جنگ کے بعد بین الاقوامی طور پر کیا کچھ بدلا اور پاکستان کس طرح صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
7 مئی کو شروع ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے بعد بین الاقوامی طور پر بہت کچھ بدل گیا ہے اور کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر تبدیلیاں پاکستان کے حق میں ہیں۔ جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان نے روایتی جنگ میں بھارت کو زمینی اور فضائی کارروائی میں ناکوں چنے چبوا دیے۔ اس پر دنیا بھر کے ممالک حیران ہیں۔ اور پاکستان اس وقت عالمی سطح پر ایک اہم ملک کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔
دوسرا بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا اور بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزام لگانا، اس ساری صورتحال نے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو برے طریقے سے مجروح کیا ہے۔
پاکستان کی دفاعی صلاحیت کا عالمی سطح پر اعترافاس مختصر جنگ کے بعد جس طرح سے پاک فضائیہ نے دشمن کے 06 جنگی جہاز گرائے اُن کے میزائلوں کو ناکام بنانے کے لیے جی پی ایس ٹیکنالوجی کا زبردست استعمال کیا اس سے دنیا بھر میں بالخصوص مسلم ممالک میں پاکستان کو زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اس لڑائی سے قبل پاکستان کو قدرے ایک ناکام اور غیر مستحکم ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن اس جنگ نے نہ صرف اندرون ملک سیاسی استحکام میں مدد دی بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے ایک مضبوط ملک ہونے کا اعتراف کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی سے پاکستانی معیشت کے لیے نئے دروازے کھل گئے، مگر کیسے؟
امریکی دفاعی میگزین دی نیشنل انٹرسٹ نے لکھا کہ 7 مئی کو شروع ہونے والی جھڑپیں پاکستان کی واضح جیت کی صورت میں سامنے آئیں حالانکہ دفاعی ماہرین کا خیال تھا کہ بھارت کی عددی اکثریت کی وجہ سے اس کا پلڑا بھاری رہے گا۔
بھارت کی سفارتی تنہائیاس تنازعے کی شروعات سے بھارت کو وہ بین الاقوامی حمایت میسر نہیں آئی جس کی وہ توقع کر رہا تھا۔ حتٰی کہ امریکا جیسے تزویراتی حلیف نے بھی بھارت کی حمایت سے انکار کیا اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو پہلگام واقعے کا ذمے دار قرار دینے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
علاقائی طاقت کے توازن میں تبدیلیاس مختصر لڑائی کے دوران پاکستان کو چین اور ترکیے کی تکنیکی مدد حاصل رہی۔ اس سے پاکستان ایک اہم جغرافیائی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا اور نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی تناظر میں پاکستان ایک معتبر ملک کے طور پر سامنے آیا۔
بھارت کی سبکیاس تنازعے میں بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کے فوراً بعد پاکستان کو ملوث ظاہر کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں۔ بین الاقوامی برادری نے کسی طور پر بھی بھارت کے مؤقف کی حمایت کی بجائے دونوں ملکوں کو جنگ سے بچنے کی تلقین کی۔
مسئلہ کشمیر کا عالمی سطح پر اُجاگر ہوناپاک بھارت لڑائی کے بعد سب سے اہم پیش رفت مسئلہ کشمیر کا ایک بار پھر سے عالمی سطح پر اُجاگر ہونا ہے۔ امریکا کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دینے کا مطلب ہے کہ وہ اِس کو ایک بڑے اور حل طلب مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اور اسی مسئلے کے نیچے بھارت کی جانب سے پیدا کردہ ایک مسئلہ معاہدہ سندھ طاس ہے۔
