گرم شے ٹھنڈک اور سرد چیز گرماہٹ پہنچائے، یہ کیسی پراسرار بیماری؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
ایک آسٹریلوی شخص ایسی پراسرار بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے جس نے ڈاکٹروں کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیمنشیا، بڑھتی عمر کی ایک جان لیوا بیماری
مذکورہ بیماری کی وجہ سے جب وہ شخص کسی ٹھنڈی شے کو چھوتا ہے تو اس کو گرمی محسوس ہوتی ہے اور جب وہ کسی بھی گرم چیز کو چھوتا ہے تو اس کو سردی لگنے لگتی ہے۔
آسٹریلیا کے 22 سالہ ایڈن میک مینس کی یہ مشکلات 17 سال کی عمر میں شروع ہوئیں جب وہ ہائی اسکول کے آخری سال میں تھا۔
سب سے پہلے اس نے اپنے پیروں میں احساس کھو دیا جس پر اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ س کے پیر سن سے لگتے ہیں۔ جب اس کے پاؤں میں سوجن ہونے لگی تو وہ اسپتال گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے فلوئیڈ برقرار رکھنے کے لیے کچھ دوائیاں دیں لیکن اس سے اس کی حالت ٹھیک نہیں ہوئی۔
اس کے بعد سے حالات مزید بگڑ گئے کیوں کہ تھوڑا سے چلنے پر بھی اسے لگتا کہ جیسے وہ نوکیلی کیلوں پر چل رہا ہو۔ اس پر ڈاکٹروں نے پوسٹ وائرل irritable bowel syndrome (IBS) کی تشخیص کی جس نے اس کی حالت کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
اپنی خراب صحت کے باوجود ایڈن ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن پھر اسے اپنے ہاتھوں میں بھی ایک عجیب و غریب احساس کا سامنا شروع ہوگیا۔ اب وہ جب بھی کسی ٹھنڈی چیز کو چھوتا ہے تو اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے ہاتھ جل رہے ہوں اور جب وہ کسی گرم چیز کو چھوتا ہے تو اسے شدید سردی محسوس ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: بیٹھے بیٹھے لوگ اپنی ٹانگیں کیوں ہلاتے ہیں؟
نوجوان کی والدہ انجیلا میک مینس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک رات ایڈن میرے پاس آیا اور کہا کہ ماں میں نے کوک کا کین اٹھایا تو میرے ہاتھوں کو ایسا لگا جیسے ان میں آگ لگ گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ کچھ ٹھنڈی چیز اٹھاتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ جل رہے ہیں اور جب وہ کوئی گرم چیز اٹھائے تو لگتا ہے تو وہ سردی سے ٹھٹھرنے لگ جاتا ہے۔
نیورولوجسٹس کئی سالوں سے ایڈن کی عجیب حالت کا پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے درجنوں ٹیسٹ کروائے، لمبر پنکچر کے ذریعے علاج کی کوشش کی یہاں تک کہ بایپسی کے لیے اس کے پاؤں میں سے رگ کا ٹکڑا بھی نکالا لیکن کچھ پتا نہ چل سکا۔
آخرکار ایک ڈاکٹر نے ایڈن کو ایک ایسے اعصابی عارضے کے سامنے کی تشخیص کی جو اعصابی خلیوں کی جانب سے پورے جسم کو سنگلز کی منتقلی کے عمل پر اثر انداز ہورہا ہے۔
اس عارضے کے سبب ایڈن کھانا بھی نہیں بنا سکتا اور اسے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدہ نے کہا کہ جب میں اسے کچھ کھانے کو دیتی ہوں تو مجھے بتانا پڑتا ہے کہ وہ شے گرم ہے یا ٹھنڈی۔
مزید پڑھیں: دماغ خور امیبا کیخلاف نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کا انتباہ
بدقسمتی سے ایڈن کو آسٹریلیا کی نیشنل ڈس ایبلٹی انشورنس ایجنسی انشورنس کوور دینے سے انکار کردیا ہے۔ ایجنسی ایڈن کی حالت کو کوئی بیماری نہیں سمجھتی اور اس کے خیال میں ایڈن کی ٹھیک سے تشخیص ہی نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم ایڈن کے نیورولوجسٹ نے واضح کیا ہے کہ وہ ایک پروگریسو نیورولوجیکل عارضے میں مبتلا ہے جس کا کوئی علاج معلوم نہیں ہے۔
