لاہور:

پاکستان نے بھارت کو ایک تاریخی اورعبرت ناک شکست دے کر نہ صرف دشمن کےعزائم خاک میں ملا دیے بلکہ قوم کے حوصلے اور اتحاد کی نئی مثال قائم کر دی ہے، اس عظیم کامیابی کا جشن منانے کے لیے اتوار کو ہزاروں پاکستانی شہری واہگہ بارڈر پہنچے جہاں فضا "اللہ اکبر"، "پاک فوج زندہ باد" اور "پاکستان پائندہ باد" کے فلک شگاف نعروں سے گونجتی رہی۔

واہگہ بارڈر پرجمع ہونے والے شرکا میں نوجوانوں، بزرگوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی جو سبز ہلالی پرچم اٹھائے، وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار نظر آئے، اگرچہ پاکستان اسٹیڈیم ابھی زیرتعمیر ہے اور عوام کی شرکت محدود ہوتی ہے تاہم اس روز واہگہ بارڈر پر انسانوں کا سمندر امڈ آیا، گویا پوری قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔

پریڈ کے اختتام پر شہریوں نے پاکستان رینجرز پنجاب کے جانبازوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں، انہیں پھولوں کے ہار پہنائے اور بار بار "ہمیں تم پر ناز ہے" کے نعرے لگائے، بزرگ خواتین نے جوانوں کے ماتھے چوم کر ان کی قربانیوں اور استقامت کو خراج تحسین پیش کیا۔

لاہور کی ایک طالبہ مریم نے جذباتی انداز میں کہا کہ ہم یہاں آج بھارت کے خلاف جنگ میں فتح اور کامرانی کی خوشی منانے آئے ہیں، امید ہے کہ مودی کے دماغ پر جو جنگ کا بخار سوار تھا، وہ اب اتر گیا ہوگا۔

ایک نوجوان شہری حمزہ نے کہا کہ پاکستان کی فوج نے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہم مسلمان اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، بھارت اب پاکستان کو دوبارہ جنگ کی دھمکی دینے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔

ایک خاتون شہری نے پُرعزم انداز میں کہا کہ اب بھارت خواب میں بھی پاکستان کے ساتھ جنگ کا تصور نہیں کرے گا، ہماری فوج نے دشمن کو ایسا سبق سکھایا ہے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

پریڈ کمانڈر ناصر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے انڈیا کے ساتھ کشیدگی شروع ہوئی، ہم ہر لمحہ یہاں تیار کھڑے تھے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہم مسلمان اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، 2019 میں بھی اسی بارڈر پر ہم نے انڈیا کے کمانڈر ابھینندن کو حوالے کیا تھا، آج پھر دشمن کو ہماری طاقت کا اندازہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی لوگ رات کے وقت ہمارے لیے کھانا لے کر آتے تھے اور آج بھی یہ لوگ ہم پر پھول نہیں بلکہ اپنے دل نچھاور کر رہے ہیں، یہی محبت ہماری ہمت اور حوصلہ بڑھاتی ہے۔

رینجرز کے ایک اور جوان علی نے اپنے جذبات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب کشیدگی شروع ہوئی اور پھر بھارت نے پہل کرتے ہوئے حملہ کیا تو میری ماں نے فون کرکے کہا تھا، بیٹا ڈرنا نہیں، وطن کی حفاظت میں اگر جان بھی قربان کرنا پڑے تو دریغ نہ کرنا، سینے پر گولی کھانا، اگر تمھاری پشت پر گولی لگی تو میں تمھیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔

انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ساتھی رینجرز کے جوان شہادت کے جذبے سے سرشار ہو کر یہاں کھڑے ہیں، ہمارا عزم ہے کہ دشمن کی ہر سازش ناکام بنائیں گے۔

واہگہ بارڈر میں اس دوران بھارتی سائیڈ پر مکمل سناٹا چھایا رہا، دشمن کا اسٹیڈیم خالی رہا، بی ایس ایف انڈیا کے جوان پریڈ میں شریک نہیں ہوئے، صرف خاموشی سے ترنگا اتارا گیا، یہ منظر خود گواہ تھا کہ بھارتی فوج اور قیادت خوف زدہ ہے اور عوام کو بھی پریڈ میں شرکت سے روک دیا گیا۔

