٹک کی ترقی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صنعتی پیمانے پر انسانی نسل کشی میں بیسویں صدی کے نازی بازی لے گئے مگر اکیسویں صدی میں اے آئی کی مدد سے پہلی بھیانک نسل کشی میں نازیوں کے ڈسے اسرائیل نے ’’ گرو ‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
اب یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اے آئی کے عسکری استعمال کو حدود و قیود میں جکڑنے کے لیے جنگی آداب سے متعلق جنیوا کنونشنز اور نسل کشی کے کنونشن کی طرز پر بین الاقوامی پروٹوکولز نافذ نہیں ہوتے تو اے آئی کا بے لگام من مانا استعمال انسانی تہذیب کو بلاامتیاز خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مگر جب تک کوئی متفقہ بین الاقوامی ضابطہ طے ہو گا اور اس پر عمل درآمد ہو گا تب تک طاقت ور ممالک اپنے اپنے تسلطی اہداف حاصل کر چکے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل ، امریکا اور دیگر ریاستوں کے ہاتھوں نئے ضوابط کی ویسی ہی گت بن سکتی ہے جو اس وقت نافذ کنونشنز اور عالمی اداروں کی بن رہی ہے۔اب تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ نوع انسانی کو ماحولیات کی ابتری پہلے ختم کرے گی یا اے آئی کا بے لگام استعمال بازی لے جائے گا۔
فی الحال اے آئی اسلحے کے استعمال اور پھیلاؤ سے متعلق کسی بین الاقوامی عسکری کنونشن کا حصہ نہیں ۔یعنی تیر سے میزائل تک تو اسلحہ شمار ہوتا ہے کیونکہ ان کے استعمال کا ذمے دار انسان کو قرار دیا گیا ہے۔لیکن جو آلاتِ حرب مکمل طور پر اے آئی کے تابع اور آزاد فیصلے کرنے کے اہل ہیں یا ہوں گے۔ انھیں کیسے کسی عدالت میں بطور ملزم پیش کر کے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟یہ وہ موشگافی ہے جو اس وقت بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سلٹانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
کیا اے آئی کو دوہرے استعمال ( فوجی و غیر فوجی ) کی فہرست میں ڈال کر اس پر موجودہ کنونشنز اور ضوابط کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ؟ یہ سوال بھی قانون دانوں کو چکرا رہا ہے۔
ویسے بھی زیادہ تر بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی تیاری کے عمل میں اب تک مغربی دنیا زیادہ فعال اور موثر رہی ہے اور سب سے زیادہ خود کو یا حاشیہ برداروں کو ان قوانین کی زد سے بچاتی بھی آئی ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ کے بعد نورمبرگ اور ٹوکیو ٹریبونلز میں شکست خوردہ جرمنوں اور جاپانیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا یا پھر کمپوچیا میں ستر کی دہائی میں کھیمر روج حکومت کے عہدیداروں کو نسل کشی کرنے یا پھر نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے چند سرب مجرموں کو جنگی جرائم ثابت ہونے پر سزا ہوئی۔
جب کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حکم دینے والے ہیری ٹرومین اور اقوامِ متحدہ کے منہ پر تھوک کے دو ہزار تین میں عراق کو تاراج کرنے والے جارج بش کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں کہ ان پر بھی نسل کشی کی فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔
انیس سو بیاسی میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی کیمپوں میں قتلِ عام کا ذمے دار اس وقت کے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کو اگرچہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے قرار دیا۔مگر کسی نے اس فیصلے کی بنیاد پر عالمی عدالت میں شیرون کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کرنے کی کوشش نہیں کی۔جس نیتن یاہو پر بین الاقوامی عدالت نے باقاعدہ فردِ جرم عائد بھی کی وہ آج بھی دندناتا پھر رہا ہے۔جب کہ سوڈان کے سابق آمر احمد البشیر اور سیرالیون اور روانڈا میں نسل کشی کے مجرموں کے گریبان تک انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا ہاتھ آسانی سے پہنچ گیا۔
غزہ میں اے آئی کی مدد سے نسل کشی کے بارے میں اسرائیلی موقف ہے کہ اے آئی صرف ڈیٹا جمع کرنے اور اس کے تجزیے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اس ڈیٹا کے حتمی استعمال کا فیصلہ کوئی ذمے دار پروفیشنل کمانڈر ہی کرتا ہے۔مگر آزادانہ صحافتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی کمانڈر اے آئی کے تجزیے کو حرفِ آخر سمجھ کر اس پر فیصلے کی رسمی مہر لگا دیتے ہیں۔