ایڈن کے معالج نے بھی ایجنسی کو لکھا ہے کہ ایڈن بلاشبہ ایک لاعلاج معذوری کا شکار ہے اور اس کی حالت بدستور خراب ہوتی جا رہی ہے لہٰذا اس کو میڈیکل کوور ملنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اعصابی بیماری پراسرار بیماری عجیب بیماری گرم و سرد کا الٹا اثر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: گرم و سرد کا الٹا اثر کی حالت کہا کہ
پڑھیں:
وہ جو مزدوروں کا خواب دیکھتا تھا مارکس
پانچ مئی کا دن آیا اورگزرگیا۔ شاید بہت سوں کو یاد نہ رہا ہوکہ اسی دن جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر ٹریر میں ایک بچہ پیدا ہوا تھا جس نے اپنی آنکھوں میں ایک خواب بسایا تھا وہ خواب جس میں مزدورکا ہاتھ خالی نہ ہو، کسان بھوکا نہ ہو اور عورت محض جسم نہ سمجھی جائے، وہ بچہ کارل مارکس تھا۔
مارکس ایک ایسا نام جو سرمایہ دارکی نیندیں اڑا دیتا ہے اور پسے ہوئے انسان کے سینے میں امید کی ایک کرن جگا دیتا ہے، مگر یہ وہ مارکس بھی ہے جس کی زندگی کا ہر صفحہ دکھ، فاقہ، جلا وطنی اور محرومیوں کی تحریر سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ دنیا کے بڑے خواب دیکھنے والوں کو اپنے خوابوں کی قیمت جسم اور روح سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ مارکس انھی خواب دیکھنے والوں میں سے ایک تھا۔ اس نے محض لکھا نہیں جھیلا بھی، وہ سب کچھ جسے لکھنے کے لیے بڑا دل اور مسلسل اذیتوں کا سامنا درکار ہوتا ہے۔
مارکس کے خواب بہت بڑے تھے لیکن زندگی چھوٹی سخت اور سرد تھی۔ لندن کی گلیوں میں ایک ایسا شخص رہتا تھا جس کے نظریے نے دنیا کو بدلنے کی بنیاد رکھی لیکن جس کے گھر میں اکثرکوئلہ نہ ہوتا اور جس کے بچے بھوک اور بیماری سے ایک ایک کر کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے دنیا سے رخصت ہوتے گئے۔اس کی جینی اس کی شریکِ حیات جس نے مارکس کے دکھ اپنے آنچل میں سمیٹ رکھے تھے وہ خاموشی سے اس کے ساتھ فاقوں کی دہلیز پر بیٹھی رہی۔ اس کی آنکھوں نے اپنے بچوں کو مرتے دیکھا مگر اس کی زبان پر شکوہ نہ آیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب ایک بڑے خواب کا حصہ ہے، وہ خواب جو مارکس نے دیکھا تھا ایک ایسا جہاں جہاں کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے۔
مارکس نے کہا تھا ’’ فلاسفہ نے دنیا کو مختلف انداز سے سمجھایا ہے، اصل کام تو اسے بدلنا ہے۔‘‘ یہ جملہ محض فلسفہ نہیں ایک اعلان تھا۔ ایک اعلان جنگ اس نظام کے خلاف جو دولت کو خدا بناتا ہے اور انسان کو غلام۔ مارکس کا قلم وہ ہتھیار تھا جس نے سرمایہ داری کی بنیادوں کو ہلایا اور تاریخ کو ایک نئی زبان عطا کی، جدوجہد کی زبان، سوال کی زبان اور بغاوت کی زبان۔جب وہ لکھتا ہے کہ’’ مزدور کی محنت سے سب کچھ پیدا ہوتا ہے لیکن خود مزدور محروم رہتا ہے‘‘ تو میرے سامنے سندھ کی وہ عورتیں آجاتی ہیں جوکپاس چنتی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں چھالے ہوتے ہیں۔ جب وہ کہتا ہے کہ’’ سرمایہ خون چوستا ہے دن ہو یا رات‘‘ تو مجھے فیکٹریوں میں کام کرتے وہ بچے یاد آ جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں نیند ہے لیکن تنخواہ محض چند سکے۔
