امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی پیشکش کردی
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
واشنگٹن ( نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر کام کروں گا اور دیکھوں گا کیا ہزاروں سال بعد مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لئے دونوں ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔جنگ بندی پر دونوں ملکوں کی تعریف کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں بھارت اور پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل قیادت پر بے حد فخر محسوس کرتا ہوں، دونوں ممالک کی قیادت نے دانشمندی، قوت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت نے اس حقیقت کو پوری طرح جانا اور سمجھا کہ جارحیت رکنی چاہیے، کشیدگی بے شمار جانوں کے ضیاع اور بے پناہ تباہی کا سبب بن سکتی تھی، لاکھوں بے گناہ اور نیک لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے بہادرانہ اقدامات سے آپ کی میراث مزید مضبوط ہوئی ہے، مجھے فخر ہے کہ امریکا آپ کو اس تاریخی اور شاندار فیصلے تک پہنچانے میں مدد فراہم کر سکا۔ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کیساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کا اعلان کیا اور کہا کہ دونوں عظیم قوموں کے ساتھ تجارت کو وسعت دوں گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا کی ثالثی میں بھارت اور پاکستان فوری جنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں، بھارت اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کر دی۔
بھارتی جارحیت کی صورت میں پاکستان کے عوام کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کر دکھایا، ترجمان پاک فوج
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ نے کے ساتھ
پڑھیں:
اسرائیل ایران جنگ کا ڈرامائی اختتام ، ٹرمپ پھر مرد بحران قرار
اسلام آباد ( طارق محمود سمیر ) اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری 12 روز جنگ کا ڈرامائی انداز میں خاتمہ ہو گیا ہے ، 10 مئی کو پاک بھارت جنگ کے خاتمے کا ٹویٹ بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا اور اس جنگ کے خاتمے کا ٹویٹ کر کے سیز فائر کا کریڈٹ بھی لیا اور ساتھ ہی اس بات کا دعوی کیا کہ ایران کی جوہری صلاحیت کا انہوں نے خاتمہ کر دیا ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں کم وسائل، عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا وہ قابل دید بات ہے اس ساری صورتحال میں پاکستان نے سفارتی سطح پر ایران کی مکمل حمایت کی تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر یہ جنگ مزید طوالت اختیار کرتی تو اس کے منفی اثرات خطے کے علاوہ پاکستان پر بھی مرتب ہو تی ہیں اور سیز فائر کے بعد اب پاکستان ایک بڑے امتحان سے بچ گیا ہے کیونکہ ایک طرف پاکستان امریکہ کو ناراض نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ملکی معاشی صورتحال اور بھارت کے ساتھ معاملات پر امریکہ پاکستان کا ساتھ دے۔ رہا ہے، دوسری پہلو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایران پاکستان کا برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ہے اور ایران کے ساتھ مذہبی اور تاریخی رشتے ہیں، اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا فورم ہو یا دیگر فورمز، پاکستان نے ایران کا ساتھ دیا، حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید تو کی جاسکتی ہے لیکن ایک مثبت پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں کوئی بھی دوست ملک پاکستان سے ناراض نہیں ہوا، امریکہ، چین، ایران ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، قطر ، ترکیہ سب پاکستان سے خوش ہیں اور اس کی وجہ یہ ہیکہ اس ساری معاملے میں پاکستان نے سفارتی سطح پر اچھے کارڈ کھیلے ، ایران پر جارحیت کر کے اسرائیل نے یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف دہشت گرد بلکہ ایک گینگسٹر ملک ہیاور امریکہ نے بھی اس کا ساتھ د یا حتی کہ امریکی صدر نے یہودی لابی اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے بی ٹی جدید طیاروں کے ذریعے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا کر یہ دعویٰ کیا کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے جس کی ایرانی حکام تردید کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے اثاثوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا، اسرائیل اور خلیجی ممالک کی گزشتہ 40 سے 50 سال کی تاریخ تو دیکھا جائے تو اسرائیل نے مصر، نہتے فلسطینیوں ، حزب الله حماس اور لبنان کو اپنے جدید میزائلوں اور ٹینکوں کے ذریعے نشانہ بنایا اور یہ جنگیں یکطرفہ تھیں فلسطینی عوام پتھروں سے مقابلہ کرتے رہے، ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اسرائیل کے لئے خطرہ بنی رہی تو اس کے خلاف بڑی کارروائی کی گئی، یہ پہلا موقع تھا کہ ایران نے اسرائیل کی ٹھکائی کی جس سے اسرائیل ہل کر رہ گیا اور مین یا ہونے نریندرمودی کے نقشے قد نے ٹرمپ سے سیز فائر کرانے کا مطالبہ کیا اور اس میں قطر نے ثالث کا کردار ادا کر تیہوئے ایران سے رابطہ کیا ، اس ساری صورتحال میں ایک اور پہلو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے جارحیت کی لیکن انہیں تو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی کیونکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال کے تحت ان سے دنیا میں کوئی پوچھ کچھ نہیں کر سکتا، اس جنگ میں پاکستان کی جہاں خارجہ پالیسی تعریف کی جا رہی ہے وہیں بھارت غیر متعلقہ رہا اور بھارت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس طرح وہ ایرانی عوام کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہیکیونکہ ایران اور بھارت کی کافی مضبوط دوستی تھی اور ایران نے گوادر پورٹ کے مقابلیمیں چاہ بہار میں بھارت کو لا کر بٹھا دیا تھا، بھارتی جاسوس پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ایرانی سرزمین کو استعمال کرتے رہے جس کا واضح ثبوت کلبھوشن یادیو کی صورت میں پاکستان کے پاس موجود ہے، اب ایرانی قیادت کو چاہئے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کر سکے اور ایران کے اندر موجود را** کے ایجنٹوں کا خاتمہ بھی یقینی بنا جائے ، امریکی صدر ٹرمپ ، جو نوبل امن ایوار لینا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ فوری طور پر غزہ میں اسرائیلی مظالم بند کرا کر دو ریاستی حل کی طرف آگے بڑھیں اور فلسطین کی ریاست کے قیام میں اپنا مثبت کردار ادا کریں جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حقیقی معنوں میں ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر حل کرائیں۔
Post Views: 2