بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت بھارت میں شدید دباؤ میں ہیں۔ سیز فائر کے بھی دو دن بعد انھوں نے بالا ٓخر قوم سے خطاب کر دیا ہے۔ نریندر مودی پہلگام کے واقعہ کے بعد تو بہت تقریریں کر رہے تھے۔ لیکن لڑائی شروع ہونے کے بعد سے وہ خاموش تھے۔ وہ اجلا س پر اجلاس کر رہے تھے۔
بار بار اپنے سروسز چیف سے مل رہے تھے۔ لیکن خاموش تھے۔وہ بات نہیں کر رہے تھے۔ مودی کی خاموشی ان کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کر رہی تھی۔ ان کے سیاسی مخالفین ان کی خاموشی کو ان کی ہار کا اقرار قرار دے رہے تھے۔
اسی لیے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کا بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے اعلان کیا تو پورے بھارت میں سیکریٹری خارجہ کے خلاف ایک مذموم مہم دیکھنے میں آئی۔ لوگوں نے سیکریٹری خار جہ کو سیز فائر کے اعلان پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ لوگوں کے اسی غم و غصہ کی وجہ سے مودی بھی خاموش تھے۔ اصل میں بھارتی حکومت نے میڈیامیں اس قدر جنگی جنون پیدا کر دیا تھا کہ بھارت کے عوام کسی بھی قسم کے سیز فائر کے لیے ذہنی طو رپر تیار ہی نہیں تھے۔
وہاں تو (خاکم بدہن) پاکستان کی تباہی کے مناظر اور خبریں سنائی جا رہی تھیں۔ ایسے میں بھارت کا عام آدمی سوچ رہا ہے کہ جب بھارت جنگ جیت رہا تھا۔ پاکستان تباہ ہو رہا تھا تو سیز فائر کیوں کیا گیا ہے۔ بھارت کے عام آدمی کی سوچ میں سیز فائر سے بھارت نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی ہے۔ بھارت میں سیزفائر کو شکست کے طو رپر لیا جا رہا ہے۔
اسی لیے ہمیں نریندر مودی بھارت میں سیاسی طور پر شدید مشکل میں نظر آرہے ہیں۔ عوامی رائے عامہ ان کے خلاف نظر آرہی ہے۔ لوگوں کی رائے ہے کہ وہ پاکستان سے ہار گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں نریندر مودی میڈیا کے محاذ پر شکست کھا گئے۔ بے شک پورے بھارت کا میڈیا ان کے ساتھ تھا۔
انھوں نے جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران تمام مخالف آوازوں کو بند کر دیا تھا۔ ہزاروں سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے گئے تھے۔ یوٹیوب چینلز بند کیے گئے تا کہ بھارت کی عوام کو صرف وہی دکھایا اور بتایا جا سکے جو وہ چاہتے ہیں۔ لیکن یہ حکمت عملی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔کیونکہ آپ نے بھارت کے مخالف میڈیا کو بند کیا۔ پاکستان کے میڈیا کو بھارت میں بند کیا۔ لیکن دیگر ممالک کا عالمی میڈیا تو بھارت میں چل رہا تھا۔ جب وہاں سے پاکستان کی خبریں آئیں تو مودی کی سیاسی موت ہوئی۔
نریند ر مودی کی حکومت نے بھارتی میڈیا میں تو رافیل اور دیگر جنگی طیاروں کی تباہی کی خبر رکوا دی۔ لیکن عالمی میڈیا نے تو چلائی۔ مودی یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ آج کے دور میں خبر نہیں روکی جا سکتی۔ خبر کو روکنے میں ہی مودی کی شکست ہو گئی۔ خبر بھی نہیں رکی اور لوگ بھی خلاف ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں جتنی محنت رافیل کی تباہی کی خبر کو روکنے میں کی گئی، اس سے بہتر تھا کہ بھارتی حکومت کھلے دل سے لوگوں کے سامنے جنگی طیاروں کے نقصان اور تباہی کی خبر تسلیم کر لیتی۔
