Express News:
2025-09-27@19:35:50 GMT

مودی شدید مشکل میں

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت بھارت میں شدید دباؤ میں ہیں۔ سیز فائر کے بھی دو دن بعد انھوں نے بالا ٓخر قوم سے خطاب کر دیا ہے۔ نریندر مودی پہلگام کے واقعہ کے بعد تو بہت تقریریں کر رہے تھے۔ لیکن لڑائی شروع ہونے کے بعد سے وہ خاموش تھے۔ وہ اجلا س پر اجلاس کر رہے تھے۔

بار بار اپنے سروسز چیف سے مل رہے تھے۔ لیکن خاموش تھے۔وہ بات نہیں کر رہے تھے۔ مودی کی خاموشی ان کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کر رہی تھی۔ ان کے سیاسی مخالفین ان کی خاموشی کو ان کی ہار کا اقرار قرار دے رہے تھے۔

اسی لیے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کا بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے اعلان کیا تو پورے بھارت میں سیکریٹری خارجہ کے خلاف ایک مذموم مہم دیکھنے میں آئی۔ لوگوں نے سیکریٹری خار جہ کو سیز فائر کے اعلان پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ لوگوں کے اسی غم و غصہ کی وجہ سے مودی بھی خاموش تھے۔ اصل میں بھارتی حکومت نے میڈیامیں اس قدر جنگی جنون پیدا کر دیا تھا کہ بھارت کے عوام کسی بھی قسم کے سیز فائر کے لیے ذہنی طو رپر تیار ہی نہیں تھے۔

وہاں تو (خاکم بدہن) پاکستان کی تباہی کے مناظر اور خبریں سنائی جا رہی تھیں۔ ایسے میں بھارت کا عام آدمی سوچ رہا ہے کہ جب بھارت جنگ جیت رہا تھا۔ پاکستان تباہ ہو رہا تھا تو سیز فائر کیوں کیا گیا ہے۔ بھارت کے عام آدمی کی سوچ میں سیز فائر سے بھارت نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی ہے۔ بھارت میں سیزفائر کو شکست کے طو رپر لیا جا رہا ہے۔

اسی لیے ہمیں نریندر مودی بھارت میں سیاسی طور پر شدید مشکل میں نظر آرہے ہیں۔ عوامی رائے عامہ ان کے خلاف نظر آرہی ہے۔ لوگوں کی رائے ہے کہ وہ پاکستان سے ہار گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں نریندر مودی میڈیا کے محاذ پر شکست کھا گئے۔ بے شک پورے بھارت کا میڈیا ان کے ساتھ تھا۔

انھوں نے جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران تمام مخالف آوازوں کو بند کر دیا تھا۔ ہزاروں سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے گئے تھے۔ یوٹیوب چینلز بند کیے گئے تا کہ بھارت کی عوام کو صرف وہی دکھایا اور بتایا جا سکے جو وہ چاہتے ہیں۔ لیکن یہ حکمت عملی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔کیونکہ آپ نے بھارت کے مخالف میڈیا کو بند کیا۔ پاکستان کے میڈیا کو بھارت میں بند کیا۔ لیکن دیگر ممالک کا عالمی میڈیا تو بھارت میں چل رہا تھا۔ جب وہاں سے پاکستان کی خبریں آئیں تو مودی کی سیاسی موت ہوئی۔

نریند ر مودی کی حکومت نے بھارتی میڈیا میں تو رافیل اور دیگر جنگی طیاروں کی تباہی کی خبر رکوا دی۔ لیکن عالمی میڈیا نے تو چلائی۔ مودی یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ آج کے دور میں خبر نہیں روکی جا سکتی۔ خبر کو روکنے میں ہی مودی کی شکست ہو گئی۔ خبر بھی نہیں رکی اور لوگ بھی خلاف ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں جتنی محنت رافیل کی تباہی کی خبر کو روکنے میں کی گئی، اس سے بہتر تھا کہ بھارتی حکومت کھلے دل سے لوگوں کے سامنے جنگی طیاروں کے نقصان اور تباہی کی خبر تسلیم کر لیتی۔