واہگہ بارڈر اس دن ایک بار پھر اس تاریخی حقیقت کا گواہ بنا کہ جب پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہو تو کوئی دشمن میلی آنکھ سے وطن کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔

پاکستانی عوام اور رینجرز نے دنیا کو پیغام دیا کہ ہماری سرزمین، ہماری غیرت اور ہماری آزادی پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں، یہ جشن صرف فتح کا نہیں بلکہ قومی وحدت، حوصلے، قربانی اور جذبۂ شہادت کا جشن تھا، ایک عہد کہ ہم زندہ قوم ہیں اور ہمیشہ سرخرو رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: واہگہ بارڈر کہا کہ

پڑھیں:

بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کے ماحول کے بعد بھارت بالخصوص نریندر مودی اور ان کے حامیوں میں پاکستان کے خلاف سخت غصہ، تعصب، نفرت اور بدلے کی سیاست کا پہلو نمایاں ہے۔بھارت کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ اس کو حالیہ مہم جوئی میں پاکستان کے خلاف داخلی یا خارجی محاذ پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج بھی یہ سوچ غالب ہے کہ پاکستان پرکیسے دوبارہ نفسیاتی برتری حاصل کی جائے۔

اس کے لیے بھارت کی حکومت جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان پر سفارتی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان کی مخالفت میں ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں ’’ گرے لسٹ میں پاکستان کی دوبارہ شمولیت ‘‘ پر ایک سیاسی چال چلی جس میں اسے سیاسی اور سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

حالیہ دنوں میں فرانس میں ہونے والے ابتدائی اجلاس میں بھارت نے کوشش کی کہ پاکستان کو ریاستی سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات کی بنیاد پر گرے لسٹ میں شامل کیا جائے مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ بھارت کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت یا شواہد موجود نہیں تھے جو اس کے مقدمہ کو مضبوط بناسکتے تھے۔

اصولی طور پر جب پاکستان اپنی سفارتی کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمہ میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلا تھا تو اس وقت بھی بھارت کی پاکستان مخالف سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔ بھارت نے اپنی اس ناکامی کو آسانی سے قبول نہیں کیا تھا اور اس کے بعد اس کی پاکستان کے تناظر میں خارجہ پالیسی میں یہ ہی نقطہ اہم تھا کہ کیسے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی والے ملک کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے ۔

اس تناظر میں بھارت نے عالمی سطح کے میڈیا،  اپنے داخلی میڈیا، سفارتی پلیٹ فارم اور عالمی سطح پر موجود اپنے حمایتی ممالک اور تھنک ٹینک کو بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ وہ کسی طریقے سے پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لاسکے۔پہلگام کا واقعہ اور اس کے بعد پاکستان پر الزامات کی بارش ، اس کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بیانیہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مگر بھارت کی یہ چال بھی برے طریقے سے ناکام ہوئی اور تمام سفارتی سطح پر بھارت کوئی بھی پاکستان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکا ۔

بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کرسکے اور پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے۔بھارت نے اپنے اس کھیل میں امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت انحصار کیا ہوا تھا اور بھارت کا خیال تھا کہ ہم کیونکہ بھارت کے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں تو بھارت پاکستان کے خلاف ہمارے مفادات کو اہمیت دے گا۔لیکن حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی اور جس طرح سے پاکستان نے بھارت پر نفسیاتی برتری حاصل کی اس نے امریکا کو بھی اس امر پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ پاکستان اہم ملک ہے اور اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔

امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی حیثیت دینا، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش، پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمہ میں جرات مندانہ کردار کی اہمیت اور اعتراف کرنا ، پاکستان کو اپنا اہم دفاعی یا سیاسی پارٹنر تسلیم کرنا یقینی طور پر بھارت کو قبول نہیں تھا۔لیکن امریکا اور پاکستان کے درمیان نئی صف بندی، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا اہم دورہ امریکا اور امریکی صدر سے ون ٹو ون براہ راست ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ بھارت ہر محاذ پر پاکستان کی مخالفت کا کارڈ کھیلے گا۔

