پنجاب اسمبلی، سانحہ 9مئی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے قرارداد جمع
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 9 مئی پاکستان کی تاریخ کا متنازعہ ترین سانحہ ہے، سانحے کے 2 سال گزرنے کے باوجود حقائق منظر عام پر نہیں لائے جاسکے۔ قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ دو سال سے اس سانحہ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، کون سے خفیہ ہاتھ سانحہ میں ملوث تھے، آج تک ان ہاتھوں کا تعین نہیں ہو سکا۔ اسلام ٹائمز۔ سانحہ 9 مئی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی گئی ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی فرخ جاوید مون نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کروائی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 9 مئی پاکستان کی تاریخ کا متنازعہ ترین سانحہ ہے، سانحے کے 2 سال گزرنے کے باوجود حقائق منظر عام پر نہیں لائے جاسکے۔ قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ دو سال سے اس سانحہ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، کون سے خفیہ ہاتھ سانحہ میں ملوث تھے، آج تک ان ہاتھوں کا تعین نہیں ہو سکا۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایوان کی رائے ہے کہ سانحہ 9 مئی کی شفاف تحقیقات کیلئے جو ڈیشل کمیشن بنایا جائے، جوڈیشل کمیشن اس سانحہ میں ملوث پائے جانیوالے ذمہ داران کا تعین کرے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پنجاب اسمبلی گیا ہے کہ
پڑھیں:
نازیباویڈیوز بنانے کا الزام،مطلوب افراد کوپکڑنے کیلئے سی سی ڈی کا لیگی ایم پی اے کے گھر چھاپہ
لاہور مسلم لیگ (ن) کے رکنِ پنجاب اسمبلی چوہدری نعیم اعجاز کے گھر کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ (CCD) نے چھاپہ مارا، جس نے سیاسی و عوامی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ محکمے کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اُن افراد کی گرفتاری کے لیے کی گئی جو اغوا اور نازیبا ویڈیوز بنانے جیسے سنگین الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ترجمان CCD کے مطابق، ایم پی اے نعیم اعجاز کو پہلے ہی ملزمان کی تفصیلات اور الزامات سے آگاہ کر دیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ اپنے ڈیرہ انچارج کو حکام کے حوالے کریں، کیونکہ وہ ایک دہشت گردی کے مقدمے میں بھی نامزد ہیں۔ محکمے کا مؤقف ہے کہ چھاپہ مکمل شواہد اور قانونی تقاضوں کے تحت مارا گیا۔
دوسری طرف، چوہدری نعیم اعجاز کے ترجمان نے اس کارروائی کو غیر قانونی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف قرار دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ CCD اہلکار بغیر کسی مکمل تحقیق کے گھر میں داخل ہوئے، سیکیورٹی گارڈز کی تلاشی کے بہانے لوٹ مار کی اور نقدی بھی ساتھ لے گئے۔ ان کے مطابق، یہ عمل قانونی کارروائی نہیں بلکہ ڈکیتی تھا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پنجاب میں قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مہم تیز کر چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مجرمانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات ضروری ہیں، لیکن عوامی نمائندوں کے گھروں پر چھاپے شفافیت، غیر جانبداری اور سیاسی محرکات کے سوالات کو بھی جنم دیتے ہیں۔ اس کیس نے ایک بار پھر اس بحث کو ہوا دی ہے کہ قانون نافذ کرنے کے نام پر کی جانے والی کارروائیاں کہاں تک غیر جانبدار رہتی ہیں۔
Post Views: 6