پاکستان میں جیت کے جشن ہیں اور بھارت میں سوگ۔یہی صورتحال یہ وضع کرنے کے لیے کافی ہے کہ کون جیتا اور کون ہارا ہے۔ مجھے 2019 میں اس وقت کے وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی کے الفاظ یاد آرہے ہیں کہ میں کیا کروں ، کیا میں بھارت پر حملہ کردوں۔
وہ اس وقت کے قائد حزب اختلاف سے قومی اسمبلی میں پوچھ رہے تھے کہ مودی میرا فون نہیں اٹھا رہا میں کیا کروں بھارت پر حملہ کر دوں۔ تب بھی بھارت پاکستان پر حملہ کر چکا تھا۔ اس نے ایک سرجیکل اسٹرائیک کر دی ہوئی تھی ۔ ہم نے اگلے دن اس کا ایک جہاز گرا لیا ہوا تھا اور پھر بھی ہمارے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں پھولے ہو ئے تھے۔
اس کے مقابلے میں 2025مئی کا منظر نامہ آپ کے سامنے ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ہیں، وہ تو کسی سے نہیں پوچھ رہے تھے کہ کیا میں بھارت پر حملہ کردوں۔انھیں حملہ کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ آج بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی اپنے قومی خطاب میں کہہ رہا ہے کہ پاکستان نے بھارت پر حملہ کر دیا۔
اس حملہ کی اجازت کے لیے کوئی قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ کوئی اجازت طلب نہیں کی گئی۔ جب وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور پاکستان کی مسلح افواج نے دیکھا کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے، پاکستان کی سالمیت خطرہ میں ہے۔انھوں نے کسی کی اجازت کے بغیر دشمن پر حملہ کر دیا۔ یہی ایک وزیر اعظم کا فرض ہے کہ وہ جب دیکھے کہ ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے تو دلیرانہ فیصلے کرے، ادھر ادھر چھپتا نہ پھرے۔ میں 2025 کا 2019 سے موازنہ کرتا ہوں۔ دونوں دفعہ ایک جیسے حالات تھے۔
دونوں دفعہ بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی تھی۔ لیکن آپ صورتحال کے فرق کا انداذۃ کریں۔ 2019میں دنیا بھارت کے ساتھ کھڑی نظر آرہی تھی۔ پاکستان دباؤ میں تھا۔ پاکستان کو خاموش رہنے کا سبق دیا جا رہاتھا۔ بھارت کی جارحیت کے حق کو تسلیم کیا جا رہا تھا۔ آج فرق دیکھیں وہی بھارت ہے، وہی صورتحال ہے لیکن بھارت سے نبٹنے کے طریقہ کار میں کس قدر فرق ہے، اس فرق کو سمجھنے سے حکومت کا فرق، وزیر اعظم کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فرق آپ کو سمجھ آجائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت میں پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد پہلی دفعہ سفارتی محاذ پر کامیابی حاصل کی۔
سفارتی محاذ پر حاصل کی گئی فتح نے میدان جنگ میں فتح کے لیے راہ ہموار کی۔ آج بھارت میں کیا رونا رویا جا رہا ہے کہ ساری دنیا پاکستان کے ساتھ تھی۔ بھارت کے ساتھ نیپال کے سوا کوئی ملک نہیں تھا۔ آپ بھارتی میڈیا دیکھیں وہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔ بھارت تنہا تھا۔ بھارت میں ماتم ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ترکی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہاں ماتم ہے کہ یہ پاکستان کی کیسی خارجہ پالیسی ہے کہ امریکا کا جھکاؤ پاکستان کی طرف نظر آرہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پہلگام واقعہ کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے مطالبہ نے عالمی رائے عامہ بدلی۔ جب پاکستان نے عالمی طاقتوں کو پیشکش کی کہ آپ غیر جانبدارانہ تحقیقات کر لیں ہم ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ اگر ہمارا قصور ہو تو بھارت کو جارحیت کی اجازت ہونی چاہیے۔ دوسری طرف بھارت شفاف، غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے سفارتی محاذ پر دنیا پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے شفاف تحقیقات کے مطالبہ نے عالمی رائے عامہ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سفارتی محاذ پر کامیابی کے بعد پاکستان نے دنیا سے یہ نہیں کہا کہ بھارت کو پاکستان پر حملہ سے روکیں۔ پاکستان کا موقف تھا کہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو ہم سخت جواب دیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کی دنیا کے جن ممالک اور اہم رہنماؤں سے بات ہوئی انھوں نے کسی کو یہ نہیں کہا کہ بھارت کو حملہ سے روکیں۔ بلکہ یہی کہا گیا کہ اگر بھارت نے حملہ کیا ، کوئی بھی جارحیت کی تو ہم سخت جواب دیں گے۔
ہم نے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم ایک کاجواب دو سے دیں گے۔ یہ ایک مضبوط موقف تھا۔ دنیا کو سمجھ آئی کہ پاکستان ہم سے کوئی مدد نہیں مانگ رہا بلکہ پاکستان جنگ کے لیے تیار ہے۔ جب ہم جنگ کے لیے تیار تھے تو دنیا نے ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہمیں بھارت کے مقابلے میں کمزور نہیں دیکھا گیا ، ہمیں برابر دیکھا گیا۔ اسی لیے امریکی صدر نے کہا کہ TIT FOR TATہو گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان بھی پورا جواب دے گا۔ دنیا پاکستان کے جواب کے لیے تیار تھی۔ دنیا کو پتہ تھا پاکستان جواب دے گا۔ ہمارے کچھ دوست بلا وجہ تنقید کر رہے ہیں کہ شہباز شریف خاموش رہے۔