پاکستان یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ایف اے ٹی ایف میں اصل کردار امریکا کی برتری کا ہے اور اگر امریکا پاکستان تعلقات میں بہتری نہیں ہوگی تو ایف اے ٹی ایف ہمارے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے داخلی محاذ پر جو بھی سنجیدہ کوششیں کیں اس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف نے بھی کیا ہے اور اب کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مستقبل کے تناظر میں اپنی پوزیشن واضح طور پر مضبوط کرلی ہے۔لیکن یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور جس انداز سے بھارت پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے ہمیں ایف اے ٹی ایف سمیت دہشت گردی کے حالات میں زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا اور ان پہلوؤں کے خاتمہ میں اپنی پالیسیوں میں زیادہ ذمے داری دکھانی ہوگی ۔پاکستان میں جو بھی ادارے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ان اداروں کی فعالیت اور شفافیت کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومتی سطح پر2023میں ایک قانون کی مدد سے ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ کو بھی اب ایک اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اس لیے اس اتھارٹی کا بہتر اور شفاف استعمال ہی حکومت کے مفاد میں ہے جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد دے گا۔

ہمیں دنیا میں موجود ان عالمی اداروں کی افادیت کو بھی سمجھنا ہوگا اور خود کو ان ہی کے طے کردہ طور طریقوں کے مطابق ڈھالنا بھی ہوگاکیونکہ پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے معاملات میں محض بھارت ہی ہمارے خلاف نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بیشتر ممالک، اہم ادارے اور تھنک ٹینک تحفظات رکھتے ہیں۔اس لیے جو بھی ہمارے داخلی مسائل یا خرابیاں ہیں ان کو دور کرنا ہماری ذمے داری ہے۔اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کا دروازہ بھی بند کیا ہوا ہے اور یہ ہی وہ ڈید لاک ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب بھی کررہا ہے۔

بھارت اس وقت کافی پریشان بھی ہے اور پاکستان کے تناظر میں غصہ میں بھی ہے اس لیے ہمیں بطور ریاست بھارت کے عزائم سے خبردار اور ہوشیار بھی رہنا ہوگا۔ ہمیں خوش فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ موجودہ حالات کی بنیاد پر ہم بھارت سے بہتر اور بہت آگے کھڑے ہیں ۔یہ سچ اپنی جگہ مگر ابھی ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں بہت کچھ بہتر کرنا ہے۔ بالخصوص ہمارے جو بھی داخلی سطح پر سیاسی،معاشی ،سیکیورٹی اور گورننس کے مسائل ہیں ان پر توجہ دے کر اپنا داخلی مقدمہ زیادہ مضبوط طور پر بنانا ہوگا تاکہ ہم موجودہ چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں ۔ ہمیں جن مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے اور اس کے خاتمے میں ہمارا کردار واضح نظر آنا چاہیے کہ ہماری ریاست ان مسائل سے نمٹ رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال
  • اسٹیبلشمنٹ ہماری اپنی ہے، ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے میں کوئی شرم نہیں
  • اسرائیل ایران جنگ ایک نئے انداز سے ہماری دہلیز پر آگئی تھی، عرفان صدیقی
  • بجٹ عوام دشمن، سیاستدان دشمن اور اسمبلی دشمن ہے، جاوید منوا
  • جنوبی وزیرستان: تاجر برادری نے انگوراڈہ بارڈر گیٹ کھولنے کے لیے 30 جون کی ڈیڈ لائن دے دی
  • جنوبی وزیرستان میں بھارتی اسپانسرڈ خوارجیوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش
  • مائنس عمران خان ہماری لاشوں سے گزر کر ہوگا، علی امین گنڈاپور کا علیمہ خان کے بیان پر ردعمل
  • شکست دشمن کا مقدر، اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح مبارک
  • پولیو کا خاتمہ محض ایک پروگرام نہیں بلکہ قومی مشن ہے، وفاقی وزیر صحت
  • بارڈر پر صورتحال کشیدہ، پردیس میں پاک بھارت پلئیرز ایک، ویڈیو وائرل