اسرائیل کا یہ بھی دعوی ہے کہ اے آئی کا استعمال محض اہداف کی درست نشاندہی کے لیے ہوتا ہے تاکہ بے قصور انسانوں کا کم سے کم جانی اتلاف ہو۔ غزہ میں اسرائیلی دفاعی ذرایع کے مطابق لگ بھگ چار ہزار حماسی جنگجو ایسے تھے یا ہیں کہ جن کا زندہ رہنا اسرائیل کی سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں۔ تو پھر ان چار ہزار کے علاوہ وہ پچاس ہزار عورتیں ، بچے اور عام شہری کون تھے جو مار ڈالے گئے اور جو سوا لاکھ شہری زخمی ہوئے وہ کیسے نشانہ بن گئے ؟
اسرائیلی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل اویوو کوشاوی نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کی حماس کی مسلح کارروائی سے چھ ماہ قبل ایک اسرائیلی ویب سائٹ وائی نیٹ کو انٹرویو میں کہا کہ ’’ بظاہر اے آئی ٹیکنالوجی عسکری مقاصد کے لیے بطور ڈیٹا ٹول استعمال ہو رہی ہے مگر ہم لاشعوری طور پر اس ٹیکنالوجی کے رفتہ رفتہ اتنے اسیر ہوتے چلے جائیں گے کہ وہ ہمارے فیصلہ ساز دماغوں پر مکمل قبضہ کر لے گی اور ہمیں احساس تک نہ ہو گا ۔‘‘
جنرل اویوو کوشاوی کی اس پیش گوئی کی گواہی آج غزہ کے کھنڈرات سے اٹھنے والا دھواں دے رہا ہے۔
اسرائیل کے پشتیبان امریکا کی سینیٹ میں بائیڈن انتظامیہ کے آخری دنوں میں سینیٹر پیٹر ویلش نے ’’ آرٹیفشل انٹیلی جینس ویپنز اکاؤنٹیبلٹی اینڈ رسک ایولیوشن بل ‘‘ کا مسودہ پیش کیا۔یہ مسودہ آج تک امریکی سینیٹ میں کہیں پڑا خاک چاٹ رہا ہے۔
چونکہ یہ اسرائیل ہے جسے ساتوں خون معاف ہیں لہٰذا بے گناہ شہریوں کو اے آئی کی تباہ کن زد سے بچانے کا معاملہ ’’ مشن کی تکمیل ‘‘ تک فی الحال پاؤں پسار کے سو سکتا ہے۔ (اختتام)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے بارے میں اے ا ئی کی سکتا ہے کے بعد کے لیے رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
دوحا پر اسرائیلی جارحیت خطے کے ممالک کیلئے مقام عبرت
اسلام ٹائمز: اسی طرح اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں حکمرانوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے والے لبنانی حکمرانوں سے بھی چند سوالات ہیں: کیا قطر میں حماس کے پاس اسلحہ اور فوجی سازوسامان تھا جس سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا؟ کیا قطر کی فوجی طاقت اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ کیا جولانی کی سربراہی میں شام حکومت اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے؟ کیا فلسطین اتھارٹی کا اسلحہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ ان سب نے اسرائیل کی خدمت کی ہے اور اسے تعلقات استوار کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل شام پر بمباری، قطر پر حملے اور فلسطین اتھارٹی کا محاصرہ کرنے سے باز نہیں آیا اور حتی ترکی کو بھی خفیہ بمباری کے ذریعے وہاں موجود حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ تحریر: نسیب حطیط (لبنانی تجزیہ کار)
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے قطر پر فضائی حملے کے ذریعے حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی ناکام کوشش کے چند ہی گھنٹے بعد قطر کے چینل الجزیرہ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی لائیو تقریر نشر کی جس میں اس نے حماس رہنماوں پر قاتلانہ حملے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کی اور مزید دھمکی دی کہ اگلے مرحلے میں اسرائیل کے اسٹریٹجک اتحادی اور حماس کے اتحادی ترکی کو ٹھیک قطر کی طرح نشانہ بنائے گا۔ اسرائیل نے بارہا ثابت کیا ہے کہ مشرق وسطی میں کسی ملک کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کا احترام نہیں کرتا اور اسے حتی اپنے اتحادیوں، دوستوں، نوکروں اور ایجنٹوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کی نظر میں تمام عرب "غیر یہودی" ہونے کے ناطے ان کے غلام ہیں، چاہے فرمانروا ہوں، امیر ہوں یا صدر ہوں اور چاہے مجاہد، سپاہی یا عام شہری ہوں۔
اسرائیل نے خلیجی ریاستوں پر حکمفرما اس "خیالی فضا" کو ختم کر دیا جس کی بنیاد اسرائیل سے دوستانہ تعلقات، امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اڈوں کی تشکیل، امریکہ کو بھتہ دینے اور تحائف دینے کے ذریعے اپنی سیکورٹی یقینی بنانے جیسے اوہام پر استوار تھی۔ خلیجی ریاستوں کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کو دیے گئے اہم ترین تحائف میں فلسطین کاز سے دستبرداری اور لبنان، یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔ عرب حکمرانوں نے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرا کر اسے تکفیری گروہوں کے حوالے کر دیا۔ ایسا تکفیری گروہ جس نے اعلان کیا کہ اسرائیل اس کا دشمن نہیں ہے اور اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کے جنوبی حصوں پر اسرائیلی فوجی قبضے کو قانونی حیثیت دینے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ یہ امریکہ اور اسرائیل کو عرب ممالک کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