کم از کم مخالف پراپیگنڈا نہ ہوتا۔ اس لیے اب بھارت میں صورتحال دیکھیں ایک طرف بھارت کی جیت کے نغمے بجائے جا رہے تھے دوسری طرف رافیل کے گرنے کی خبریں لوگوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس کا مودی کو نقصان ہوا ہے۔ مودی سیاسی طور پر شدید مشکل میں ہیں۔ انھیں سرنڈر مودی کہا جا رہا ہے۔ انھیں صرف اپوزیشن کی طرف سے تنقید کا سامنا نہیں ہے۔ بلکہ ان کی اپنی جماعت کے اند ربھی ان کے خلاف بغاوت ہو گئی ہے۔ بے جے پی کے ایسے اجلاسوں کی خبریں آرہی ہیں، جہاں مودی کے خلاف حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ بی جے پی میں مودی مخالف کیمپ بہت متحرک نظر آرہا ہے۔ مودی کی بھارت میں ایک مخلوط حکومت ہے۔ ان کے اتحادی بھی اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔
مودی پر ایک تو الزام ہے کہ انھوں نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی ہے۔ مودی سے دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ مودی بھارت میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ امریکا اور بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر میں ثالثی کا کوئی کردار ادا کیا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں بھی امریکا کا کوئی کردار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ادھر امریکا صدر بار بار کریڈٹ لینے کے لیے بیان پر بیان دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کا ہر بیان مودی کے لیے سیاسی زہر ثابت ہو رہا ہے۔
پاکستان نے تو پہلے دن سے یہ بات تسلیم کی ہے کہ امریکا نے ثالثی کی ہے۔ پاکستان تو اس پر امریکا کا شکریہ بھی ادا کر رہا ہے۔ لیکن بھارت کی حکومت نے یہ بیانیہ بنایا کہ امریکا کا کوئی کردار نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان نے بذریعہ اپنے ڈی جی ایم او سیز فائر کی درخواست کی اور ہم نے مان لی۔ مودی دونوں طرف سے مشکل میں ہیں۔ ایک تو امریکی صدر کے بیان انھیں جھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔ اور بھارت میں یہ بیانیہ بن رہاہے کہ وہ امریکا کے آگے جھک گئے ہیں۔ وہ امریکا کے دباؤ میں آگئے ہیں۔
انھوں نے امریکی دباؤ میں جیتی ہوئی جنگ ہار دی ہے۔ دوسرا لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اگر امریکا کا کوئی دباؤ نہیں تھا تو پاکستان کے ڈی جی ایم او کی بات ماننے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک طرف بیانیہ ہے کہ ہم جیت رہے ہیں دوسری طرف یہ بیانیہ کہ انھوں نے کہا تو ہم سیز فائر پر مان گئے۔ دونوں باتوں میں کوئی مماثلت نہیں۔ اس لیے بھارت کا عام آدمی بھی اس صورتحال پر موودی کی بات پر یقین کرنے کے لیے تیارنہیں۔
مودی اپنے جال میں پھنس چکے ہیں۔ انھوں نے سیاسی مقصد کے لیے یہ جنگ شروع کی اور اس جنگ نے ان کے لیے سیاسی مشکلات میں ہی اضافہ کر دیا ہے۔ وہ بہار کا ا لیکشن جیتنے کے چکر میں اپنی کرسی بھی داؤ پر لگا بیٹھے ہیں۔ اس جنگ سے پہلے مودی ایک مضبوط لیڈر کا امیج رکھتے تھے۔ اب ایک کمزور لیڈر کا امیج بن گیا ہے۔ کل تک وہ اپوزیشن کو بولنے نہیں دیتے تھے۔ اب اپوزیشن نے ان پر چڑھائی کی ہوئی ہے۔ کھیل بدل گیا ہے۔ سیاست نے پلٹی کھا لی ہے۔
تقریر میں مودی نے اقرار کر لیا ہے کہ پاکستان نے بھارت پر حملہ کیا ہے۔ اس پر بھارت میں بہت بات ہو رہی ہے کہ جب پاکستان نے بھارت پر حملہ کیا تو سیز فائر کیوں کیا۔ تقریر نے سیاسی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔مودی کی سیاسی مشکلات پاکستان کے لیے خطرہ بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ایک نیا فالس فلیگ۔ ایک نئی جنگ۔ ایک نیا ایڈونچر۔ لیکن بھارت میں اب ان کی اپنی جماعت ان کے ساتھ نہیں۔ اس لیے مودی کی راہ میں رکاوٹیں بہت ہیں۔ لیکن کیا مودی اقتدار بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے؟ وہ حد کیا ہوگی؟ یہ دیکھنے کی بات ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ہمیںمودی پر نظر رکھنا ہوگی۔ مودی جاتے جاتے کیا کرے گا، وہی اصل سوال ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاسی مشکلات پاکستان نے بھارت میں امریکا کا نے بھارت انھوں نے سیز فائر مشکل میں بھارت کے رہے تھے کے خلاف کا کوئی مودی کی رہے ہیں کر رہے اس لیے میں ہی کر دیا رہا ہے کی خبر کے لیے
