Express News:
2025-11-12@00:07:17 GMT

سپریم کورٹ، بینچوں کی تشکیل میں شفافیت لانے کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں ہائی پروفائل کیسز میں بینچوں کی تشکیل مارچ 2009 سے زیربحث رہی ہے۔

26 ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود ہم خیال بینچ کی اصطلاح اب بھی مستعمل ہے جبکہ آئینی بینچوں کے لیے ججوں کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کر رہا ہے۔

 6 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آئینی بینچوں کے لیے ججوں کی نامزدگی کا کوئی معیار وضع نہیں کیا گیا۔ اس وقت تمام صوبوں سے 15جج آئینی بینچ میں موجود ہیں لیکن وہ جج جو انتظامیہ کی گڈ بک میں نہیں انھیں اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: حکومت ریاستی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے باضابطہ کوشش کرے، سپریم کورٹ بار

سپریم کورٹ میں بینچوں کی تشکیل میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے ورنہ عدلیہ پر سوالات اٹھیں گے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل کمیٹی آئینی بنچوں کے لیے ججوں کا انتخاب کرتی ہے تاہم ہائی پروفائل کیسز میں ہم خیال بنچوں کی تشکیل کمیٹی کے طرز عمل پرسوالیہ نشان ہے۔

کمیٹی نے ملٹری کورٹس کیس میں جسٹس شاہد وحید کو آئینی بنچ کے لیے نامزد نہیں کیا۔ اسی طرح کمیٹی نے سپر ٹیکس کیس میں ٹیکس کے معاملات میں مہارت رکھنے والے ججوں کو نامزد نہیں کیا۔

اب کمیٹی کو مخصوص سیٹوں کے معاملے میں 12 جولائی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کرنے والے بنچ کی تشکیل میں پانچ ججوں کو نہ بٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارتی جارحیت سے شہریوں کی شہادت؛ سپریم کورٹ میں تعزیتی اجلاس منعقد

گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بینچ کی تشکیل کو چیلنج کیا۔ منگل کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کہ بینچ بظاہر تقسیم تھا۔

جسٹس امین الدین خان بنچ کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی درخواست جمع کرانے کے لیے وکیل کو وقت دینے سے گریزاں تھے۔

 تاہم جسٹس جمال خان مندوخیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وکیل کو اعتراضات اٹھانے کا مناسب موقع دیا جائے۔ ان کی مداخلت کے بعد بنچ نے معاملہ پیر تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کی تشکیل نہیں کیا کے لیے

پڑھیں:

’عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں‘ جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو لکھا خط منظر عام پر

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے پس منظر میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام لکھا گیا اہم خط منظر عام پر آگیا ہے۔

اپنے خط میں انہوں نے عدلیہ کی تاریخ، کردار اور آزادی کے حوالے سے کھلے الفاظ میں خود احتسابی پر مبنی مؤقف اختیار کیا ہے۔

یہ خط 8 اکتوبر 2025 کو چیف جسٹس کو لکھا گیا تھا، جو 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف بڑھتی ہوئی بحث کے دوران سامنے آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججوں کے خطوط عدلیہ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں؛ صدر سپریم کورٹ بار

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں سپریم کورٹ کے کردار پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی، عوام کے ساتھ نہیں۔‘

انہوں نے اعتراف کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابلِ معافی جرم تھی، جب کہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

جسٹس من اللہ نے لکھا کہ عمران خان کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی اسی جبر کے تسلسل کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے 4 ججز کا چیف جسٹس کو خط، 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کرنے کا مطالبہ

خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو عوامی اعتماد حاصل کرنے پر نشانہ بنایا گیا اوربہادر ججز کے اعترافات سپریم کورٹ کے ضمیر پر بوجھ ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے عدلیہ کے اندرونی خوف اور خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سچ جانتے ہیں مگر صرف چائے خانوں میں سرگوشیوں تک محدود ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال مندوخیل کے نام بھی خط لکھ دیا

انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے، جب کہ جو نہیں جھکتا، اس کے خلاف ’احتساب کا ہتھیار‘ استعمال کیا جاتا ہے۔

سیاسی اور قانونی حلقوں نے جسٹس اطہر من اللہ کے اس خط کو عدلیہ کے اندر جاری بے چینی اور 27ویں آئینی ترمیم پر بڑھتے خدشات کی علامت قرار دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ خط ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب عدلیہ کے اندر سے آزادیِ عدلیہ کے تحفظ کے مطالبات تیزی سے ابھر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم جسٹس اطہر من اللّٰہ جسٹس یحییٰ آفریدی خود احتسابی ذوالفقار علی بھٹو سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ،27ویں آئینی ترمیم لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی
  • بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط
  • ’عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں‘ جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو لکھا خط منظر عام پر
  • 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
  • 27ویں آئینی ترمیم پر سینئر وکلا ‘حاضر اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط
  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت آئینی عدالت پر جسٹس منصور کے دلچسپ ریمارکس پر قہقہے
  • 27ویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا
  • ستائیسویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا
  • ستائیسویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