پاکستان کے لیے مفید صورتحال، سب سے زیادہ سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے؛ ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سینئر سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس لڑائی کے بعد پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس جنگ سے پاکستان کو اسٹریٹجک ایڈوانٹیج ملا ہے، اُس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں۔
بھارت جو ہم سے 7 گنا بڑا ملک ہے اور وہ دنیا کو بتاتا تھا کہ روایتی جنگ میں پاکستان اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کیسے پاکستان نے کامیابی کے ساتھ اپنا دفاع کیا ہے۔ جس سے پاکستان کی ساکھ بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کی شکست کے بعد کا منظرنامہ
دوسرا فائدہ پاکستان کو یہ ملا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سرد خانے سے نکل کر ایک بار پھر دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔ اور پھر اس مسئلے کو لے کر امریکا جس طرح حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ان کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں بھی امریکی حکومت نے پاک بھارت تنازعے کے بعد دونوں ملکوں کو پیش کش کی تھی کہ وہ دونوں کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کر سکتا ہے۔ لیکن اُس وقت امریکی کوششیں اس قدر زیادہ نہیں تھیں جتنی اس وقت ہیں تو بنیادی طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ایمبیسیڈر مسعود خالد نے کہا کہ پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح سے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھتا ہے اور بین الاقوامی فورمز پہ اسے اجاگر کرتا ہے، یورپی ممالک میں اس مسئلے کو اُجاگر کرتا ہے۔ گو کہ بھارت ان تمام بین الاقوامی کوششوں کی مخالفت کرے گا کیونکہ اُس کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان یہاں دہشتگردی کرواتا ہے۔ وہ پاکستان کو دہشتگرد ریاست ڈکلیئر کروانا چاہتا ہے۔ لیکن اب جب صدر ٹرمپ نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر بات چیت کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ کاوشیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے عالمی میڈیا کی نظر میں پاک-بھارت سیزفائر، امن یا خاموش طوفان؟
پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدہ دونوں ایک جیسے مسئلے ہیں لیکن سندھ طاس معاہدہ تو پاکستان کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کو اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پانی کے مسئلے پر جوہری جنگ بھی ہو سکتی ہے۔
بھارت یہ چاہے گا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے تک ہی محدود رہے: ایمبیسیڈر وحید احمدپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر وحید احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی جارحیت اور اس کے بعد پاکستانی آپریشن بنیان المرصوص میں پاکستان دفتر خارجہ نے دینا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو بھی انگیج رکھا۔
اس مسئلے کی شروعات میں امریکا کا روّیہ تھا کہ یہ 2 ملک تو آپس میں لڑتے رہتے ہیں، خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن اس مسئلے میں سب سے اہم چیز جو ہوئی ہے وہ یہ کہ اس سے قبل دنیا ہم پر یقین نہیں کرتی تھی کہ ہم روایتی جنگ میں بھارت کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں۔