کم از کم مخالف پراپیگنڈا نہ ہوتا۔ اس لیے اب بھارت میں صورتحال دیکھیں ایک طرف بھارت کی جیت کے نغمے بجائے جا رہے تھے دوسری طرف رافیل کے گرنے کی خبریں لوگوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس کا مودی کو نقصان ہوا ہے۔ مودی سیاسی طور پر شدید مشکل میں ہیں۔ انھیں سرنڈر مودی کہا جا رہا ہے۔ انھیں صرف اپوزیشن کی طرف سے تنقید کا سامنا نہیں ہے۔ بلکہ ان کی اپنی جماعت کے اند ربھی ان کے خلاف بغاوت ہو گئی ہے۔ بے جے پی کے ایسے اجلاسوں کی خبریں آرہی ہیں، جہاں مودی کے خلاف حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ بی جے پی میں مودی مخالف کیمپ بہت متحرک نظر آرہا ہے۔ مودی کی بھارت میں ایک مخلوط حکومت ہے۔ ان کے اتحادی بھی اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔

مودی پر ایک تو الزام ہے کہ انھوں نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی ہے۔ مودی سے دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ مودی بھارت میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ امریکا اور بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر میں ثالثی کا کوئی کردار ادا کیا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں بھی امریکا کا کوئی کردار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ادھر امریکا صدر بار بار کریڈٹ لینے کے لیے بیان پر بیان دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کا ہر بیان مودی کے لیے سیاسی زہر ثابت ہو رہا ہے۔

پاکستان نے تو پہلے دن سے یہ بات تسلیم کی ہے کہ امریکا نے ثالثی کی ہے۔ پاکستان تو اس پر امریکا کا شکریہ بھی ادا کر رہا ہے۔ لیکن بھارت کی حکومت نے یہ بیانیہ بنایا کہ امریکا کا کوئی کردار نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان نے بذریعہ اپنے ڈی جی ایم او سیز فائر کی درخواست کی اور ہم نے مان لی۔ مودی دونوں طرف سے مشکل میں ہیں۔ ایک تو امریکی صدر کے بیان انھیں جھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔ اور بھارت میں یہ بیانیہ بن رہاہے کہ وہ امریکا کے آگے جھک گئے ہیں۔ وہ امریکا کے دباؤ میں آگئے ہیں۔

انھوں نے امریکی دباؤ میں جیتی ہوئی جنگ ہار دی ہے۔ دوسرا لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اگر امریکا کا کوئی دباؤ نہیں تھا تو پاکستان کے ڈی جی ایم او کی بات ماننے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک طرف بیانیہ ہے کہ ہم جیت رہے ہیں دوسری طرف یہ بیانیہ کہ انھوں نے کہا تو ہم سیز فائر پر مان گئے۔ دونوں باتوں میں کوئی مماثلت نہیں۔ اس لیے بھارت کا عام آدمی بھی اس صورتحال پر موودی کی بات پر یقین کرنے کے لیے تیارنہیں۔

مودی اپنے جال میں پھنس چکے ہیں۔ انھوں نے سیاسی مقصد کے لیے یہ جنگ شروع کی اور اس جنگ نے ان کے لیے سیاسی مشکلات میں ہی اضافہ کر دیا ہے۔ وہ بہار کا ا لیکشن جیتنے کے چکر میں اپنی کرسی بھی داؤ پر لگا بیٹھے ہیں۔ اس جنگ سے پہلے مودی ایک مضبوط لیڈر کا امیج رکھتے تھے۔ اب ایک کمزور لیڈر کا امیج بن گیا ہے۔ کل تک وہ اپوزیشن کو بولنے نہیں دیتے تھے۔ اب اپوزیشن نے ان پر چڑھائی کی ہوئی ہے۔ کھیل بدل گیا ہے۔ سیاست نے پلٹی کھا لی ہے۔

