وفاقی ادارہ شماریات کے سربراہ ڈاکٹر نعیم الظفر نے کہا ہے کہ اعداد و شمار کو محض نمبرز کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، اس ڈیٹا کو پالیسیوں اور منصوبوں کو وضع کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جس سے ہماری قومی ترقی کو فروغ ملے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں یو این ایف پی اے کے تعاون سے ’’ڈیٹا کی تشریح اور اس کے استعمال‘‘ کے موضوع پر منقعد تین روزہ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تقریب میں صوبائی محکمہ منصوبہ بندی و ترقی، بیورو آف اسٹیٹکس، تعلیم، صحت، معیشت اور تحقیقاتی اداروں کے نمائندے شریک ہوئے۔ ورکشاپ میں تعلیم، صحت، معیارِ زندگی، پانی و نکاسی، قیمتوں کے اعداد و شمار، غیر ملکی تجارت، معاشی اعداد و شمار اور لیبر فورس کے موضوعات پر گفتگو کی گئی۔

چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے کہا کہ اس ورکشاپ کا مقصد وفاقی، صوبائی محکموں کو ڈیٹا کی بنیاد پر بہتر اور موثر فیصلے کرنے کے قابل بنانا ہے۔ یہ ورکشاپ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی درخواست پر منعقد کی گئی ہے تاکہ سندھ کے محکمے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ کو ڈیٹا ٹولز میں اس قابل بنائیں جو انہیں باخبر فیصلہ سازی میں مدد فراہم کرسکے۔

انہوں نے بتایا کہ مستقبل کی موثر منصوبہ بندی کے لیے جو بھی ڈیٹا درکار ہونا چاہیے وہ ڈیجیٹل مردم شماری میں موجود ہے، صرف انسانوں کی تعداد نہیں، انفرااسٹرکچر، عمارتیں، گھر، ان کے استعمال میں موجود سہولتیں، تعلیم، صحت غرض جو آپ سوچیں اس کا ڈیٹا موجود ہے جو پاکستان کو ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کافی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ منصوبہ بندی کرنے والے ادارے ان اعداد و شمار سے فائدہ اٹھائیں۔ ڈاکٹر نعیم الظفر نے گڈ گورننس کی اہمیت اور ڈیٹا پر مبنی منصوبہ بندی کے لیے ایک اچھی طرح سے طے شدہ روڈ میپ پر عمل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے یو این ایف پی اے کے نمائندے گولڈن ملیلو نے کہا کہ وفاقی ادارہ شماریات ڈیٹا اکٹھا کرنے میں سخت محنت کرتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس ڈیٹا کا استعمال نہیں کیا جاتا اور پالیسی سازی میں اس کی عکاسی نہیں ہوتی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا

 