کارگل اور 2019 بالاکوٹ حملے کے وقت دنیا پاکستان کا ردعمل دیکھ چکی تھی اور دنیا کا خیال نہیں تھا کہ پاکستان اتنی قوّت کے ساتھ اور اتنی دیر تک بھارت کو کڑا جواب دے سکتا ہے۔ لیکن پاکستان نے اس لڑائی میں جدید ترین ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرکے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ خاص طور پر 2 مئی 2012 ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان نے اپنے ریڈار کے نظام کو حیران کن حد تک مضبوط بنایا ہے جس سے مغربی دنیا حیران ہو گئی اور دوسرا اس لڑائی میں جو چینی ہتھیاروں کی آزمائش ہوئی ہے تو اس کے بعد پھر امریکا کو مداخلت کرنا پڑی۔
یہ بھی پڑھیے آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی، افواج پاکستان نے جو کہا کر دکھایا
اب امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کی ہے تو اس پر بھارت تلملائے گا کیونکہ وہ کشمیر کو مسئلہ مانتا ہی نہیں۔ لیکن اب بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے صدر کی عزت بھی تو رکھنی ہے۔ لیکن بھارت ان مذاکرات سے نکلنے کی مسلسل کوشش کرے گا۔
ایمبیسیڈر وحید احمد نے کہا کہ اب جو سیز فائر ہوا ہے یہ مستقل نظر آتا ہے کیونکہ اِس کی درخواست بھارت نے کی ہے۔ جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے تو بھارت یہ چاہے گا کہ پاکستان صرف اُس معاہدے کے بارے ہی میں بات کرے اور اُس سے آگے مسئلہ کشمیر تک بات نہ بڑھ سکے۔ لیکن پاکستان کو اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کو فعال رکھنا ہے۔
پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے: علی سرور نقویسابق سفارتکار اور سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ پہلگام واقعے، بھارتی حملے اور آپریشن بنیان المرصوص کے بعد پاکستان کو بہت فائدہ ملا ہے۔ اور بھارت کا ایک بھی مقصد حل نہیں ہو سکا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ دنیا اس بات کو تسلیم کرے کہ پاکستان کی سرزمین سے اُس کے ہاں دہشتگردی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات دنیا میں کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کی۔ پوری دنیا میں بھارت کا بیانیہ کسی ملک نے نہیں خریدا۔
دوسرا پہلگام واقعے سے کشمیر کا اندرونی خلفشار سامنے آ گیا۔ امریکا کی جانب سے ثالثی کی کوشش کامیاب ہوتی ہے کہ ناکام اس کا انحصار بھارت کے روّیے پر ہے کیونکہ وہ ہٹ دھرمی سے کہتا ہے کہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ ثالثی کی تمام کوششوں کو رد کرتا چلا آیا ہے۔
اس مسئلے میں پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اے اور آرٹیکل 25 اے بحال ہو تاکہ اُس علاقے کی کم از کم متنازعہ حیثیت تو بحال ہو اور پھر اُس پہ گفتگو ہونی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت جنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت جنگ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان پاکستان کے لیے عالمی سطح پر ا پہلگام واقعے بین الاقوامی میں پاکستان مسئلہ کشمیر اور پاکستان کہ پاکستان پاکستان کو پاکستان کی پاکستان نے سے پاکستان میں بھارت پاک بھارت پاکستان ا کے طور پر س معاہدے کشمیر کا اس مسئلے مسئلے کے اس لڑائی دنیا میں ہے کہ وہ یہ ہے کہ کرنے کی کی کوشش میں پاک کوشش کر ہے اور ہوا ہے کہا کہ لیکن ا تھا کہ سے پاک
