جنگ کے بعد بین الاقوامی طور پر کیا کچھ بدلا اور پاکستان کس طرح صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
7 مئی کو شروع ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے بعد بین الاقوامی طور پر بہت کچھ بدل گیا ہے اور کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر تبدیلیاں پاکستان کے حق میں ہیں۔ جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان نے روایتی جنگ میں بھارت کو زمینی اور فضائی کارروائی میں ناکوں چنے چبوا دیے۔ اس پر دنیا بھر کے ممالک حیران ہیں۔ اور پاکستان اس وقت عالمی سطح پر ایک اہم ملک کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔
دوسرا بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا اور بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزام لگانا، اس ساری صورتحال نے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو برے طریقے سے مجروح کیا ہے۔
پاکستان کی دفاعی صلاحیت کا عالمی سطح پر اعترافاس مختصر جنگ کے بعد جس طرح سے پاک فضائیہ نے دشمن کے 06 جنگی جہاز گرائے اُن کے میزائلوں کو ناکام بنانے کے لیے جی پی ایس ٹیکنالوجی کا زبردست استعمال کیا اس سے دنیا بھر میں بالخصوص مسلم ممالک میں پاکستان کو زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اس لڑائی سے قبل پاکستان کو قدرے ایک ناکام اور غیر مستحکم ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن اس جنگ نے نہ صرف اندرون ملک سیاسی استحکام میں مدد دی بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے ایک مضبوط ملک ہونے کا اعتراف کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی سے پاکستانی معیشت کے لیے نئے دروازے کھل گئے، مگر کیسے؟
امریکی دفاعی میگزین دی نیشنل انٹرسٹ نے لکھا کہ 7 مئی کو شروع ہونے والی جھڑپیں پاکستان کی واضح جیت کی صورت میں سامنے آئیں حالانکہ دفاعی ماہرین کا خیال تھا کہ بھارت کی عددی اکثریت کی وجہ سے اس کا پلڑا بھاری رہے گا۔
بھارت کی سفارتی تنہائیاس تنازعے کی شروعات سے بھارت کو وہ بین الاقوامی حمایت میسر نہیں آئی جس کی وہ توقع کر رہا تھا۔ حتٰی کہ امریکا جیسے تزویراتی حلیف نے بھی بھارت کی حمایت سے انکار کیا اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو پہلگام واقعے کا ذمے دار قرار دینے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
علاقائی طاقت کے توازن میں تبدیلیاس مختصر لڑائی کے دوران پاکستان کو چین اور ترکیے کی تکنیکی مدد حاصل رہی۔ اس سے پاکستان ایک اہم جغرافیائی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا اور نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی تناظر میں پاکستان ایک معتبر ملک کے طور پر سامنے آیا۔
بھارت کی سبکیاس تنازعے میں بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کے فوراً بعد پاکستان کو ملوث ظاہر کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں۔ بین الاقوامی برادری نے کسی طور پر بھی بھارت کے مؤقف کی حمایت کی بجائے دونوں ملکوں کو جنگ سے بچنے کی تلقین کی۔
مسئلہ کشمیر کا عالمی سطح پر اُجاگر ہوناپاک بھارت لڑائی کے بعد سب سے اہم پیش رفت مسئلہ کشمیر کا ایک بار پھر سے عالمی سطح پر اُجاگر ہونا ہے۔ امریکا کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دینے کا مطلب ہے کہ وہ اِس کو ایک بڑے اور حل طلب مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اور اسی مسئلے کے نیچے بھارت کی جانب سے پیدا کردہ ایک مسئلہ معاہدہ سندھ طاس ہے۔
پاکستان کے لیے مفید صورتحال، سب سے زیادہ سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے؛ ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سینئر سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس لڑائی کے بعد پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس جنگ سے پاکستان کو اسٹریٹجک ایڈوانٹیج ملا ہے، اُس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں۔
بھارت جو ہم سے 7 گنا بڑا ملک ہے اور وہ دنیا کو بتاتا تھا کہ روایتی جنگ میں پاکستان اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کیسے پاکستان نے کامیابی کے ساتھ اپنا دفاع کیا ہے۔ جس سے پاکستان کی ساکھ بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کی شکست کے بعد کا منظرنامہ
