سپریم کورٹ نے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں سیلز ٹیکس ترمیمی ایکٹ بحال کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں سیلز ٹیکس ترمیمی ایکٹ بحال کر دیا۔
عدالت نے گھی اور اسٹیل ملز ایسوسی ایشن کی اپیلیوں پر حکم امتناع جاری کردیا، پشاور ہائی کورٹ نے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں سیلز ترمیمی ایکٹ کالعدم قرار دیا تھا۔
گھی و اسٹیل ملز ایسوسی ایشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ پارلیمان کے متبادل قانون سازی نہیں کر سکتی اور درخواست میں کی گئی استدعا سے بڑھ کر ریلیف نہیں دے سکتی۔
حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا، اربوں روپے ٹیکس کا معاملہ ہے۔
عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں، عدالت نے اپیلوں پر مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ذرا بند قبا دیکھ!
صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم اب آئین پاکستان کا حصہ بن چکی ہے۔ اس ترمیم کے تحت ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آئینی عدالت قائم کر دی گئی ہے، جسٹس امین الدین جو یکم دسمبر کو ریٹائرڈ ہونے والے تھے انھیں آئینی عدالت کا سربراہ بنا کر مدت ملازمت میں تین سال کا اضافہ کر دیا گیا ہے، یعنی ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 کے بجائے 68 سال کر دی گئی ہے، جسٹس امین الدین اب مزید 3 سال آئینی عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے کام کریں گے۔
مزید 6 ججوں کی آئینی عدالت میں تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے، جن میں تین نے حلف بھی اٹھا لیا ہے، کل تعداد 13 ہوگی۔ پاکستان کی پہلی آئینی عدالت کے محترم ججز کی تقریب حلف برداری میں حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ کے کسی جج نے شرکت نہیں کی بلکہ دو سینئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے 27 ویں ترمیم کی منظوری پر بطور احتجاج استعفے دے دیے اور صدر مملکت نے انھیں فوراً منظور بھی کر لیا، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں جن تحفظات کا اظہارکیا ہے، ان میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ 27 ویں آئینی ترمیم سے سپریم کورٹ کی سابقہ حیثیت پر زد پڑی ہے۔ اس کی طاقت اور اختیارات تقسیم ہو گئے۔
اہم ترین آئینی مباحث اب آئینی عدالت میں سنے جائیں گے۔ آئینی و قانونی ماہرین اور وکلا برادری بھی 27 ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔ کراچی کے وکلا نے 27 ویں آئینی ترمیم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر عدالت عظمیٰ میں کیس زیر سماعت ہے اور آئینی بینچ اس کو سن رہا ہے، اب 26 ویں ترمیم پر عدالتی فیصلہ نہیں آیا، لیکن اب یہ کیس نئی آئینی عدالت میں سنا جائے گا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم جلد بازی میں رات کے اندھیرے میں منظور کرا لی گئی تھی۔ بعینہ 27 ویں ترمیم کی عجلت میں منظوری ہوئی۔
27 ویں آئینی ترمیم سے ایک ادارے کو کمزور تو دوسرے ادارے کو طاقت ور بنا دیا گیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف ہی اب چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا، جب کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ پانچ سال کے لیے ہوگا اور نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اس مدت ملازمت کا آغاز ہوگا۔ گویا فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اب نومبر 2030 تک چیف آف ڈیفنس فورسز کے منصب پر برقرار رہیں گے۔
27 ویں آئینی ترمیم پر اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے محمود خان اچکزئی کی زیر صدارت اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں ملک بھر میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا آغاز جمعہ کو یوم سیاہ منانے سے شروع ہوگا۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ 26 اور 27 ویں آئینی ترامیم آئین کی بنیادی روح اور جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ ترامیم عدلیہ کے اختیارات کو محدود کر کے سپریم کورٹ کو انتظامیہ کے ماتحت کر دیتی ہیں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے، لہٰذا ان ترامیم کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا، عوام اور وکلا برادری کو بھی متحرک کرکے احتجاج میں شرکت کریں گے۔
اپوزیشن کے موقف میں موجود وزن کو ناقابل فہم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اکابرین حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ آج وہ قومی مفاد کے نام پر پارلیمنٹ کو استعمال کرکے جو آئینی ترامیم منظور کرا کے اداروں کو منقسم کرکے ان پر اپنی حاکمیت مسلط کرنا چاہ رہے ہیں تو کل جب وہ اقتدار میں نہیں ہوں گے تو ان اقدامات کا ازالہ کیسے اور کیوں کر ممکن ہو سکے گا۔ کل جب وہ عوام کی عدالت میں جائیں گے تو کیا جواب دیں گے؟ (ن) لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کے بقول استعفوں کا سلسلہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر مخالف کو پکڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے ملک دشمن قرار دیا جا سکتا ہے۔ دشمنوں میں گھرا نیوکلیئر پاکستان آخر کب تک اندرونی محاذ آرائی کا متحمل ہوگا؟ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ دیرینہ تنازعات کے حل کے لیے نئے تنازعات کو جنم دینا دانش مندی نہیں۔
27 ویں آئینی ترمیم پر نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرون وطن بھی ذرایع ابلاغ میں تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ نیویارک ٹائم کے مطابق ترمیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ گارڈین کے مطابق ترمیم سپریم کورٹ کی آزادی کو محدود کرسکتی ہے۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں بھی 27 ویں ترمیم پر تحفظات کا اظہار سامنے آ رہا ہے، جب کہ حکمران، وزرا اور مشیران تک سب ترمیم کو ادارہ جاتی ہم آہنگی اور قومی استحکام کے لیے مثبت قرار رہے ہیں۔ حقیقت تو سب پر عیاں ہے بس جرأت اظہار کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر:
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