تقریر میں مودی نے اقرار کر لیا ہے کہ پاکستان نے بھارت پر حملہ کیا ہے۔ اس پر بھارت میں بہت بات ہو رہی ہے کہ جب پاکستان نے بھارت پر حملہ کیا تو سیز فائر کیوں کیا۔ تقریر نے سیاسی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔مودی کی سیاسی مشکلات پاکستان کے لیے خطرہ بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ایک نیا فالس فلیگ۔ ایک نئی جنگ۔ ایک نیا ایڈونچر۔ لیکن بھارت میں اب ان کی اپنی جماعت ان کے ساتھ نہیں۔ اس لیے مودی کی راہ میں رکاوٹیں بہت ہیں۔ لیکن کیا مودی اقتدار بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے؟ وہ حد کیا ہوگی؟ یہ دیکھنے کی بات ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ہمیںمودی پر نظر رکھنا ہوگی۔ مودی جاتے جاتے کیا کرے گا، وہی اصل سوال ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی مشکلات پاکستان نے بھارت میں امریکا کا نے بھارت انھوں نے سیز فائر مشکل میں بھارت کے رہے تھے کے خلاف کا کوئی مودی کی رہے ہیں کر رہے اس لیے میں ہی کر دیا رہا ہے کی خبر کے لیے

پڑھیں:

آئی ایم ایف جائزے میں سیلاب کے اثرات کو بھی شامل کرے، قرض مسئلہ کا حل نہیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین متاثر: شہباز شریف

