اسلام آباد:

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد نے گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل سے ملاقات کے دوران حکومت پر زور دیا کہ ریاستی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کوششں کریں اور بات چیت کا آغاز کریں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے جاری اعلامیے کے مطابق گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل سے صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن رؤف عطا کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی۔

اعلامیے میں بتایا گیا کہ ملاقات میں مشرقی سرحدوں سمیت دیگر امور پر بات ہوئی، فریقین نے آپریشن بنیان مرصوص  کے دوران مسلح افواج کی جرات اور بہادری کو سراہا اور کہا کہ پاک افواج کا ردعمل ایسا تھا کہ مخالف کوئی توڑ نہ نکال سکا۔

ملاقات کے دوران کہا گیا کہ پاک سر زمین کی سالمیت کی کسی خلاف ورزی کو برادشت نہیں کیا جائے گا، آئندہ کسی بھی جارحیت کی کوشش کا مکمل طاقت سے جواب دیا جائے گا۔

صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران قومی اتحاد کے لیے سیاسی جماعتوں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کردار قابل تحسین ہے، 10 مئی کو ہر سال مسلح افواج کی کامیابی کے طور پر منانے کے حکومتی فیصلے کو سراہتے ہیں اور توقع ہے جنگ بندی تسلسل سے قائم رہے گی۔

اعلامیے کے مطابق ملاقات میں سندھ طاس معاہدے کی بحالی اور مقبوضہ  کشمیر  پر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق با معنی مذکرات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ریاستی سطح پر حکومت پاکستان مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے باضابطہ کوشش اور بات چیت کا آ غاز کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار کے دوران

پڑھیں:

جسٹس اطہر کا چیف جسٹس کو خط، عوامی رائے کو دبانے کیلئے سپریم کورٹ کے استعمال پر اظہار افسوس