پڑھیں:
مودی کا وقت ختم ہو چکا، ہم بھارتی آبی جارحیت کا بھی جواب دیں گے، فضل الرحمان
پشاور(نیٹ نیوز) جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مسلح افواج کے سربراہوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے نریندر مودی کا وقت ختم ہوچکا ہے اور ہم بھارتی آبی جارحیت کا بھی جواب دیں گے۔ پشاور میں تحفظ پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا اجتماع کی آواز نمائندگی پوری قوم اور امت کی طرف سے ہے، پاکستان کے عوام فلسطینی بھائیوں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے متحد ہیں، ہم نے جلسوں میں بار بار کہا اسرائیل اور بھارت ایک جگہ پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا سرکاری اعلان کرے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا بری اور فضائی سربراہوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، ایک ہفتے میں ثابت ہوگیا اسرائیل اور بھارت ایک ہیں، اسرائیل ایک خنجر ہے جو ہمارے عرب بھائیوں کے کمر میں گھونپ دیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ پوچھے کیا بچوں کو قتل کرنا کس ذمرے میں دفاعی جنگ کہہ رہے ہیں، اسرائیل نے جارحیت کی اور عورتوں پر بم باری کی ہے، پوری امت مسلمہ کی قیادت سے کہنا چاہتا ہوں کہ فلسطینی بھائیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اعلان کریں وہ فلسطین کے ساتھ ہیں، آج کے اجتماع نے ثابت کیا قوم ہمارے مؤقف کے ساتھ کھڑی ہے۔ پہلگام میں سویلین لوگوں کو قتل کیا گیا، پاکستان نے اس پر تشویش کا اظہار اور مذمت کیا، بھارت نے 10 منٹ میں پاکستان پر الزام لگایا اور ایف آئی آر درج کی۔مولانا فضل الرحمان نے بھارتی وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا مودی جی آپ کشمیر میں لوگوں کو سیکیورٹی نہیں دے سکتے، پہلگام کو سیاست اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا، اب کشمیری مسلمان ہماری تائید کے بغیر نہیں رہ سکتا۔انہوں نے کہا کہ مودی کا وقت ختم ہوچکا ہے، مودی ایسا رسوا اور ذلیل ہوا کہ دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں، بھارت نے پاکستان پر الزام بھی لگایا اور سندھ طاس معاہدہ بھی ختم کیا لیکن سندھ طاس معاہدہ بھارت یک طرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے معاہدے کے تحت تین دریا دیے، دو اپنے پاس رکھے اور اب پانچ دریا ہمارے قبضے میں ہوں گے، ہم بھارت کو آبی جارحیت کا بھی جواب دیں گے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے گا، دونوں ممالک کے درمیان عالمی معاہدہ ہے ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے، بھارت نے حملہ کرکے تنازعات کو طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی اور طاقت کا جواب مل گیا۔انہوں نے کہا کہ عالمی معاہدہ ہے شہریوں، سکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے، اسرائیل اور بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، بھارت نے ہمارے ایئر بیسز پر حملے کیے تاہم پاکستان نے ایسا جواب دیا کہ ان کے جہازوں کو اڑنے کے قابل نہیں بنایا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے دوستوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے، ہر چند ہمارے تحفظات اور ناراضیاں تھیں لیکن ہم نے ملک کے لیے ساتھ دیا۔