جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے قرارداد منظور
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے پنجاب اسمبلی میں قرارداد منظور کرلی گئی۔
منگل کے روز رکن پنجاب اسمبلی سارہ کی جانب سے جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے قرار داد پیش کی گئی۔
قرار کے متن میں صوبے بھر میں جبری مشقت کے خاتمے اور بچوں سے مشقت لینے کے سدباب کے لیے مؤثر قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا۔متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ ہر قسم کی جبری مشقت کا مکمل خاتمہ کیا جائے، یہ ایوان اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جبری مشقت اور چائلڈ لیبر نہ صرف آئینِ پاکستان بلکہ عالمی انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔
قرارداد کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ایوان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر قسم کی جبری مشقت کا مکمل خاتمہ کیا جائے، بچوں سے مشقت لینے کے سدباب کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے اور اس حوالے سے موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے
پڑھیں:
جنرل اسمبلی: سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی قرارداد ویٹو ہونے کا جائزہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر مائیکل والٹز نے جنرل اسمبلی کو بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کے لیے امن منصوبہ جنگ کے فوری خاتمے، تمام 48 یرغمالیوں کی رہائی، حماس کو غیرمسلح کرنے، غزہ کو غیرفوجی علاقہ قرار دیے جانے اور اس کی معاشی بحالی کی راہ ہموار کرے گا۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کیے جانے کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے قرارداد کو اس لیے ویٹو کیا کیونکہ اس میں نہ تو حماس کی مذمت کی گئی تھی اور نہ ہی اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کیا گیا۔
سلامتی کونسل کے ارکان نے اس وضاحت کو نظرانداز کر دیا جو امریکہ نے اس قرارداد کے ناقابل قبول ہونے کے حوالے سے انہیں دی تھی۔(جاری ہے)
امریکی سفیر نے کہا کہ اسرائیل نے جنگ کے خاتمے کے لیے 48 گھنٹے پہلے صدر ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرنے سمیت جنگ بندی کے لیے پیش کردہ تجاویز کو بارہا تسلیم کیا ہے۔
بدھ کو ہونے والا اجلاس جس طریقہ کار پر مبنی ہے اسے ’ویٹو اقدام‘ کہا جاتا ہے۔
یہ طریقہ کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپریل 2022 میں اپنایا تھا۔ یہ اقدام سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی ویٹو کے استعمال کے دس دن کے اندر جنرل اسمبلی کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنا اجلاس منعقعد کرے اور رکن ممالک کو ویٹو کی جانچ پڑتال اور اس پر تبصرہ کرنے کا موقع دیا جائے۔'اقوام متحدہ ناکام نہیں'اس موقع پر جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے کہا کہ اقوام متحدہ بطور ادارہ غزہ میں ناکام نہیں ہو رہا۔
اس کا عملہ انسانی امداد کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کے باوجود اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ویٹو کی گئی قرارداد میں وہ بنیادی مطالبات شامل تھے جو پہلے ہی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کیے جا چکے ہیں۔ ان میں فوری، مستقل و غیرمشروط جنگ بندی، حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے قبضے میں موجود تمام یرغمالیوں کی فوری اور باعزت رہائی اور علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی محفوظ اور بلاروک و ٹوک فراہمی شامل ہیں۔
فلسطین کا خیرمقدماقوام متحدہ میں ریاست فلسطین کے مستقل مبصر ریاض منصور نے کہا کہ خونریزی کا خاتمہ کرنے اور شہریوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ انہوں ںے امریکہ صدر کی جانب سے فلسطینی علاقوں کے اسرائیل میں انضمام اور فلسطینی عوام کو علاقے سے جبراً بیدخل کیے جانے سے واضح انکار کا خیرمقدم کیا۔
ریاض منصور نے کہا کہ ایسے مںصوبے ماضی میں بھی پیش کیے گئے ہیں لیکن امن کے لیے اس قدر تیزرفتار کوششیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ صدر ٹرمپ کے منصوبے کی کامیابی کا پیمانہ فلسطینی عوام کو حق خودارادیت ملنا اور ریاست فلسطین کی آزادی ہو گا۔ یہ امن کے لیے سب سے اہم پیش رفت ہے اور ایک ایسا کارنامہ ہوگا جو یادگار ورثہ بنے گا۔
جنگ کے خاتمے کا منصوبہاقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل سفیر ڈینی ڈینن نے کہا کہ کئی مہینوں میں پہلی مرتبہ ایک واضح راستہ سامنے آیا ہے۔
یہ ایسا راستہ ہے جو یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔پرامید طور سے، اس کی بدولت خاندان دوبارہ یکجا ہو سکیں گے اور غزہ کے لوگ ایک روشن مستقبل پائیں گے۔سفیر نے کہا کہ بہت سے ممالک پہلے ہی اس منصوبے کی حمایت کا وعدہ کر چکے ہیں۔ حماس نے تاحال اس منصوبے کو قبول نہیں کیا۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے لیکن انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ یہ کام آسانی سے بھی ہو سکتا ہے اور مشکل سے بھی، لیکن یہ ضرور ہوگا۔ اگر وہ اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں تو اسرائیل اپنا کام مکمل کرے گا اور تمام یرغمالیوں کو واپس لے آئے گا۔