کوئی عرب ملک قطر کی مانند میڈیا اور سیاست کے شعبے میں اسرائیل اور امریکہ کی خدمت نہیں کر سکتا۔ قطر کے چینل الجزیرہ نے "عرب اسپرنگ" کی قیادت کی اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا۔ یوں یہ چینل تمام عرب محاذوں پر مجاہد کی حیثیت سے سرگرم رہا اور فلسطین خاص طور پر غزہ میں اسرائیل کی آنکھوں کا کردار ادا کیا۔ اس بارے میں جو حقائق چھپے ہوئے ہیں وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں جو منظرعام پر آ چکے ہیں۔ دوحا پر اسرائیل کے فضائی حملے نے قطری حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان تمام سازباز کرنے والوں کو بھی مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے جو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے اور اقتدار میں باقی رہنے کی خاطر اسرائیلی دشمن کا ہاتھ چومنے کے لیے جلدبازی کا شکار تھے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بارے میں دو امکان پائے جاتے ہیں جو دونوں ان کے لیے بہت تلخ ہیں:
پہلا امکان یہ کہ اسرائیل نے پیشگی اطلاع کے بغیر قطر پر فضائی حملہ انجام دیا ہے۔ ایسی صورت میں قطری حکمرانوں کو شرمندگی کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ 1990ء کے عشرے سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات برقرار ہونے کے باوجود وہ قطر کی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ اسرائیل نے قطر کی خودمختاری کا احترام ملحوظ خاطر رکھا اور امریکہ کے ذریعے قطر کے حکمرانوں کو مطلع کر کے یہ حملہ انجام دیا ہے۔ یہ پہلے سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے اور قطر کے حکمران زیادہ مشکل صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ "العدید" قطر میں ہے اور سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں موجود امریکہ کے تمام فضائی دفاعی نظام اسرائیلی جنگی طیاروں کو روکنے میں ناکام ہوئے ہیں تو اس کا مطلب کیا بنتا ہے؟
اسی طرح اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں حکمرانوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے والے لبنانی حکمرانوں سے بھی چند سوالات ہیں: کیا قطر میں حماس کے پاس اسلحہ اور فوجی سازوسامان تھا جس سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا؟ کیا قطر کی فوجی طاقت اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ کیا جولانی کی سربراہی میں شام حکومت اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے؟ کیا فلسطین اتھارٹی کا اسلحہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ ان سب نے اسرائیل کی خدمت کی ہے اور اسے تعلقات استوار کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل شام پر بمباری، قطر پر حملے اور فلسطین اتھارٹی کا محاصرہ کرنے سے باز نہیں آیا اور حتی ترکی کو بھی خفیہ بمباری کے ذریعے وہاں موجود حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
اے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے میں جلدبازی کرنے والے لبنانی حکمرانو، آپ لوگوں کے پاس مزاحمت کے علاوہ اسرائیل کو تحفے میں دینے کے لیے کیا ہے؟ نہ آپ کے پاس دولت ہے جو قطر کے پاس ہے، نہ سیاسی کردار ہے جو قطر کے پاس ہے، نہ میڈیا طاقت ہے جو قطر کے پاس ہے، لہذا اسرائیل کبھی بھی آپ لوگوں کو احترام نہیں دے گا۔ اسرائیل اور امریکہ سے صرف طاقت کی زبان میں بات کی جا سکتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل صرف طاقتور کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی نظر میں معاہدوں، مفاہمتی یادداشتوں اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ صرف مزاحمت کی زبان سمجھتے ہیں اور اس کے بل بوتے پر احترام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لہذا حزب اللہ کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ لبنان کی طاقت کا باعث ہیں۔ کیا آپ اس طاقت کو گنوا دینا چاہتے ہیں؟