ٹرمپ انتظامیہ نے عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ کیا ہے کہ ایک سینئر انتظامی عہدیدار اور معاملے سے واقف علاقائی ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے منگل کو عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس کے نتیجے میں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر تبادلۂ خیال ہوا کہ حتمی تجاویز پر کس طرح اتفاق کیا جائے جو ممکنہ طور پر اس تنازع کو ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
بدھ کے روز امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا کہ آئندہ دنوں میں ’ کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت’ ہو گی لیکن انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔
اسٹیو وٹکوف نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی وفد اور عرب رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد کہا کہ’ ہمارا اجلاس بہت نتیجہ خیز رہا’ ۔
اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کونکورڈیا سمٹ کے دوران کہا کہ’ ہم نے جو پیش کیا اسے ہم مشرقِ وسطیٰ میں، غزہ میں، ٹرمپ 21 نکاتی امن منصوبہ کہتے ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ’ میرے خیال میں امن منصوبے میں اسرائیل اور خطے کے تمام پڑوسیوں کے خدشات دونوں کو مدنظر رکھا گیا ہے، اور ہم پرامید ہیں، بلکہ مجھے کہنا چاہیے پراعتماد ہیں، کہ آئندہ دنوں میں ہم کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت کا اعلان کر سکیں گے۔’
امریکی انتظامیہ کے اس منصوبے میں کئی نکات شامل تھے جن کا پہلے بھی عوامی سطح پر ذکر کیا جا چکا ہے، جیسے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی، ایک الگ ذریعے کے مطابق اس منصوبے میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ غزہ میں حماس کے بغیر حکومت قائم کرنے کا فریم ورک بنایا جائے اور اسرائیل بتدریج غزہ کی پٹی سے انخلا کرے۔
دو علاقائی سفارت کاروں کے مطابق علاقائی رہنماؤں نے ٹرمپ کے منصوبے کے بڑے حصے کی توثیق کی لیکن کچھ تجاویز بھی دیں جنہیں وہ کسی حتمی منصوبے میں شامل کرنا چاہتے ہیں، ان میں شامل نکات یہ تھے کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کا انضمام نہ ہونا، یروشلم کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنا، غزہ کی جنگ ختم کرنا اور حماس کی تحویل میں موجود تمام یرغمالیوں کی رہائی، غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ اور اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کا حل نکالنا۔
ایک سفارت کار نے کہا کہ’ یہ اجلاس بہت مفید رہا’ اور وضاحت کی کہ اس میں تفصیلات پر بھی بات ہوئی۔
یہ نئی پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کے لیے بمباری کی تھی جس کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے ذریعے جاری تمام مذاکرات رک گئے تھے، اس حملے کے بعد خطے کے دورے میں وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکراتی تصفیے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ وقت ختم ہو رہا ہے۔’
قطریوں نے اس ہفتے ٹرمپ سے ملاقات میں یہ پیشکش کی کہ وہ ثالثی کا کردار جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ اسرائیل آئندہ ان کے ملک پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔
رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ جاری کوششوں پر مزید بات کرنے کے لیے دوبارہ ملاقات کریں گے، اور یہ ملاقات بدھ کے روز مارکو روبیو کے ساتھ ہوئی، مارکو روبیو نے اس ملاقات کے آغاز میں کہا کہ ’ غزہ اور فلسطینی عوام کے مستقبل کے حوالے سے اس وقت بھی بہت اہم کام جاری ہے۔’
یورپی حکومتوں کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کے پیش کردہ منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا اور دو یورپی سفارت کاروں نے سی این این کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنازع ختم کرنے کی ایک نئی سنجیدہ کوشش ہے۔
ایک افسر نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے، اور ایسا قدم معاہدہ ابراہیم کے پھیلاؤ کو تقریباً ناممکن بنا دے گا، جو ٹرمپ انتظامیہ کا ایک مقصد ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ منصوبہ سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس کے موقع پر خلیجی شراکت داروں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
امریکا نے اس کانفرنس کا اس بنیاد پر بائیکاٹ کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کو انعام دینے کے مترادف ہوگا۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • اعلیٰ تعلیم کے نئے دور کا آغاز،سی آئی ای سی کا جامعات  کی حیثیت کو عالمی معیار پر لے جانے کا عزم
  • ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا
  • شام کی پالیسی اب متوازن سفارت کاری اور اقتصادی ترقی، احمد الشرح
  •  احسن اقبال کی گورنر  ہونان سے ملاقات‘ بی ڈو سمٹ میں شرکت  
  • پاکستان کی فارما صنعت میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کا آغاز
  • جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلیے قومی اسکواڈ پر مشاورت مکمل، اعلان جلد متوقع
  • ٹک ٹاک کا کینیڈین بچوں کا حساس ذاتی ڈیٹا اکٹھا کرنے، اسے آن لائن مارکیٹنگ و کانٹینٹ ٹارگٹنگ کے لیے استعمال کرنے کا انکشاف
  • کینیڈا: ٹک ٹاک کی بچوں کے ڈیٹا کے تحفظ کی کوششیں ناکافی قرار
  • مذاکرات کی آڑ میں اپنے مخالفین کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے،  امیر قطر
  • عالمی ادارہ صحت نے ٹرمپ کے دعوے کی تردید کردی