سپریم کورٹ کے جج اطہر من اللہ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ افریدی کو ایک پر زور خط لکھا ہے. جس میں عدلیہ کو لاحق خطرات پر غور کے لیے ایک کانفرنس بلانے کی درخواست کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کو بعض اوقات عوام کی رائے دبانے کے لیے ’غیر منتخب اشرافیہ‘ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔یہ پیش رفت منگل کو اس وقت سامنے آئی ہے جب حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے اقدامات کر رہی ہے.سینیٹ سے منظور ہونے والا یہ بل عدلیہ اور فوجی قیادت سے متعلق کئی اہم تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔جج اطہر من اللہ نے ڈان کو دستیاب 7 صفحات پر مشتمل خط میں لکھا کہ ’یہ خط وہ یہ آئین کے احترام اور ایک سنجیدہ فریضہ کے طور پر لکھ رہے ہیں .تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ریکارڈ رہے کہ ان کی تقدیر کس طرح عدالت عظمیٰ کی سنگ مرمر کی دیواروں کے پیچھے طے کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ خط حالیہ واقعات کے پیش نظر لکھا جا رہا ہے. جنہوں نے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ ادارے ایک دن میں نہیں بنائے جاتے، مگر خوف، ہتھیار ڈالنے یا طاقت کے سامنے جھک کر وہ بہت جلد تباہ ہو سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی تاریخ بے داغ یا قابل تعریف نہیں.لیکن اس کی ماضی کی ناکامیاں چاہے کتنی بھی سنگین کیوں نہ ہوں. عدلیہ کو غیر منتخب اشرافیہ کے مفادات کے تابع رکھنے کا جواز نہیں دیتیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے موجودہ جج کے طور پر ان کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کو لاحق خطرات پر آواز بلند کریں۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے آئین کے تحفظ کی قسم اٹھائی تھی .لیکن وہ اکثر اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں کیونکہ عوام کو دیے گئے بنیادی حقوق اکثر محض نعروں یا باتوں تک محدود ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’میں نے آئین کے دفاع، تحفظ اور بقا کی قسم اٹھائی تھی. لیکن خود کو بے بس محسوس کر رہا ہوں کیونکہ عوام کے لیے جو بنیادی حقوق آئین میں محفوظ کیے گئے ہیں، وہ اکثر محض نعروں یا الفاظ تک محدود رہ گئے ہیں.ہم اس کے برعکس دکھاوا کرسکتے ہیں لیکن اعلیٰ عدالت کے جج اور آئین کے محافظ کے طور میرے لیے حقیقت ناخوشگوار اور شرمناک ہے‘۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حقیقت کو عوام سے بہت عرصے تک چھپایا گیا ہے اور انہیں غلط معلومات دی گئیں تاکہ اشرافیہ کا قبضہ قائم رہ سکے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آزادی کے آغاز سے ہی ریاست کی تاریخ میں کچھ ریاستی اداروں اور مضبوط اشرافیہ کے درمیان ایک غیر اخلاقی اتحاد رہا ہے.جس کی علامت کنٹرول، خصوصی مراعات اور بے قابو ہونا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اکثر عوام کی رائے محفوظ رکھنے کے بجائے اسے دبانے کے لیے استعمال کیا گیا۔خط میں انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ نے طاقت کے سامنے جھک کر عوام کے حق میں فیصلے دینے میں ناکامی دکھائی ہے، انہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی اور پھانسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے اعتماد اور ہمارے حلف کے ساتھ سب سے بڑی اور ناقابل معافی خیانت تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو ’غیر منتخب عناصر‘ نے ہراساں کیا، نواز شریف اور ان کی بیٹی کو ہراساں کیا گیا، ’یہ اس رجحان کا تسلسل ہے کہ جس میں جب بھی غیر منتخب اشرافیہ کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا، عوام کی رائے کو دبایاگیا‘۔انہوں نے کہاکہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی اسی سلسلے کا شکار بنے۔انہوں نے کہا کہ ’یہ رجحان اشرافیہ کے مسلسل کنٹرول کا مظہر ہے. جس میں رہنماؤں کو پہلے پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر انہیں برباد کر دیا جاتا ہے، جب وہ عوامی مینڈیٹ کے بل پر توانا ہو جاتے ہیں، اور مستحکم طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو منظم طریقے سے تحلیل کر دیا جاتا ہے.عوام کی رائے کو بار بار دبایا گیا تاکہ ریاست پر اشرافیہ کا قبضہ قائم رہے، یہ ایک ایسی خیانت اور تباہ کاری ہے جو آئینی جمہوریت کے قلب کو نشانہ بناتی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان بھی اسی دباؤ کے تسلسل کا نشانہ بن رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’سیاسی اختلاف کو جرم بنادیا گیا ہے، خواتین سمیت جو لوگ جھکنے سے انکار کرتے ہیں، انہیں غیر انسانی حالات میں گزارا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے. اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ان سے انصاف چھینا جا رہا ہے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’حقیقت ہم سب جانتے ہیں.لیکن اسے صرف عدالت کے چیمبرز اور چائے کے کمرے میں سرگوشی کی جاتی ہے.اس ادارے کی آزادی چاہے یہ ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے ہو یا براہ راست شرکت کے ذریعے، اکثر اندرونی طور پر نقصان اٹھاتی رہی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہم خود کو بنیادی حقوق کے محافظ قرار دیتے ہیں. لیکن ہم خاموش رہے جب پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس نے ہمیں بتایا کہ جبری گمشدگی کا رجحان ان کے دروازے تک پہنچ گیا ہے، ہم نے دوسرے چیف جسٹس کی بات بھی نظر انداز کی، جنہوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کے تناظر میں اس عدالت کے 12 ججوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ مارشل لا کے نفاذ کو روکنے کے ذمہ دار ہیں اور وہ آئیں گے اور ہمیں گھر بھیج دیں گے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں انتخابی نتائج میں مداخلت کی گئی. عوام کی رائے دبائی گئی، اختلاف رائے رکھنے والی آوازیں خاموش کر دی گئیں. ناپسندیدہ سیاسی وابستگیاں اور آرا جرم قرار دی گئیں، اور صحافیوں کو اغوا یا دھمکایا گیا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ اس نازک موقع پر خود احتسابی کی ضرورت ’ناقابل انکار‘ ہے۔