امریکی صدر کا دورہِ سعودی عرب پاکستان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے بین الاقوامی دورے کے اوپر اس وقت سعودی عرب میں ہیں۔ یہ دورہ جہاں مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے لیے اہم ہیں، وہیں ملحقہ علاقائی تناظر میں بھی اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
اس دورے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ، اقتصادی تعاون اور جغرافیائی سیاست کے حوالے سے اہم اُمور زیر بحث آئے۔
دہشتگردی کے خلاف تعاوناس دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے سعودی سرمایہ کاری فورم 2025 سے خطاب کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے تعاون کے ضمن میں پاکستانی کاوشوں کی تعریف کی۔ اُنہوں ایبٹ آباد آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔
یہ بیان جہاں پاکستان کے خلاف بھارتی بیانیے کی صریحاً نفی کرتا ہے، وہیں پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کو بھی عیاں کرتا ہے۔ جس طرح سے بھارت نے پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر سے پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دلوانے کی کوششیں کیں، مذکورہ بیان ثابت کرتا ہے کہ دنیا اور بشمول بڑی طاقتیں بھارت کے مؤقف کو تسلیم نہیں کرتیں۔
امریکا اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعاون پاکستان کے لیے فائدہ مند؟سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے کے دیرینہ ساتھی اور قریبی تعلقات کے حامل ملک ہیں۔ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان 600 ارب ڈالر سرمایہ کاری اور 300 ارب ڈالر سے زائد کے اقتصادی معاہدات ہوئے ہیں۔
یہ معاہدات جب عملی شکل اختیار کریں گے تو مختلف منصوبوں کی صورت میں یہ پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہو سکتے ہیں۔ یہ پاکستانی افرادی قوّت اور ہنرمند افراد کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کے لیے یقیناً سعودی عرب امریکی مؤقف کی تائید کرے گا، ایمبیسڈر مسعود خالدایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے جب سعودی عرب میں کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے سربراہان کو کھانے پر بلا کر کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کر سکتے ہیں تو یہ بیان پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ اور یقیناً اس سلسلے میں سعودی ولی عہد سے بھی انہوں نے بات کی ہو گی اور ممکنہ طور پر اگر کوئی بات چیت ہوتی ہے تو سعودی ولی عہد اس کا حصہ ہوں گے اور سعودی عرب امریکی مؤقف کی تائید کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے صدر ٹرمپ کے بیانات میں پاکستان کے حوالے سے یہ سلور لائننگ نظر آتی ہے۔ مسعود خالد کے مطابق امریکی صدر اس وقت اپنے 3 اتحادی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے دورے پر ہیں۔ یہ تینوں ممالک سعودی عرب کے تزویراتی اتحادی ہیں۔ اور دورے کا مقصد مشرق وسطیٰ کے ان اہم ممالک کے ساتھ سیکیورٹی امور پر بات چیت ہے۔ اور ممکنہ طور پر ایران جوہری ڈیل اور فلسطینی تنازعے کے حوالے سے بات چیت بھی ہو سکتی ہے۔
مسعود خالد کے مطابق صدر ٹرمپ نے اس دورے میں اسرائیل کو شامل نہیں کیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی مضبوطی میں کمی آئی ہے۔ اور ممکن ہے ٹرمپ کچھ وقت کے لیے ابراہم اکارڈ کو ایک سائیڈ پہ رکھ دیں۔ لیکن جلد ہی وہ اسرائیل کا دورہ کر سکتے ہیں۔
امریکا اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کے نئے راستے کھول سکتے ہیں: سعودی صحافیجدہ میں سعودی میڈیا سے وابستہ صحافی نے صدر ٹرمپ کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا ہونا محض سفارتی علامت نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی اور جغرافیائی معنویت رکھتا ہے۔
