این ایف سی فارمولا تبدیل کے بغیر وفاق اضافی فنڈز کیسے استعمال کرسکتا ہی سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مئی2025ء)سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت سپر ٹیکس کیس میں ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی نے دلائل مکمل کرلیے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جب تک این ایف سی فارمولا تبدیل نہیں ہوتا تب تک وفاق اضافی فنڈز کیسے استعمال کرسکتا ہی کچھ پتہ نہیں کہ پلان کیا تھا، ہوا میں پیسے آئے اور ہوا میں ہی چلے گئے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت ایف بی آر وکیل رضا ربانی عدالت میں پیش ہوئے اور مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے پیش کیے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے رضا ربانی سے استفسار کیا کہ سینیٹ کی سپر ٹیکس کے حوالے سے کیا رائے ہی رضا ربانی نے موقف اختیار کیا کہ سینیٹ کو سپر ٹیکس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔(جاری ہے)
ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن کو روسٹرم پر بلا لیا۔جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ عدالت کو حقائق بتائیں کہ سپر ٹیکس سے کتنا پیسہ اکٹھا ہوا اور کتنا خرچ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپر ٹیکس کی مد میں 114 ارب روپے اکٹھے ہوئے، وفاق نے 117 ارب خرچ کیے، جتنا وفاق کا حصہ تھا، اس سے زیادہ خرچ کیا۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ وفاق صرف اپنا شیئر خرچ کر سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں، پورے ملک سے پیسہ اکٹھا کرکے ایک مخصوص ایریا میں کیوں خرچ کیا جائی جب تک این ایف سی فارمولہ تبدیل نہیں ہوتا تب تک وفاق اضافی فنڈز کیسے استعمال کرسکتا ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ کے بیان سے میں مطمن نہیں ہوں، وفاقی حکومت بھی اضافی اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتی، ڈیولپمنٹ فنڈز بھی کسی اسکیم کے تحت ہی خرچ ہوتے ہیں، پلان کیا تھا کچھ پتہ نہیں، ہوا میں پیسے آئے، ہوا میں چلے گئے۔ایف بی آر کی وکیل عاصمہ حامد نے موقف اختیار کیا کہ آئین بنانے والوں نے آئین میں اس ٹیکس کے حوالے سے واضح کر دیا ہے۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس عائد کیسے کیا جاتے ہے، کیا یہ عام شہریوں پر عائد ہوتا ہی وکیل نے کہا یہ جنرل ٹیکس ہے جو لوکل اتھارٹیز سے جمع کیا جاتاہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 19 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے تمام ہائیکورٹس سے سپر ٹیکس سے متعلق مقدمات سپریم کورٹ بھجوانے کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ بتایا جائے کہ کیا ہائیکورٹس نے کیسز کے بارے میں تمام فریقین کو آگاہ کیا ۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل جسٹس جمال مندو مندو خیل نے سپریم کورٹ ایف بی آر سپر ٹیکس ہوا میں کیا کہ
پڑھیں:
عمران خان کی ضمانت کیس کی سماعت 12 اگست کو سپریم کورٹ میں ہوگی
اسلام آباد — سپریم کورٹ آف پاکستان نے 12 اگست کو سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی ضمانت سے متعلق اپیلوں کی سماعت طے کر دی ہے۔ یہ اپیلیں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہیں جس میں 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں عمران خان کو ضمانت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ، جس میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں، منگل کے روز اس کیس کو سنیں گے۔ اس سے پہلے سماعت اس لیے ملتوی کر دی گئی تھی کیونکہ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں دستیاب نہیں تھے۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 24 جون کو 9 مئی کے واقعات سے جڑے آٹھ مقدمات میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان مقدمات میں لبرٹی چوک پر عسکری ٹاور پر حملہ، ماڈل ٹاؤن میں ن لیگ کے دفاتر پر حملہ، شادمان تھانے پر حملہ، کور کمانڈر ہاؤس کے قریب پولیس گاڑیاں جلانا اور شیرپاؤ پل پر تشدد کے الزامات شامل ہیں۔
عمران خان نے مؤقف اپنایا ہے کہ ان پر تشدد کی منصوبہ بندی اور اس میں سہولت کاری کا الزام اس وقت لگایا گیا جب وہ نیب کی حراست میں تھے، اس لیے ان کا ملوث ہونا ممکن ہی نہیں۔ اپیل میں یاد دہانی کرائی گئی کہ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر کوئی ملزم جائے وقوعہ پر موجود نہ ہو تو اس کا کیس کمزور ہوتا ہے۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام مقدمات سیاسی انتقام کا حصہ ہیں، جن کا مقصد عمران خان کو جیل میں رکھنا اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ استغاثہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں جو انہیں واقعات سے جوڑ سکے۔ مزید کہا گیا کہ پولیس نے تاخیر سے متنازع بیانات شامل کیے، جن کی کوئی معقول وضاحت نہیں دی گئی، اور ہر بار استغاثہ نے اپنا مؤقف اس وقت بدلا جب پچھلا بیانیہ عدالت میں کمزور پڑ گیا۔
عمران خان کی قانونی ٹیم کے مطابق یہ تضادات اور شواہد میں موجود خامیاں اس کیس کو مزید تفتیش کا مستحق بناتی ہیں اور قانون کی رو سے ضمانت دینے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔
Post Views: 3