انہوں نے کہا کہ ’میں احترام کے ساتھ یہ تجویز دوں گا کہ ایک عدالتی کانفرنس بلائی جائے تاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تمام ججز کے ساتھ ایک کھلا اور شفاف ادارہ جاتی مکالمہ ہو، تاکہ عدلیہ کی آزادی کے خطرات پر غور کیا جا سکے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے آئینی کردار کو متاثر کر سکتے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ادارے کی صورتحال، اس کی آزادی کو درپیش چیلنجز، اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری اقدامات پر ایک صاف اور کھلی بحث ناگزیر ہو گئی ہے، عدلیہ ایک خطرناک موڑ پر ہے، اس لمحے میں سچ بولا جانا چاہیے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے ادارہ جاتی نقطہ نظر پر غور کرنا چاہیے جو تجویز کردہ عدالتی کانفرنس کے ذریعے سامنے آئے، اس سے پہلے کہ وہ ملک کے بنیادی قانون میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرے۔انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ خبروں کی رپورٹس کے مطابق نئی وفاقی آئینی عدالت کو وفاقی شریعت عدالر کی عمارت میں قائم کرنے کی تیاری جاری ہے۔انہوں نے پوچھا کہ ’وہ کون سا پوشیدہ عمل ہے جس کے ذریعے عدلیہ کے کچھ افراد کو ان تبدیلیوں سے آگاہ کیا گیا ہے جو آئینی ترمیم کے ذریعے تجویز کی جا رہی ہیں؟ اور یہ کس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے غور کرنے سے پہلے ہی عدلیہ کی مجوزہ ساخت کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے پیشگی انتظامی اقدامات کرنے کے اتنے مشتاق کیوں ہیں؟‘۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی سب سے بڑی وفاداری اپنے تحفظ یا طاقت کی اطاعت میں نہیں بلکہ عوام اور آئین کے ساتھ وفاداری میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ’یہ عدالت اور عدلیہ بطور ادارہ ایک خطرناک موڑ پر کھڑی ہیں، اور عدلیہ کی آزادی کے منظم زوال کے سامنے خاموش رہنا دراصل اس میں شمولیت کے مترادف ہوگا، ہمارا حلف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم سچ بولیں، سچائی کا علم بلند رکھیں اور آئین کی حفاظت کریں، چاہے ایسا کرنا مشکل ہی کیوں نہ ہو‘۔جسٹس اطہر من اللہ کا خط ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل جسٹس منصور علی شاہ نے متعدد وکلا اور سابق ججوں کے ساتھ مل کر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے عدلیہ کی آزادی کے محافظ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے 6 صفحات پر مشتمل خط میں مجوزہ آئینی ترمیم کو عدلیہ کو کمزور کرنے کی ایک سیاسی چال قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر زور دیا تھا کہ وہ انتظامیہ کا سامنا کریں اور ایک اصول طے کریں کہ عدلیہ کو متاثر کرنے والی کوئی بھی ترمیم اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے پیشگی مشاورت کے بغیر منظور نہ کی جائے۔انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’آپ محض عدلیہ کے منتظم نہیں بلکہ اس کے محافظ ہیں‘، اور ساتھ ہی تجویز دی کہ ایک فل کورٹ اجلاس یا بہتر طور پر تمام آئینی عدالتوں کے ججوں پر مشتمل مشترکہ اجلاس، جن میں وفاقی شرعی عدالت اور ہائی کورٹس کے جج بھی شامل ہوں، بلایا جائے تاکہ عدلیہ کا مشترکہ مؤقف واضح کیا جا سکے۔جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا تھا کہ موجودہ وقت قیادت، شفافیت اور ادارہ جاتی عزم کا متقاضی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس کی سربراہی میں ایسی مشاورت شروع نہ کی گئی تو اسے خاموش منظوری اور اعلیٰ منصب میں رکھے گئے اعتماد سے دستبرداری کے طور پر دیکھا جائے گا۔اپنے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی توجیہ پر بھی سوال اٹھایا کہ یہ عدالت آئین میں کس قسم کا خلا پُر کرے گی۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کسی حقیقی اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے، اس کے جج کسی آئینی طریقہ کار کے بغیر مقرر کیے جائیں گے، بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں ’آئینی بینچ‘ تشکیل دیا گیا تھا، اس طرح کا نظام فیصلہ کن اختیار انتظامیہ کو دے گا اور عدالتی عمل میں مداخلت کی راہ ہموار کرے گا، انہوں نے کہا کہ ایسی عدالت وقتی سیاسی مفادات کی خدمت کر سکتی ہے، لیکن یہ ریاست کو مستقل نقصان پہنچائے گی۔علاوہ ازیں سابق ججوں اور ممتاز وکلا نے بھی چیف جسٹس آفریدی کو ایک مشترکہ خط لکھ کر 27ویں آئینی ترمیم پر غور کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کی اپیل کی، یہ خط سینئر وکیل فیصل صدیقی نے تحریر کیا، جس کی توثیق سپریم کورٹ کے سینئر جج (ر) جسٹس مشیر عالم،سندھ ہائی کورٹ کے جج (ر) جسٹس ندیم اختر اور دیگر 9 ممتازجسٹس اطہر من اللہ کا خط ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل جسٹس منصور علی شاہ نے متعدد وکلا اور سابق ججوں کے ساتھ مل کر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے عدلیہ کی آزادی کے محافظ کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے 6 صفحات پر مشتمل خط میں مجوزہ آئینی ترمیم کو عدلیہ کو کمزور کرنے کی ایک سیاسی چال قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر زور دیا تھا کہ وہ انتظامیہ کا سامنا کریں اور ایک اصول طے کریں کہ عدلیہ کو متاثر کرنے والی کوئی بھی ترمیم اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے پیشگی مشاورت کے بغیر منظور نہ کی جائے۔انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’آپ محض عدلیہ کے منتظم نہیں بلکہ اس کے محافظ ہیں‘، اور ساتھ ہی تجویز دی کہ ایک فل کورٹ اجلاس یا بہتر طور پر تمام آئینی عدالتوں کے ججوں پر مشتمل مشترکہ اجلاس، جن میں وفاقی شرعی عدالت اور ہائی کورٹس کے جج بھی شامل ہوں، بلایا جائے تاکہ عدلیہ کا مشترکہ مؤقف واضح کیا جا سکے۔جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا تھا کہ موجودہ وقت قیادت، شفافیت اور ادارہ جاتی عزم کا متقاضی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس کی سربراہی میں ایسی مشاورت شروع نہ کی گئی تو اسے خاموش منظوری اور اعلیٰ منصب میں رکھے گئے اعتماد سے دستبرداری کے طور پر دیکھا جائے گا۔اپنے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی توجیہ پر بھی سوال اٹھایا کہ یہ عدالت آئین میں کس قسم کا خلا پُر کرے گی۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کسی حقیقی اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے.اس کے جج کسی آئینی طریقہ کار کے بغیر مقرر کیے جائیں گے. بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں ’آئینی بینچ‘ تشکیل دیا گیا تھا، اس طرح کا نظام فیصلہ کن اختیار انتظامیہ کو دے گا اور عدالتی عمل میں مداخلت کی راہ ہموار کرے گا، انہوں نے کہا کہ ایسی عدالت وقتی سیاسی مفادات کی خدمت کر سکتی ہے.لیکن یہ ریاست کو مستقل نقصان پہنچائے گی۔