پڑھیں:
ٹیسٹنگ گراؤنڈ
چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی کہتا تھا‘ وہ دشمن کی طاقت چیک کرنے کے لیے جنگ کے شروع میں چھوٹا لشکر بھجواتا تھاجب کہ دشمن مقابلے میں اپنا مکمل لشکر لے کر آ جاتا تھا‘ لڑائی ہوتی تھی اور اس دوران چنگیز خان کے فوجی حکمت کار بلندی پر بیٹھ کر دشمن کی ٹیکنالوجی‘ فوج کی فارمیشن اور جوانوں کی خوبیوں اور خامیوں کا نقشہ بناتے رہتے تھے‘ وہ یہ نقشہ بعدازاں چنگیز خان کو بھجوا دیتے تھے اور وہ اس نقشے کے مطابق اپنی فوج کی فارمیشن تبدیل کرتا تھا اور دشمن پر پوری طاقت کے ساتھ حملہ کر دیتا تھا‘ اس حکمت عملی نے چنگیز خان کو دنیا کا عظیم فاتح بنا دیا اور اس نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
یہ آرٹ بعدازاں دنیا نے سیکھ لیا اور پھر کرہ ارض کے تمام کونوں میں یہ تکنیک استعمال ہوتی چلی گئی‘ آپ دنیا کی کسی بڑی جنگ کا مطالعہ کر لیں آپ کو اس کے دو حصے ملیں گے‘ پہلے حصے میں بڑا ملک چھوٹے ملک پر چھوٹا سا حملہ کرے گا اور اس حملے میں وہ اس کی جنگی اور فوجی اہلیت کا اندازہ کرے گا اور پھر اس پربھرپور اور مکمل حملہ کرے گا‘ میں آپ کو یہاں انڈیا اور پاکستان کی مثال دے سکتا ہوں۔
بھارت نے 2019 میں پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی‘ 26 فروری کی رات بھارت کے 12طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور بالاکوٹ کے جنگل میں میزائل داغ کر واپس چلے گئے‘ یہ بھارت کی طرف سے سلامی تھی‘ پاکستان نے اگلے دن 27 فروری 2019 کو اس کا کمال جواب دیا‘ بھارت کے دو طیارے گر گئے‘ اس کا پائلٹ ابھی نندن بھی گرفتار ہو گیا‘ وہ پاکستان کے لیے ٹیسٹر تھا‘ بھارت کو اس سلامی میں اپنی ائیرفورس کی کم زوریوں اور پاک فضائیہ کی قوت کا اندازہ ہو گیا‘ نریندر مودی نے فوری طور پر فرانس سے رافیل طیارے خریدلیے‘ پاکستان کو بھی اپنی خامیوں کا اندازہ ہو گیا۔
ہم بھی یہ جان گئے دنیا میں اب ’’وار تھیٹر‘‘ تبدیل ہو چکا ہے‘ جنگ اب گراؤنڈ پر نہیں ہو گی فضا میں ہو گی اور جو فضا میں تگڑا ہو گا وہ جیت جائے گا اور جو وہاں کم زوری دکھائے گا اس کی ہار یقینی ہو گی چناں چہ ہم نے بھی پیٹ کاٹ کر چین کی منت ترلہ کر کے اس سے جے ٹین طیارے اور پی 15 میزائل لیے اور بھارت سے ایک قدم آگے ہو گئے‘ میں یہاں ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی خدمات کا اعتراف کروں گا‘ یہ شخص حقیقتاً پاکستان کا محسن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے وقت کا ادراک دے رکھا ہے‘ اس شخص نے پوری ائیرفورس کا پیٹ کاٹ کر اس کے کھانے‘ چائے اور پٹرول بند کر کے ایک ایسا ائیر ڈیفنس سسٹم بنایا جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔
آپ 2019 میں جا کر دیکھیں پاکستان میں ائیرفورس کو کوئی جانتا تک نہیں تھا‘پاک فضائیہ نے 27 فروری کو بھارت کے دو طیارے گرائے اور پورے ملک میں زندہ باد ہو گئی‘ پاک فضائیہ دوسری بار مئی 2025 میں ٹیسٹ ہوئی اور پوری دنیا میں ہیرو بن گئی‘ ہیروشپ کا یہ سہرا سیدھا ائیر مارشل ظہیر احمد بابر کے سر جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز اسی شخص کو بخشنا تھا‘ یہ قدرت کا فیصلہ تھا‘ یہ 19 مارچ 2021 کوائیر چیف بنے‘ اس وقت ان کے چیف بننے کے امکانات بہت کم تھے‘ عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل جاوید کے بھائی ائیر فورس میں تھے‘ وہ وزیراعظم کا اے ڈی سی تھا‘ فیصل جاوید اور ان کا بھائی ائیروائس مارشل محمد حسیب پراچہ کو ائیر چیف بنوانا چاہتے تھے۔