نیویارک+ اسلام آباد (آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ+  خبرنگار خصوصی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے درخواست کی ہے کہ وہ حالیہ سیلاب کے معیشت پر اثرات کو اپنے جائزے میں شامل کرے اور کہا ہے کہ پائیدار اصلاحات کی بدولت پاکستان کی معیشت میں استحکام کے مثبت آثار نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت تیزی سے بحالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کی دیرینہ شراکت داری کو سراہتے ہوئے کہا کہ کرسٹالینا جارجیوا کی قیادت میں تعاون مزید مستحکم ہوا ہے۔ انہوں نے مالی سال 2024 میں 3 بلین ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ، بعد ازاں 7 بلین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف ) اور 1.4 بلین ڈالر کے ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فنڈ (آر ایس ایف ) کے بروقت انتظام پر آئی ایم ایف کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا ہے کہ پختہ عزم کے ساتھ کی جانے والی پائیدار اصلاحات کی بدولت پاکستان کی معیشت استحکام کے مثبت آثار دکھا رہی ہے اور اب بحالی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے اہداف اور وعدوں پر مسلسل پیش رفت کر رہا ہے تاہم حالیہ سیلاب کے معاشی اثرات کو بھی جائزے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے سیلاب متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نقصانات کے تخمینے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے وزیراعظم کے مضبوط میکرو اکنامک پالیسیوں پر عمل درآمد کے عزم کو سراہا اور یقین دہانی کرائی کہ آئی ایم ایف پاکستان کی طویل مدتی پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے اصلاحاتی اقدامات میں مسلسل تعاون کرے گا۔ دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف سے صدر ورلڈ بنک کی ملاقات ہوئی جس میں ورلڈ بنک کے صدر اجے بنگا نے پاکستان کے اصلاحاتی اقدامات کو سراہا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی نیویارک میں جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ورلڈ بنک کے صدر اجے بنگا سے ہونے والی ملاقات میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ بھی شریک ہوئے۔ ملاقات میں وزیراعظم نے عالمی بنک کے صدر کو حکومت پاکستان کے جامع اصلاحاتی ایجنڈے سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے کرونا اور 2022 ء کے تباہ کن سیلاب کے دوران پاکستان کے لیے ورلڈ بنک کی دیرینہ حمایت کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے آپریشنز کو آسان بنانے اور نجی شعبے میں وسائل کو مزید متحرک کرنے، ورلڈ بنک کو تیز تر اور زیادہ موثر ترقیاتی شراکت دار میں تبدیل کرنے پر اجے بنگا کی قیادت کی تعریف کی۔ شہباز شریف نے ورلڈ بنک کے نئے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (2026-2035)  کی بھی تعریف کی۔ شہبازشریف نے عالمی بنک سے بھی مطالبہ کیا پاکستانی معیشت پر حالیہ سیلاب کے اثرات کو آئی ایم ایف جائزے میں شامل کیا جانا چاہئے۔ وزیراعظم اورورلڈ بنک کے صدر اجے بنگانے پاکستان کی ترقیاتی ترجیحات کو آگے بڑھانے کے لیے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ورلڈ بنک کے نئے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (2035-2026) کی بھی تعریف کی جس کے تحت عالمی بنک نے پاکستان کے لیے 40 ارب ڈالر کا تاریخی اور بے مثال وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے کے حوالے سے وفاقی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ صدر عالمی بنک  نے اقتصادی اصلاحات کے فروغ اور سی پی ایف کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے طویل مدتی و پائیدار اقدامات کے لیے مسلسل تعاون بڑھانے کے حوالے سے بنک کے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ورلڈ بنک گروپ کے صدر اجے بنگا نے پاکستان کی ترقیاتی ترجیحات میں پیش رفت کے لیے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دریں اثناء امریکی صدر ٹرمپ سے وزیراعظم شہبازشریف نے ملاقات کی۔ دونوں نے دیر تک ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے رکھے۔ شہباز اور ٹرمپ نے بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کی۔ ٹرمپ نے اس موقع پر موجود نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے بھی ہاتھ ملایا۔ شہباز شریف کی آج پھر امریکی صدر سے  واشنگٹن میں ملاقات کا امکان ہے۔  عالمی اور علاقائی معاملات پر تفصیلی گفتگو متوقع اور اس ملاقات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بھی شرکت کا امکان ہے۔  وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی سری لنکا کے صدر انورا کمارا ڈسانائیکے سے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی (UNGA) کے 80ویں اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ملاقات ہوئی جو پاکستان اور سری لنکا کے درمیان موجودہ خیر سگالی پر مبنی تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔  دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت میں اعلیٰ سطح کے تبادلے، دوطرفہ تجارت، تعلیمی تعاون، ثقافتی تبادلے اور دفاعی تعاون سمیت مختلف شعبوں کا احاطہ کیا گیا۔ ملاقات میں مختلف علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے پاک سری لنکا دوطرفہ تعلقات کی مضبوط نوعیت پر اطمینان کا اظہار کیا۔  انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام جاری رکھنے کا اعادہ کیا تاکہ آئندہ برسوں میں یہ تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔ وزیراعظم نے سری لنکا کے ساتھ تمام شعبوں میں دوطرفہ روابط بڑھانے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور مختلف بین الاقوامی فورمز پر دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کو سراہا۔ دونوں رہنماؤں نے کھیلوں بالخصوص کرکٹ میں تبادلوں کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔ ادھر امریکہ اور آٹھ  عرب و اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا نیو یارک میں کثیر الجہتی اجلاس ہوا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اجلاس امریکی صدر ٹرمپ کی دعوت اور امیر قطر کی میزبانی میں ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف‘ اردن کے شاہ عبداللہ‘ ترک صدر طیب اردگان‘ انڈونیشیا کے صدر‘ مصر کے وزیراعظم‘ سعودی‘ اماراتی وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ اجلاس میں غزہ کی تباہ کن صورتحال‘ انسانی المیہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کی مخالفت اور بے گھر افراد کی واپسی پر زور دیا۔ شرکاء نے فوری جنگ بندی‘ یرغمالیوں کی رہائی‘ انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا۔ اجلاس میں غزہ کی تعمیر نو کے جامع منصوبے کی حمایت کی گئی۔ غزہ کیلئے عالمی امداد‘ فلسطینی قیادت کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ شرکاء نے صدر ٹرمپ کی قیادت میں دیرپا  امن کے قیام کے عزم کا اعادہ کیا۔ اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ‘ مشرق وسطیٰ کیلئے خصوصی ایلچی نے بھی شرکت کی۔ دریں اثناء وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے نیویارک میں چین کے وزیرِ اعظم  لی چیانگ کی سربراہی میں  ہونے والے  عالمی ترقیاتی اقدام (GDI)  ’’اپنی اصل امنگوں کی تجدید کریں‘ ترقی کے روشن مستقبل کی تعمیر کیلئے متحد ہوں‘‘ کے موضوع پر اعلیٰ سطح اجلاس میں شرکت کی۔ وزیر اعظم کی اس موقع پر چینی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات اور غیر رسمی گفتگو بھی ہوئی۔ وزیر اعظم  سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس سے بھی  ملے۔ وزیرِ اعظم کی اجلاس میں شرکت پاک چین مثالی دوستی اور دونوں ممالک کے مضبوط تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ گزشتہ ماہ اپنے دورہ چین کے دوران وزیرِ اعظم نے چینی صدر شی جن پنگ کے GDI کے ویژن کی تعریف کی تھی اور اسے خطے و عالمی سطح پر پائیدار ترقی کے حوالے سے ایک اہم قدم قرار دیا تھا۔وزیراعظم شہباز شریف نے سمٹ سے خطاب میں کہا ہے کہ ایسے وقت میں آپ سے مخاطب ہوں میرے اہل وطن مون سون بارشوں سے متاثر ہیں۔ پاکستان کو اس موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے، سال 2022ء کے سیلاب میں پاکستان نے 30 ارب ڈالر سے زائد نقصان اٹھایا۔ عالمی سطح پر کاربن گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان گرین ہاؤس گیسز میں کمی کیلئے عملی اقدامات کر رہا ہے۔ متبادل توانائی اور گرین انرجی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ملکوں میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا بنگلہ دیش سے تعلقات میں آئے روز بہتری آ رہی ہے۔ تجارتی اور سفارتی تعلقات مزید بڑھائیں گے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں دن بدن بہتری آ رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت اور سفارتی تعلقات کو مزید فروغ دیں گے، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں تمام ایشوز پر بات کروں گا۔ معرکہ حق پاکستان کی عظیم فتح ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے دنیا کو دکھایا کہ کس طرح جنگیں لڑی جاتی ہیں، پن بجلی‘ شمسی توانائی اور نیو کلیئر انرجی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کیلئے ترجیحی بنیادوں پر شجرکاری کی جا رہی ہے۔ قرض‘ قرض اور قرض مسئلے کا حل نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خالصتان ریفرنڈم کا اعلان، سکھ رہنمائوں نے بھارت کو للکاردیا
  • جے شاہ نے بھارت کا تماشا بنوادیا، بھارتی شائقین کی مودی سرکار اور کرکٹ بورڈ پر شدید تنقید
  • خالصتان ریفرنڈم کا اعلان: سکھ رہنماؤں نے بھارت کو للکار دیا
  • خالصتان ریفرنڈم کا اعلان: سکھ رہنماؤں نے بھارت کو للکار دیا
  • بی جے پی کی کٹھ پتلی مودی سرکار میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل کا بازار گرم
  • ٹرمپ کی رافیل کا بیچ لگاکر مودی کی ٹرولنگ
  • بھارت میں 67 علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم
  • ایشیا کپ کے بعد سوریا کمار یادو مشکل میں، آئی سی سی نے تحقیقات شروع کر دیں
  • پاک بھارت میچ میں متنازع گفتگو کرنے پر بھارتی کپتان بڑی مشکل میں پھنس گئے
  • آئی ایم ایف جائزے میں سیلاب کے اثرات کو بھی شامل کرے، قرض مسئلہ کا حل نہیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین متاثر: شہباز شریف