علاوہ ازیں سابق ججوں اور ممتاز وکلا نے بھی چیف جسٹس آفریدی کو ایک مشترکہ خط لکھ کر 27ویں آئینی ترمیم پر غور کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کی اپیل کی، یہ خط سینئر وکیل فیصل صدیقی نے تحریر کیا، جس کی توثیق سپریم کورٹ کے سینئر جج (ر) جسٹس مشیر عالم،سندھ ہائی کورٹ کے جج (ر) جسٹس ندیم اختر اور دیگر 9 ممتاز وکلا نے کی۔ 

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آنے کے بی جے پی حکومت کے جھوٹے دعوے کی مذمت
  • جسٹس اطہر کا چیف جسٹس کو خط، عوامی رائے کو دبانے کیلئے سپریم کورٹ کے استعمال پر اظہار افسوس
  • مقبوضہ کشمیر میں چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران سینکڑوں کشمیریوں کی گرفتاری کی مذمت
  • مقبوضہ کشمیر میں چھاپہ ما رکارروائیوں کے دوران سینکڑوں کشمیریوں کی گرفتاری کی مذمت
  • 27ویں ترمیم: سپریم کورٹ سب سے بڑے خطرے سے دوچار، وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ
  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت آئینی عدالت پر جسٹس منصور کے دلچسپ ریمارکس پر قہقہے
  • ستائیسویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • 27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم
  • تحریک آزادی کشمیر کے شہداء کے مشن کو ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا، مقررین سیمینار
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