حسیب پراچہ کا تعلق پشاور سے تھا اور یہ فیصل جاوید کو پرانا جانتے تھے‘ ان لوگوں نے عمران خان کو قائل کر لیا تھا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ظہیر احمد بابر کی صلاحیتوں سے واقف تھے‘ یہ ان کی فائل خود لے کر وزیراعظم کے پاس گئے اور انھیں بڑی مشکل سے قائل کیا یوں یہ ائیرچیف بنے‘ اس زمانے میں اس تقرری پر پی ٹی آئی کے لوگوں نے بہت تنقید کی تھی لیکن اللہ کو پاکستان کی عزت عزیز تھی‘ یہ شخص آیا اور اس نے ائیرفورس کے جسم میں نیا خون دوڑا دیا‘ ائیر مارشل ظہیر احمد کی زندگی میں دوسرا واقعہ مارچ 2024 میں ایک سال کی ایکسٹینشن تھی۔
اس پر بھی بہت شور ہوا تھا لیکن بعدازاں یہ بھی قدرت کا فیصلہ ثابت ہوئی‘ آپ تصور کریں اگر 2024 میں ائیرمارشل ظہیر کی ایکسٹینشن نہ ہوتی تو ہم آج کہاں کھڑے ہوتے؟ دوسرا عرب ملکوں کی زیادہ تر ائیرفورسز پاکستان نے ڈویلپ کیں لیکن آخر میں حالت یہ ہوگئی تھی عرب ملک پاکستان کے ساتھ جوائنٹ ایکسرسائز تک نہیں کرتے تھے‘ یہ ہمیں ’’پرانے لوگ‘‘ کہتے تھے لیکن آج پوری دنیا پاک فضائیہ کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے لائین میں کھڑی ہے‘ یہ صرف اور صرف اللہ کا خاص کرم اور ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابرکے اخلاص کا نتیجہ ہے۔
میں واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں‘ بھارت نے ہمیں 2019میں بھی سلامی دی تھی اور 2025 کے حملوں کا مقصد بھی پاکستان کی صلاحیت اور قوت کا اندازہ کرنا تھا لہٰذا جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی یہ بلکہ ابھی شروع ہی نہیں ہوئی‘ آپ دیکھیے گا بھارت آنے والے دنوں میں کہاں کہاں سے کیا کیااسلحہ خریدے گا‘ آپ یہ بھی دیکھیے گا امریکااسے کس کس طرح نوازتا ہے‘ آپ اب اس نظریے سے دنیا کے پچھلے پانچ سالوں کا تجزیہ کیجیے‘تین جنوری 2020 کو ایران کے پاس داران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا۔
فروری 2022 میں یوکرائن اور روس کی جنگ ہوئی‘ اکتوبر 2023 میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا‘2024 میں لبنان اور شام میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کیا گیا‘ 31 جولائی 2024 کو حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کو تہران میں شہید کر دیا گیااور2024 میں شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کر کے یہ ملک اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا‘ کیوں؟ یہ سب سلامیاں تھیں اور ان کا مقصد دشمن کی طاقت کا اندازہ کرنا تھا‘ آپ اب اس ریفرنس کے ساتھ مئی میں پاک بھارت اور جون میں اسرائیل ایران جنگ کو دیکھیں‘ یہ دونوں بھی صرف ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھے اور ان کا مقصد صرف چین‘ ایران اور پاکستان کی جنگی صلاحیتوں کا اندازہ کرنا تھا‘ اس کے پیچھے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغ تھا‘ امریکا کی ہلہ شیری پر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں امریکا کو چینی طیاروں اور میزائلوں کی رینج کا علم بھی ہو گیا اور پاکستان کی جنگی صلاحیت کا بھی اور ہمارے پاس موجود سسٹمز بھی اوپن ہو گئے۔
