بھارتی ماہر کا پاکستان کی ‘کرپٹو ڈپلومیسی’ کی کامیابی کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
نئی دہلی(نیوز ڈیسک)بھارتی ماہر نے انڈین ٹی وی شو میں پاکستان کی کرپٹو ڈپلومیسی کی کامیابی کا اعتراف کرلیا اور کہا پاکستان کی فارن ٹیک پالیسی جنگی جہازوں سے کہیں زیادہ کارآمد ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان عسکری میدان کے بعد ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بھارت پر حاوی ہے، بھارتی ماہرین پاکستان کی ٹیکنالوجی پر مبنی خارجہ پالیسی سے متاثر نظر آرہے ہیں۔
بھارتی ماہر ک نے انڈین ٹی وی شو میں پاکستان کی کرپٹو ڈپلومیسی کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کرپٹو کونسل کے قیام سے اہم سفارتی کامیابی سمیٹی۔
بھارتی ماہر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کرپٹو کونسل کو سفارت کاری کے اہم جزو کے طور پر استعمال کیا، پاکستان کی فارن ٹیک پالیسی جنگی جہازوں سے کہیں زیادہ کارآمد ہے۔
مزیدپڑھیں:تباہ ہونے والے بھارتی طیاروں کے پائلٹس کہاں؟ بڑی خبر آگئی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بھارتی ماہر پاکستان کی
پڑھیں:
نئی پالیسی کے تحت امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں کیا ہوں گی؟
حکومتِ پاکستان نے نئی پالیسی کے تحت کمرشل بنیادوں پر پانچ سال تک پرانی یا استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی ہے۔ ابتدائی طور پر صرف وہ گاڑیاں درآمد کی جا سکیں گی جو 30 جون 2026 تک 5 سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں۔ اس تاریخ کے بعد گاڑیوں کی عمر کی حد ختم کر دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:2024: وہ مشہور گاڑیاں جن کی جگہ الیکٹرک کاریں لیں گی؟
اس پالیسی کے مطابق گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر موجودہ کسٹمز ڈیوٹی کے ساتھ 40 فیصد اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے، جو ہر سال 10 فیصد پوائنٹس کم ہوگی اور مالی سال 2029-30 تک مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی۔
زرمبادلہ پر دباؤ بڑھے گا،ماہرین کے خدشاتآٹو انڈسٹری کے ماہر مشہود علی خان کے مطابق حکومت ایک ارب ڈالر کے لیے بھٹک رہی ہے اور اگر صرف ایک ہزار گاڑیاں 7 ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے درآمد کی جائیں تو سالانہ ایک ارب ڈالر ملک سے باہر چلا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ گاڑی کی مینٹیننس پر بھی بھاری اخراجات آتے ہیں۔ ان کے حساب سے اگر 25 فیصد مینٹیننس کے اخراجات لگائے جائیں تو یہ سالانہ مزید ایک ارب ڈالر کا بوجھ ڈال سکتے ہیں۔
صارفین کے لیے آپشنز اور قیمتوں کا فرقمشہود علی خان کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 15 کمپنیاں گاڑیاں فراہم کر رہی ہیں اور 45 مختلف ماڈلز دستیاب ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ امپورٹڈ گاڑیاں قابلِ خرید ہوں گی یا نہیں؟
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں 30 لاکھ سے 2 کروڑ روپے تک ہیں، جو صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے قابلِ رسائی ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے شہری تو آج بھی موٹر سائیکل پر انحصار کر رہے ہیں۔
ٹیکسوں اور پارٹس کی کمی کا مسئلہماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑی خریدنے پر تقریباً 45 فیصد ٹیکس حکومت کو دینا پڑتا ہے، جس سے قیمتیں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ساتھ ہی استعمال شدہ گاڑیوں کے پارٹس کی دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تین سال پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کے پرزے تک مارکیٹ میں باآسانی نہیں ملتے، جبکہ لوکل اسمبلرز کے پارٹس موجود ہوتے ہیں۔
مشہود علی خان نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم نے مقامی انڈسٹری کو فروغ دے کر قرض اتارنا ہے یا امپورٹ بڑھا کر مزید قرض لینا ہے۔ ان کے مطابق یہ پالیسی زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی اور ایک سال میں ہی ناکام ہو سکتی ہے۔
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی محمد شہزاد نے اس پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گاڑیاں مزید مہنگی ہو جائیں گی، آئی ایم ایف نے کہا تھا ٹیکس کم کریں مگر حکومت الٹا زیادہ ٹیکس اور شرائط لگا رہی ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس پالیسی کا اصل فائدہ لوکل اسمبلرز کو ہوگا اور غالب امکان ہے کہ استعمال شدہ گاڑیاں بھی وہی باہر سے منگوائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن امپورٹڈ گاڑیاں حاجی محمد شہزاد زرمبادلہ لوکل اسمبلرز مشہود علی خان