اس دورے نے واضح کیا ہے کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اپنی پالیسیوں کا محور سعودی عرب کو تسلیم کرتا ہے، اور ریاض کو خطے میں استحکام، امن اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک مرکزی شراکت دار تصور کرتا ہے۔
سعودی قیادت نے اس دورے کو نہایت وقار، فہم و فراست اور وسعتِ نظری سے خوش آمدید کہا، جس کے نتیجے میں نہ صرف عسکری، تجارتی اور توانائی کے شعبوں میں معاہدے طے پائے بلکہ بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب نے خود کو ایک ذمہ دار، اتحاد ساز قوت کے طور پر پیش کیا۔
اس دورے نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ سعودی عرب امن، ترقی اور اعتدال کے عالمی ایجنڈے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
بیشک سعودی وژن 2030 کا بنیادی ستون ہی یہی ہے کہ عالمی شراکت داریوں کے ذریعے مقامی و بین الاقوامی انسانی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ ایک ٹریلین ڈالر کے قریب تجارتی و سرمایہ کاری معاہدے صرف سعودی معیشت کو نہیں بلکہ پورے خطے اور دنیا بھر سے آنے والے ہنرمندوں، ماہرین اور سرمایہ کاروں کو مواقع فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے برادر ملک کے شہری جو پہلے ہی سعودی معیشت میں ایک قابل قدر کردار ادا کر رہے ہیں، اس نئے دور میں مزید اہمیت اختیار کریں گے۔ تعلیم، صحت، انفرا اسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور سیاحت کے شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی افرادی قوت کو نہ صرف روزگار ملے گا بلکہ اعلیٰ تربیت، شراکت داری اور ترقی کے مواقع بھی حاصل ہوں گے۔
یقیناً سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات محض سفارتی نہیں بلکہ تہذیبی، دینی، عسکری اور عوامی بنیادوں پر استوار ہیں۔ جب بھی سعودی عرب کسی عالمی طاقت سے مضبوط شراکت داری استوار کرتا ہے، تو اس کا ایک مثبت اثر پاکستان جیسے برادر ممالک پر بھی پڑتا ہے۔
امریکا اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات ایک ایسا پل ثابت ہو سکتے ہیں جو واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان مفاہمت، تعاون اور اعتماد کے نئے راستے کھولے۔ سعودی عرب ماضی میں بھی مختلف مواقع پر پاکستان کے مفادات کی عالمی سطح پر مؤثر نمائندگی کرتا رہا ہے، اور مستقبل میں بھی یہ کردار سفارتی حکمت عملی کے ساتھ مزید مؤثر ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے لیے اور سعودی عرب سعودی عرب کے سرمایہ کاری مسعود خالد امریکی صدر کے درمیان سکتے ہیں کرتا ہے بات چیت کہا کہ
پڑھیں:
سعودی عرب میں ملازمت کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے خوشخبری
سعودی عرب میں بلیو کالر ملازمت حاصل کرنے کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ پہلی بار راولپنڈی میں سعودی عرب کی ملازمتوں کے لیے ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا، جس میں 20 امیدواروں کی اسسمنٹ مکمل کی گئی۔
اس ٹیسٹ میں **موٹر سائیکل، کار اور ٹیکسی ڈرائیورز** نے شرکت کی اور انہوں نے کمپیوٹر بیسڈ اور عملی (پریکٹیکل) دونوں اقسام کے ٹیسٹ دیے۔
ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو سعودی کمپنی “تکامل ہولڈنگ” کی جانب سے باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا، جس کی بنیاد پر وہ سعودی عرب میں بلیو کالر جابز کے لیے اہل قرار پائیں گے۔
اس عمل کی نگرانی لائسنس برانچ کے اسسمنٹ انچارج، نیفڈیک نمائندوں اور دیگر متعلقہ افسران نے کی۔
سٹی ٹریفک آفیسر فرحان اسلم نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بیرونِ ملک روزگار کے متلاشی افراد کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔
انہوں نے عملے کو شفاف اور کامیاب ٹیسٹ کے انعقاد پر مبارکباد دی اور کہا کہ سٹی ٹریفک پولیس شہریوں کو بہتر سہولیات دینے کے لیے پرعزم ہے۔
فرحان اسلم نے شہریوں سے اپیل کی کہ **قانونی راستہ اختیار کریں** اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ قدم نوجوانوں کے لیے روشن مستقبل کی جانب ایک عملی راستہ فراہم کرتا