مارکس نے محض معیشت کی بات نہیں کی، اس نے انسان کے رشتے اس کی اجنبیت اس کی بیگانگی کی بھی بات کی۔ اس نے کہا کہ سرمایہ داری انسان کو انسان سے جدا کردیتی ہے، اسے چیزوں سے جوڑتی ہے اور اس کے جذبے اس کی تخلیق اس کی روح سب کچھ بازار کے حوالے کردیتی ہے۔اس کا کمیونسٹ مینی فیسٹو ہو یا داس کیپیٹل ہر صفحہ مزدورکے لیے لکھا گیا ہے۔ ہر سطر میں کسان کی فریاد ہے، ہر دلیل میں عورت کے استحصال کی بازگشت ہے۔ اس کی تحریریں صرف کتابیں نہیں وہ ایک تحریک ہیں، ایک وہ مشعل جو آج بھی جل رہی ہے، اگرچہ ہوائیں اسے بجھانے کی ہر کوشش کرچکی ہیں۔
مارکس کے کئی بچے مرگئے۔ وہ خود بھی ساری زندگی معاشی تنگی کا شکار رہا۔ اس نے لکھا مگر اس کی تحریریں برسوں بعد چھپیں۔ اس نے بولنا چاہا مگر اکثر جلا وطن کردیا گیا۔ وہ جہاں گیا وہاں کی ریاستوں نے اس پر پہرہ بٹھا دیا۔ اس کے لیے کوئی اعزازکوئی خطاب کوئی آسائش نہ تھی، لیکن تاریخ نے اس کے نظریے کو تسلیم کیا۔ روس کے انقلاب سے لے کر ویتنام کیوبا چین اور دنیا بھرکی مزدور تحریکوں تک ہر جگہ اس کی آواز گونجی۔ میں یہ کہنے میں تامل محسوس نہیں کرتی کہ مارکس کا خواب آج بھی ادھورا ہے۔
آج بھی پاکستان سے لے کر فلسطین تک بنگلہ دیش سے لے کر برازیل تک مزدور پس رہا ہے، کسان خود کشیاں کر رہا ہے، عورت آج بھی کم اجرت پہ مزدوری کر رہی ہے اور دوہری چکی میں پس رہی ہے۔ وہ نظام جو مارکس نے ناپسند کیا آج بھی قائم ہے اور دن بہ دن اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ مگر میں جانتی ہوں، خواب مرتے نہیں۔ خواب سفرکرتے ہیں، نسل در نسل۔ مارکس ہماری آنکھوں میں خوابوں کے دیپ جلا گیا۔ ہم وہ قافلے والے ہیں جن کے قدم تھمتے نہیں۔ ہم وہ چراغ ہیں جو اندھیروں سے نبرد آزما رہتے ہیں۔
پانچ مئی کا دن میرے لیے صرف مارکس کی سالگرہ نہیں، ایک عہد کی تجدید کا دن ہے۔ میں ہر سال اس دن خود سے وعدہ کرتی ہوں کہ جب تک میرے قلم میں سیاہی ہے جب تک میری سانسوں میں حرارت ہے، میں اس خواب کو زندہ رکھوں گی جسے مارکس نے دیکھا تھا۔
میں اس سچ کو لکھتی رہوں گی جس سے سرمایہ دار خوف کھاتا ہے اور مزدور حوصلہ پاتا ہے۔مارکس آج بھی زندہ ہے ہر فیکٹری میں ہرکھیت میں ہر خواب دیکھتی آنکھ میں ہر احتجاجی نعرے میں۔ وہ ہمیں پکار رہا ہے کہ ’’آؤ میرے خواب کو حقیقت میں بدل دو۔ ‘‘مارکس کے خوابوں کا ذکرکرنا صرف ایک شخص کی زندگی بیان کرنا نہیں بلکہ اس نظریے کی بات کرنا ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔ جو ہر اس جگہ زندہ ہے جہاں مزدور اپنا پسینہ بہا رہا ہے مگر اس کا پھل کوئی اور کھا رہا ہے۔ وہ نظریہ جو ہر اس عورت کے دل میں دھڑک رہا ہے جو اپنی اجرت کے لیے آواز اٹھاتی ہے ہر اس کسان کے خون میں گردش کر رہا ہے جو زمین کو سینچتا ہے مگر بدلے میں قرضوں کی زنجیر پاتا ہے۔
آج جب ہم مارکس کی سالگرہ پر اسے یاد کر رہے ہیں تو صرف ایک فلسفی کو خراج نہیں پیش کر رہے بلکہ اس روشنی کو سلام کر رہے ہیں جس نے صدیوں سے جاری اندھیروں میں چراغ جلایا۔ مارکس نے ہمیں یہ سکھایا کہ دنیا کو صرف قبول نہ کرو، اسے سمجھو اور پھر اسے بدلنے کے لیے کمربستہ ہو جاؤ۔ اس کا ہر جملہ ایک صدا ہے ہر خیال ایک سوال ہر سطر ایک بغاوت۔ہم یہ بھی نہیں بھول سکتے کہ مارکس اکیلا نہ تھا۔
وہ ایک تحریک کی علامت ضرور ہے مگر اس کی سوچ نے دنیا بھرکے دانشوروں مزدور رہنماؤں ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کو متاثرکیا۔ پاکستان میں ہی فیض احمد فیض، جالب، حسن ناصر اور ان جیسے سیکڑوں لوگ مارکس کی فکر سے جڑے اور ان کی زندگیاں بھی اسی خواب کی تعبیر تھی۔ فیض کی نظموں میں جالب کی للکار میں حسن ناصرکی شہادت میں ہمیں وہی آواز سنائی دیتی ہے جسے مارکس نے سب سے پہلے بلند کیا تھا۔