پاکستان شوبز کے اداکار اور ٹی وی میزبان فہد مصطفیٰ نے حالیہ بھارتی اشتعال انگیزی کے خلاف پاکستان کے مؤثر دفاعی ردعمل کو سراہتے ہوئے پاک افواج کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

نجی ٹی وی چینل پر اپنے شو کے آغاز میں فہد مصطفیٰ نے افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج مزہ ہی آگیا دل خوش ہوگیا، انہوں نے بھارت کو پیغام دیا کہ یہ وہ ملک ہے جس میں ہندو مسلمان سکھ عیسائی سب ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان کی عزتیں ہمیشہ برقرار رہتی ہیں ایک دوسرے کو پیار اور عزت سے دیکھتے ہیں۔

انہوں نے بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں صرف ہندوتوا کا راج ہو بلکہ یہ وہ ملک ہے جہاں ہر بچہ سکون سے سانس لے سکتا ہے صرف اس لئے کیونکہ ہمارے دل ہمارے ذہن بہت کھلے ہوئے ہیں پاکستانی بہت بڑا دل رکھتے ہیں۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Niche Lifestyle (@nichelifestyle)

انہوں نے پاکستانی میڈیا کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا نے بہت طریقے سے رپورٹنگ کی ہے اور تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے رپورٹنگ کی ہے۔ بھارتی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری میڈیا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا وہی بتایا جو ہوا اور جو ہوا وہ بھارت کو محسوس ہوا۔

انہوں نے بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’دوبارہ نہیں کرنا بیٹا ورنہ اس بار نہ چھوڑیں گے فلم نہیں چل رہی ہے جب سچ میں ہوتا ہے تو ایسا ہوتا ہے تو اب انجوائے کرو اس کو‘۔

فہد مصطفیٰ نے مزید کہا کہا بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستانی قوم اور افواج متحد ہیں، اور کسی بھی جارحیت پر خاموش نہیں رہیں گے۔ ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے اور صارفین کی جانب سے انہیں خوب سراہا جا رہا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوئے کہا کہ فہد مصطفی انہوں نے بھارت کو وہ ملک

پڑھیں:

یہ دنیا بچوں کی امانت ہے

دنیا کے کیلنڈر پرکچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں صرف یاد نہیں دلاتے، جھنجھوڑتے ہیں۔ بیس نومبر بھی ایسا ہی دن ہے، بچوں کا دن۔ یہ دن خوشی کے نعروں، رنگ برنگے غباروں اور مسکراہٹوں کے ساتھ منایا جاتا ہے مگر ہم اپنے گرد دیکھیں، تو یہ مسکراہٹیں کتنی ناپید ہیں۔ یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے کہ ہم بچوں کے حقوق ان کی معصومیت اور ان کے مستقبل کی حفاظت کریں مگر کیا واقعی ہم ایسا کر رہے ہیں؟

۱۹۵۴ء میں اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ ہر سال نومبر کی 20 تاریخ کو عالمی یومِ اطفال منایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ دنیا کے بچے صرف کسی ملک یا طبقے کی ذمے داری نہ رہیں بلکہ پوری انسانیت کی امانت ہوں۔

اسی دن ۱۹۵۹ء میں بچوں کے حقوق کا اعلامیہ منظور ہوا اور ۱۹۸۹ء میں اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن اپنایا، وہ کنونشن جو آج تقریباً ہر ملک نے دستخط کیا ہے مگر جس کی روح اب تک بے سکونی میں تڑپ رہی ہے۔

یہ دنیا بچوں کی امانت ہے ہمارے پاس مگرکیا ہم نے اس امانت کا حق ادا کیا ہے؟ جب بھی یہ دن قریب آتا ہے، میرے ذہن میں ایک شور اٹھتا ہے۔ وہ بچوں کی ہنسی نہیں، ان کی چیخیں ہیں۔ مجھے غزہ کے بچے یاد آ جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں اب اسکول کے خواب نہیں دھماکوں کی چمک ہے۔ جن کے بستے ملبے تلے دب گئے اور جن کی انگلیاں قلم کے بجائے اینٹوں کے ٹکڑے تھامے ہوئے ہیں۔

مجھے سوڈان کے بچے یاد آ جاتے ہیں جو اپنے والدین سے بچھڑ گئے جو جنگ اور بھوک کے درمیان زندگی کی کشمکش میں ہیں۔ ان سب کے چہروں پر ایک سوال لکھا ہے کیا ہمارا بچپن اتنا سستا ہے کہ طاقتوروں کی لڑائیوں میں برباد کر دیا جائے؟

پھر میں اپنے وطن کی طرف دیکھتی ہوں، جہاں کروڑوں بچے اب بھی اسکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ یونیسیف کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً ۲۳ ملین بچے (یعنی پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریباً ۴۴ فیصد بچے) تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔

بلوچستان میں تقریبا 78 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ سندھ میں غربت زدہ خاندانوں کے بچوں میں سے نصف اسکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ گواہی ہیں کہ ہمارا نظام طبقاتی بنیادوں پر بچوں کو تقسیم کر چکا ہے۔

کچھ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں آئی پیڈ پر پڑھتے ہیں اورکچھ دھوپ میں اینٹیں ڈھوتے ہیں۔ پھر بھوک کا المیہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ۱۰ ملین بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔

تقریباً ۱۸ فیصد بچے شدید غذائی قلت (Severe Acute Malnutrition) میں مبتلا ہیں جو کسی بھی قوم کے لیے ایک المناک اشارہ ہے۔ کیا ہم سوچتے ہیں کہ ایک بھوکے بچے کے لیے دنیا کیسی ہوتی ہے؟ اس کے خواب کیسے اندھیری رات میں دفن ہو جاتے ہیں؟

یہ سب محض اتفاق نہیں یہ نظام کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا نظام جو طاقتوروں کو اور طاقتور امیروں کو اور امیر اور غریبوں کے بچوں کو ہمیشہ محتاج بنائے رکھتا ہے۔ بائیں بازو کا نکتہ نظر یہ کہتا ہے کہ بچوں کے حقوق محض رحم یا خیرات کا مسئلہ نہیں یہ سماجی انصاف کا سوال ہے۔

اگر ریاست تعلیم کو حق کے بجائے کاروبار بنائے اگر علاج سرمایہ دار کی ملکیت ہو اگر روزگار کی تقسیم میں ناانصافی ہو تو پھر بچہ چاہے کسی بھی ملک میں پیدا ہو وہ اسی غلامی کی زنجیر کا حصہ بن جائے گا۔

بچوں کا دن صرف ہیپی چلڈرنز ڈے کہہ کر گزر جانے کا موقع نہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی برابری کی لڑائی بچپن سے شروع ہوتی ہے، اگر ایک بچہ بھوکا ہے، غیرتعلیم یافتہ ہے یا ظلم کے نیچے کچلا جا رہا ہے تو ہم سب اس جرم میں شریک ہیں، چاہے ہم خاموش ہی کیوں نہ رہیں۔

اقوامِ متحدہ کے کنونشن میں لکھا ہے کہ ’’ ہر بچہ زندگی، تعلیم، تحفظ اور ترقی کا حق رکھتا ہے۔‘‘ لیکن آج دنیا کے کئی خطوں میں بچہ صرف زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غزہ ہو یا سوڈان یا کراچی کے کسی فٹ پاتھ پر بیٹھا وہ بچہ جو شیشے صاف کرتا ہے سب کی ایک ہی چیخ ہے ایک ہی سوال ہے، کیا ہم واقعی بچوں کا دن منانے کے قابل ہیں؟

 میں سوچتی ہوں شاید ہم اس دن کو جشن نہیں احتجاج بنا دیں۔ احتجاج اس نظام کے خلاف جو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتا ہے۔ احتجاج ان طاقتوں کے خلاف جو جنگوں کو استحکام کا نام دیتی ہیں اور احتجاج اپنے ضمیر کے خلاف جو خاموش رہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

یہ دنیا ہمارے پاس بچوں کی امانت ہے، مگر اگر ہم نے اس امانت کو خون بھوک اور خوف میں لپیٹ دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کیسے معاف کریں گی؟ یہ دن صرف بچوں کا دن نہیں انسانیت کے ضمیرکا دن ہے۔

ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ کل دیں۔ ہم ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ جہاں اس کے سر پہ چھت ہو۔ وہ تعلیم حاصل کرسکے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہا ہو جہاں جنگ نہ ہو اور جہاں وہ خواب دیکھ سکے۔

لیکن ابھی بھی امید باقی ہے۔ پاکستان کے کچھ گوشوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خاموشی کے بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں، وہ اساتذہ جو پہاڑی علاقوں میں بغیر تنخواہ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ لڑکیاں جو خود مشکلات کے باوجود دوسری بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مہم چلاتی ہیں وہ والدین جو اپنی بھوک برداشت کر کے بچوں کو کتاب خرید کر دیتے ہیں۔ 

یہی وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی بن سکتے ہیں، اگر ریاست ان چھوٹے چھوٹے خوابوں کا ساتھ دے تو شاید یہ ملک واقعی بچوں کے لیے ایک محفوظ گھر بن سکے۔

ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایک ایسی دنیا دیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ خوش بھی ہو۔ جہاں وہ خواب دیکھ سکے، محبت پا سکے اور جہاں کسی بچے کی آنکھ آنسوؤں سے نہیں بلکہ روشنی سے بھری ہو۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے تاریخی ہوگا، ٹرمپ کا اعلان
  • دوستوں کو انکار نہیں کر سکتے،طالبان سے دوبارہ مذاکرات ہوسکتے ہیں، خواجہ آصف
  • باہمی اتفاق و اتحاد کے ذریعہ ہی اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں، بیرسٹر سلطان
  • امید ہے بابر اعظم آنے والی سیریز میں رنز کریں گے: ہیڈ کوچ قومی ٹیم
  • بابراعظم آؤٹ آف فارم نہیں، امید ہے آنے والی سیریز میں رنز کریں گے: ہیڈ کوچ قومی ٹیم
  •    بھارت، افغانستان جعلی مواد کے ذریعے فوج، ریاستی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں مصروف: وزارت اطلاعات
  • پاکستانی اور ایرانی فلم میکر علامہ اقبال پر عالمی معیار کی فلم بنا سکتے ہیں: عظمیٰ بخاری 
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • اقبال کے مذہب پر علامہ عبدالعلی الہروی کی علمیت کا اثر
  • رمیش سنگھ اروڑا کا گوردوارہ پنجہ صاحب کا دورہ، بھارت کو رویہ بدلنے کا پیغام