اسرائیل پر ایران کا حملہ بھی خالصتاً ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ تھا‘ آپ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ٹویٹس اور بیانات پڑھنا شروع کریں اور پڑھتے پڑھتے دو ماہ پیچھے چلے جائیں‘ آپ کو جنگ کا مقصد اور منصوبہ ساز دونوں کا علم ہو جائے گا‘ اس جنگ کا مقصد ایران کی صلاحیت کا اندازہ کرنا تھا لہٰذا اسرائیل اور امریکا کو12 دنوں میںمعلوم ہو گیا ایران کے پاس میزائلوں کے سوا کچھ نہیں‘ دوسرا یہ ابھی ایٹم بم سے بہت دور ہے۔
تیسرا روس اور چین ایران کے لیے اسرائیل اور امریکا سے نہیں لڑیں گے‘ چوتھا اسلامی دنیا زخمی بطخ ہے‘ یہ ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کر سکتے‘ پانچواں اقوام متحدہ عملاً ختم ہو چکی ہے‘ یہ اسرائیل کا ہاتھ روک سکتی ہے اور نہ امریکا کا اور چھٹا اسرائیل بھی جان گیا میں امریکا کے بغیر کچھ نہیں ہوں اگر امریکا میرا ساتھ نہیں دیتا تو مجھے ایران کھا جائے گا‘ آپ اس ریفرنس کو تھوڑاسا مزید بڑھا لیں تو آپ یوکرائن اور ساؤتھ افریقہ کے صدر کی بے عزتی کی وجہ بھی جان لیں گے اور آپ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار بھی سمجھ آ جائے گی‘آپ جان جائیں گے اس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا چوہدری صرف میں ہوں اور دنیا کو صرف میرا آرڈر ماننا ہوگا۔
آپ یقین کریں یہ جنگیں صرف ٹیسٹ تھیں اور ایران‘ پاکستان‘ غزہ‘ شام اور یوکرائن اس کی ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھیں‘ امریکا اور اسرائیل نے ان میں صرف عالم اسلام کی صلاحیت اور برداشت کا اندازہ کیا‘یہ سلامیاں تھیں جب کہ جنگ ابھی باقی ہے‘ بھارت کو تیاری کے لیے ڈیڑھ سال چاہیے‘ یہ 2027میں پاکستان پر بڑا اور مکمل حملہ کرے گا اور اس وقت اسے اسرائیل اور امریکا کی مدد بھی حاصل ہو گی‘ پیسہ اور لوگ بھارت کے استعمال ہوں گے‘ ٹیکنالوجی اسرائیل کی ہو گی اور فضائی‘ بری اور بحری نگرانی امریکا کرے گا‘ ایران کی باری بھی ہمارے ساتھ ہی آ ئے گی تاہم یہ فیصلہ باقی ہے ایران پہلے قربان ہو گا یا پاکستان‘ چین اور روس کی اقتصادی نس بندی میں بھی چند ماہ میں اضافہ ہو جائے گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدت صدارت میں چین میں موجود ساری انڈسٹری واپس امریکا لے آئے گا تاکہ امریکا ہر قسم کی پیداواری اور صنعتی مجبوریوں سے آزاد ہو جائے‘ آپ کو آنے والے دنوں میں عرب ملکوں میں بھی انسانی حقوق اور جمہوری تحریکیں چلتی نظر آئیں گی۔
ان کا مقصد عرب ملکوں میں جمہوریت کی پرورش نہیں ہو گا‘ اس کا مقصد شاہی خاندانوں سے مزید رقم اینٹھنا ہو گا‘ جمہویت کی آواز اٹھتی رہے گی اور شاہی خاندان اپنے خزانے لٹاتے رہیں گے اور یہ کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک شاہی خزانوں میں خزانہ باقی رہے گا جس دن یہ خالی ہو جائے گا اس دن شاہی بھی ختم ہو جائے گی اور آپ اپنی کھلی آنکھوں سے عربوں سے حجاب غائب ہوتے دیکھیں گے۔
اللہ کرم کرے دنیا ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے‘ یہ اب زیادہ دور نہیں رہی‘ ہم تاریخ کی خوش نصیب ترین نسل تھے‘ ہم بڑی جنگوںاور خوف ناک وباؤں سے بچے رہے‘ ہمارا کورونا بھی کچھ نہ بگاڑ سکا تھا لیکن اب ہم اس کرہ ارض کی آخری نسل بھی بنتے جا رہے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں‘ زندگی جتنی بچی ہے اسے اچھے طریقے سے گزار لیں اور ذہنی طور پر بڑی اور خوف ناک جنگ کی تیاری کر لیں‘ یہ جنگیں اس بڑی جنگ کی صرف ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھیں‘ جنگ ابھی باقی ہے اور یہ بس آئی ہی چاہتی ہے۔