دوسرا فائدہ پاکستان کو یہ ملا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سرد خانے سے نکل کر ایک بار پھر دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔ اور پھر اس مسئلے کو لے کر امریکا جس طرح حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ان کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں بھی امریکی حکومت نے پاک بھارت تنازعے کے بعد دونوں ملکوں کو پیش کش کی تھی کہ وہ دونوں کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کر سکتا ہے۔ لیکن اُس وقت امریکی کوششیں اس قدر زیادہ نہیں تھیں جتنی اس وقت ہیں تو بنیادی طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ایمبیسیڈر مسعود خالد نے کہا کہ پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح سے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھتا ہے اور بین الاقوامی فورمز پہ اسے اجاگر کرتا ہے، یورپی ممالک میں اس مسئلے کو اُجاگر کرتا ہے۔ گو کہ بھارت ان تمام بین الاقوامی کوششوں کی مخالفت کرے گا کیونکہ اُس کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان یہاں دہشتگردی کرواتا ہے۔ وہ پاکستان کو دہشتگرد ریاست ڈکلیئر کروانا چاہتا ہے۔ لیکن اب جب صدر ٹرمپ نے کہہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر بات چیت کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ کاوشیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے عالمی میڈیا کی نظر میں پاک-بھارت سیزفائر، امن یا خاموش طوفان؟
پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدہ دونوں ایک جیسے مسئلے ہیں لیکن سندھ طاس معاہدہ تو پاکستان کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کو اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پانی کے مسئلے پر جوہری جنگ بھی ہو سکتی ہے۔
بھارت یہ چاہے گا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے تک ہی محدود رہے: ایمبیسیڈر وحید احمدپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر وحید احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی جارحیت اور اس کے بعد پاکستانی آپریشن بنیان المرصوص میں پاکستان دفتر خارجہ نے دینا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو بھی انگیج رکھا۔
اس مسئلے کی شروعات میں امریکا کا روّیہ تھا کہ یہ 2 ملک تو آپس میں لڑتے رہتے ہیں، خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن اس مسئلے میں سب سے اہم چیز جو ہوئی ہے وہ یہ کہ اس سے قبل دنیا ہم پر یقین نہیں کرتی تھی کہ ہم روایتی جنگ میں بھارت کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں۔
کارگل اور 2019 بالاکوٹ حملے کے وقت دنیا پاکستان کا ردعمل دیکھ چکی تھی اور دنیا کا خیال نہیں تھا کہ پاکستان اتنی قوّت کے ساتھ اور اتنی دیر تک بھارت کو کڑا جواب دے سکتا ہے۔ لیکن پاکستان نے اس لڑائی میں جدید ترین ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرکے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ خاص طور پر 2 مئی 2012 ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان نے اپنے ریڈار کے نظام کو حیران کن حد تک مضبوط بنایا ہے جس سے مغربی دنیا حیران ہو گئی اور دوسرا اس لڑائی میں جو چینی ہتھیاروں کی آزمائش ہوئی ہے تو اس کے بعد پھر امریکا کو مداخلت کرنا پڑی۔
یہ بھی پڑھیے آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی، افواج پاکستان نے جو کہا کر دکھایا
اب امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کی ہے تو اس پر بھارت تلملائے گا کیونکہ وہ کشمیر کو مسئلہ مانتا ہی نہیں۔ لیکن اب بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے صدر کی عزت بھی تو رکھنی ہے۔ لیکن بھارت ان مذاکرات سے نکلنے کی مسلسل کوشش کرے گا۔
ایمبیسیڈر وحید احمد نے کہا کہ اب جو سیز فائر ہوا ہے یہ مستقل نظر آتا ہے کیونکہ اِس کی درخواست بھارت نے کی ہے۔ جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے تو بھارت یہ چاہے گا کہ پاکستان صرف اُس معاہدے کے بارے ہی میں بات کرے اور اُس سے آگے مسئلہ کشمیر تک بات نہ بڑھ سکے۔ لیکن پاکستان کو اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کو فعال رکھنا ہے۔
پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے: علی سرور نقویسابق سفارتکار اور سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ پہلگام واقعے، بھارتی حملے اور آپریشن بنیان المرصوص کے بعد پاکستان کو بہت فائدہ ملا ہے۔ اور بھارت کا ایک بھی مقصد حل نہیں ہو سکا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ دنیا اس بات کو تسلیم کرے کہ پاکستان کی سرزمین سے اُس کے ہاں دہشتگردی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات دنیا میں کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کی۔ پوری دنیا میں بھارت کا بیانیہ کسی ملک نے نہیں خریدا۔
دوسرا پہلگام واقعے سے کشمیر کا اندرونی خلفشار سامنے آ گیا۔ امریکا کی جانب سے ثالثی کی کوشش کامیاب ہوتی ہے کہ ناکام اس کا انحصار بھارت کے روّیے پر ہے کیونکہ وہ ہٹ دھرمی سے کہتا ہے کہ کشمیر اُس کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ ثالثی کی تمام کوششوں کو رد کرتا چلا آیا ہے۔
اس مسئلے میں پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اے اور آرٹیکل 25 اے بحال ہو تاکہ اُس علاقے کی کم از کم متنازعہ حیثیت تو بحال ہو اور پھر اُس پہ گفتگو ہونی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت جنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت جنگ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان پاکستان کے لیے عالمی سطح پر ا پہلگام واقعے بین الاقوامی میں پاکستان مسئلہ کشمیر اور پاکستان کہ پاکستان پاکستان کو پاکستان کی پاکستان نے سے پاکستان میں بھارت پاک بھارت پاکستان ا کے طور پر س معاہدے کشمیر کا اس مسئلے مسئلے کے اس لڑائی دنیا میں ہے کہ وہ یہ ہے کہ کرنے کی کی کوشش میں پاک کوشش کر ہے اور ہوا ہے کہا کہ لیکن ا تھا کہ سے پاک
پڑھیں:
ٹرمپ کی کھلی اور تباہ کن یکہ تازیاں
اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گذشتہ موقف دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ "اقوام متحدہ نے عمل سے زیادہ باتیں کی ہیں" اور نیو ورلڈ آرڈر میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو "بڑا دھوکہ" قرار دیا اور پناہ گزینوں کو دنیا کے ممالک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے یہ باتیں ایسے وقت کی ہیں جب فلسطین پر اسرائیل کی بہیمانہ جارحیت سے لے کر یوکرین جنگ اور مشرق وسطی میں جاری دیگر تنازعات تک بہت سے عالمی بحران بین الاقوامی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور ان کی ثالثی کے محتاج ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش دنیا کو عدم استحکام اور انتشار کے نہ ختم ہونے والے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی تقریر پر مختلف قسم کے ردعمل بھی سامنے آئے ہیں۔ تحریر: احسان شیخون
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر نے بہت کھل کر اور واضح ترین ممکنہ شکل میں یکہ تازیوں پر مبنی انداز کو عیاں کیا ہے جبکہ ٹرمپ کی "فرسٹ امریکہ" کی پالیسی بھی انتہاپسندانہ ترین شکل میں منظرعام پر آئی ہے۔ یہ انداز نہ صرف عالمی سطح پر دنیا کو درپیش مختلف بحرانوں کے حل میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتا بلکہ بین الاقوامی تعاون اور اعتماد پر ایک کاری ضرب بھی ہے۔ ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایسا انداز اپنایا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس نے اقوام متحدہ کو "بے ارزش اور ناکارہ" قرار دیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا: "جو ملک بھی سلامتی کا خواہاں ہے اسے امریکہ کی چھتری کے نیچے آ جانا چاہیے۔" اس نے حتی تمسخر آمیز انداز میں عمارت میں چند ٹیکنیکل مسائل کی طرف اشارہ کیا اور اسے اقوام متحدہ کی نالائقی کا ثبوت قرار دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گذشتہ موقف دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ "اقوام متحدہ نے عمل سے زیادہ باتیں کی ہیں" اور نیو ورلڈ آرڈر میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو "بڑا دھوکہ" قرار دیا اور پناہ گزینوں کو دنیا کے ممالک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے یہ باتیں ایسے وقت کی ہیں جب فلسطین پر اسرائیل کی بہیمانہ جارحیت سے لے کر یوکرین جنگ اور مشرق وسطی میں جاری دیگر تنازعات تک بہت سے عالمی بحران بین الاقوامی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور ان کی ثالثی کے محتاج ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش دنیا کو عدم استحکام اور انتشار کے نہ ختم ہونے والے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی تقریر پر مختلف قسم کے ردعمل بھی سامنے آئے ہیں۔