یہی تو چیئرمین پی ٹی آئی اور شہباز شریف میں فرق ہے۔ آپ اس فرق کو سمجھیں گے تو آپ کو دونوں شخصیات کے فرق کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی تقریر اور شہباز شریف کے عملی اقدامات۔ اس وقت مقابلہ یہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس ساری جنگی کیفیت میں پاکستان کا وزیر اعظم سب کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ سیکیورٹی کے اجلاس کر رہا تھا۔ پاک فوج کے ساتھ کھڑا تھا۔ کوئی فاصلہ نہیں تھا۔ ملک کے دفاع کے لیے سب قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے۔ جنگ کی تیاری بھی تھی اور ملک میں جنگ کا ماحول بھی نہیں تھا، عوام میں کوئی ہیجان نہیں تھا، کوئی پریشانی نہیں تھی۔ کیونکہ عوام کو اعتماد تھا کہ ملک کی قیادت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ عوام کو تقریروں سے مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ شہباز شریف کے اقدامات اور اس کی پالیسی بول رہی ہے کہ پاکستان نے بھارت کو شکست دے دی ہے۔
ایک تقریروں والا وزیر اعظم تھا، دوسرا کام والا وزیر اعظم ہے۔ اس فرق کو سمجھیںگے تو سب سمجھ آجائے گا۔ سیز فائر کے بعد بھی پاکستان کو عالمی سفارتکاری میں فتح نظرآرہی ہے۔ امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ امریکی صدر کے بیانات پاکستان کے موقف کے قریب ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر نظر آرہا ہے۔ صدر ٹرمپ کشمیر کو ایک حل طلب مسئلہ مان رہے ہیں۔ یہ سب شہباز شریف نے کسی تقریر کے بغیر کیا ہے۔
آج دنیا پاکستان کی بات کر رہی ہے۔ ہمیں کوئی بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ اس جنگ میں پاکستانی فوج اور فضائیہ جس دلیری سے لڑی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وزیر اعظم اور فوج کے درمیان ایک بہترین انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ آج وزیر اعظم پاک فوج کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ اور پاک فوج وزیر اعظم کی تعریف کرتے تھک نہیں رہی۔ پاکستان اسی منظر کی تو تلاش میں تھا۔ مل کر پاکستان کا دفاع کرنا ہی ہمارا خواب تھا اور آج ہم اس کی عملی شکل دیکھ رہے ہیں۔
تاریخ میں شہباز شریف ایک فاتح وزیر اعظم کے طور پر جانے جائیں گے، ان کی قیادت میں پاکستان نے بھارت کو شکست دی ہے۔ اس لیے تاریخ میں شہباز شریف کو ایک فاتح وزیر اعظم کے طورپر لکھا اور جانا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وزیر اعظم شہباز شریف بھارت پر حملہ کر دنیا پاکستان کے پاکستان کے ساتھ سفارتی محاذ پر کے ساتھ کھڑا کے لیے تیار کہ پاکستان پاکستان نے پاکستان کی پاکستان پر بھارت میں کی اجازت نے بھارت بھارت کو نہیں تھا ا رہا ہے رہے ہیں کہا کہ فرق کو ہیں کہ
پڑھیں:
وزیر اعظم شہباز شریف نے شہداء پیکیج کا اعلان کر دیا
وزیر اعظم شہباز شریف : فوٹو فائل
وزیر اعظم شہباز شریف نے شہداء پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حملے میں متاثر گھروں اور مساجد کی تعمیر وفاقی حکومت کرے گی۔
اپنے بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ شہداء کے بچوں کی کفالت حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم یہ فرض پورا کریں گے۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ معرکہ حق کے زخمیوں کے علاج کا تمام خرچ وفاقی حکومت اٹھائے گی۔ دفاع وطن کیلئے خدمات سر انجام دینے والوں کا اعتراف قومی سطح پر کیا جائے گا۔ دفاع پاکستان میں کسی بھی محاذ پر خدمات سر انجام دینے والوں کو اعزازات سے نوازا جائے گا۔
آئی ایس پی آر نے معرکہ حق 22 اپریل سے 10 مئی 2025 کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ عسکری تنازع
شہباز شریف نے کہا کہ پاک فوج کے شہداء کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ تک مکمل تنخواہ اور الاؤنسز جاری رہیں گی۔ پاک افواج کے شہداء کے بچوں کو گریجویشن تک مفت تعلیم دی جائے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاک فوج کے ہر شہید کی ایک بیٹی کی شادی کیلئے 10 لاکھ روپے میرج گرانٹ دی جائے گی۔ پاک افواج کے زخمیوں کو 20 لاکھ سے 50 لاکھ روپے فی کس دیے جائیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہر سال 10 مئی کو یوم معرکۂ حق منایا جائے گا، جمعےکو افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کے دن کےطور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