امریکہ کے کچھ اتحادی ممالک نے خاموشی اختیار کی لیکن یورپی ممالک جیسے بعض ممالک کے نمائندوں نے ٹرمپ سے اپنی مخالفت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے کہا: "اقوام متحدہ تمام تر نقائص کے باوجود اب بھی عالمی گفت و شنود کا اصلی پلیٹ فارم ہے۔ اس ادارے کا متبادل فراہم کرنے کا نتیجہ انارکی اور شدید قسم کے انتشار کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔" ٹرمپ نے بین الاقوامی اداروں کو کم اہمیت ظاہر کر کے بین الاقوامی تعلقات عامہ جیسی پیچیدہ حقیقت کا انکار کیا ہے۔ امریکہ اگرچہ طاقتور معیشت کا مالک ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر موجود بحرانوں کا حل صرف ایک ملک پر بھروسہ کرنے سے ممکن نہیں ہے۔ "امریکہ کی چھتری تلے جمع ہو جاو" کی پالیسی اگر عملی جامہ بھی پہن لے تب بھی پائیدار امن برقرار نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ ایسی صورت میں بھی دنیا کے ممالک کے سامنے دو مشکل انتخاب قرار پائیں گے: واشنگٹن کی بے چون و چرا اطاعت یا حریف بلاک جیسے چین اور روس پر مشتمل بلاک کو مضبوط بنانا۔ دونوں صورت میں مشکلات مزید بڑھیں گی اور کم نہیں ہوں گی۔ ٹرمپ ایک طرف اقوام متحدہ کی عدم افادیت کی بات کرتا ہے جبکہ یہی ادارہ اس کی موجودگی اور تقریر کے لیے عالمی پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے۔ وہ اسی تنظیم کی عمارت میں آ کر اسے "بے اہمیت" کہہ رہا ہے جو اب تک دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کو رائج کرتی آئی ہے۔ یہ واضح تضاد ظاہر کرتا ہے کہ اصل مقصد تعمیری تنقید نہیں بلکہ ایسے ادارے کا اعتبار اور حیثیت ختم کرنا ہے جو اکثر اوقات امریکہ کی یکہ تازیوں کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ اگر ٹرمپ کی تقریر واقعی امریکی حکومت کی مین پالیسی بن جائے تو اس کے نتیجے میں بین الاقوامی ادارے کمزور ہو جائیں گے۔
ایسی صورت میں اقوام متحدہ کا بجٹ اور اثرورسوخ کم ہو جائے گا اور یوں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی: ایک حصہ امریکہ کی قیادت میں اتحاد اور دوسرا حصہ مخالف اتحاد تشکیل دے گا۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے ممالک پر ان دو بلاکس میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے دباو بڑھے گا اور عالمی بحرانوں کے حل کے لیے گفتگو اور مذاکرات مشکل ہوتے جائیں گے۔ ایسی صورتحال حتی خود امریکہ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو گی کیونکہ کوئی بھی ملک اکیلے میں عالمی سطح پر موجود پیچیدہ مسائل جیسے ماحولیاتی تبدیلیاں، مہاجرت یا علاقائی جنگیں وغیرہ حل کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ ٹرمپ نے "فرسٹ امریکہ" کا پرانا نعرہ دوبارہ لگا کر درحقیقت دنیا اور اپنے اتحادیوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ: امریکہ کے قومی مفادات ہر قسم کی بین الاقوامی ذمہ داری پر فوقیت رکھتے ہیں۔
لیکن آج کی باہمی مربوط دنیا میں ایسا انداز نہ صرف محض اوہام پرستی ہے بلکہ عملی طور پر خود امریکہ کی گوشہ نشینی کا باعث بنے گا۔ امریکہ اگر اپنی طاقت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو وہ تعاون کے دروازے بند کر کے دوسروں سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کے پرچم تلے جمع ہو جائیں گے۔ امریکہ میں کچھ حلقوں کے تصور کے برعکس اگر اقوام متحدہ کی پوزیشن کمزور ہوتی ہے یا وہ ختم ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ امریکہ کے حق میں ہونے کی بجائے اس کے نقصان میں ظاہر ہو گا کیونکہ اس عالمی ادارے نے گذشتہ دہائیوں کے دوران ہمیشہ امریکی اقدامات کو قانونی جواز فراہم کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسے حالات میں امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی اخراجات بھی بڑھ جائیں گے اور چین اور روس جیسے حریف ممالک کو بین الاقوامی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے بہترین مواقع میسر آ جائیں گے۔