اسلام ٹائمز: اربعین نے ثابت کیا کہ عام شیعہ نہ مقصر ہے نہ غالی و نصیری بلکہ معتدل حسینی ہے۔ اربعین نے غالی نصیری کا رٹہ لگا لگا کر قوم کو تقسیم کرکے اپنی دکان چمکانے والے کچھ نام نہاد مولویوں ذاکروں کو کان سے پکڑ کر تشیع کی صف سے باہر پھینک دیا ہے۔ اربعین نے کلمۃ حق ارید بھا الباطل والوں کو حسینی شعائر کے اسلحہ سے خلعِ سلاح کیا۔ اب وہ مجبور ہیں کہ اپنی الگ خدائی باقی رکھنے کیلئے مسلمات کے مقابلہ میں اپنے الگ زمان و مکان و پروگرامز بناکر اپنی تشفی کریں۔ تحریر: محمد اقبال بہشتی
وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔
(سورۃ بقرہ آیۃ 51)
وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس (راتوں) کا اضافہ کرکے پورا کردیا تو اس کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا پورا ہوگیا۔
(سورۃ اعراف آیۃ 142)
اربعین ایک قرآنی حقیقت ہے جس کا انبیاء علیہ السلام کے واقعات میں مسلسل ذکر ملتا ہے۔ اربعین پر اہلبیت علیہ السلام نے اتنی جو تاکید کی ہے اس میں یقینا عظیم فلسفہ ہے۔ اربعین (40) عدد تکمیل ہے۔ اربعین تکمیلِ عاشورہ و کربلا ہے۔ اربعین فتح زینبی اور تکمیل انقلاب حسینی ہے۔ اربعین انفرادی عمر عقل اور شعور کےساتھ ساتھ اجتماعی نھضت، تحریک اور بیداری کو بھی کمال تک پہنچاتا ہے۔ اربعین ظلم کی چکی میں پسی ہوئی قوم کے دوبارہ اٹھنے کا نام ہے۔ اربعین درندوں کے حملوں سے منتشر و تار و مار قوم کے دوبارہ مجتمع و منظم ہونے کا نام ہے۔ اربعین یاس ورجاء ہے یعنی دشمن کو مایوس کرنے اور دوستوں کو امید دلانے کا نام ہے۔ اربعین یزیدیوں کے منہ پر تھپڑ اور حسینیوں کے پشت پر تھپکی کا نام ہے۔ اربعین شیطانی شرارتوں پراپیگنڈوں اور وسوسوں کا گلا گھونٹ اور پیامِ حسینی کی بانگ و اذاں ہے۔ اربعین عاشورہ کے وقت تذبذب و گومگو کے شکار افراد کیلئے حق و باطل کے درمیان واضح فرقان و خط فاصل ہے۔ اربعین نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کی واضح اکثریت حسینی ہے اور یزیدی ناقابل اعتناء اقلیت اور پانی کے اوپر جھاگ ہے۔
اربعین نے ثابت کیا کہ عام شیعہ نہ مقصر ہے نہ غالی و نصیری بلکہ معتدل حسینی ہے۔ اربعین نے غالی نصیری کا رٹہ لگا لگا کر قوم کو تقسیم کرکے اپنی دکان چمکانے والے کچھ نام نہاد مولویوں ذاکروں کو کان سے پکڑ کر تشیع کی صف سے باہر پھینک دیا ہے۔ اربعین نے کلمۃ حق ارید بھا الباطل والوں کو حسینی شعائر کے اسلحہ سے خلعِ سلاح کیا۔ اب وہ مجبور ہیں کہ اپنی الگ خدائی باقی رکھنے کیلئے مسلمات کے مقابلہ میں اپنے الگ زمان و مکان و پروگرامز بناکر اپنی تشفی کریں۔ اربعین حسینیوں کا بےمثال عالمی اجتماع اور عظیم سیاسی طاقت ہے۔ اربعین ظہور و انقلاب مہدی علیہ السلام کی ابتداء ہے۔ اربعین مشئ (واک و پیادہ رَوِی) عالمی حکومت عدل کیلئے سپاہ و جیش مہدی علیہ السلام کی عظیم تیاری و ایکسرسائز ہے۔ اربعین قومی وحدت کی معراج ہے۔ اربعینی برکات کے یہ صرف چند نمونے ہیں جو کہ "قطرہ از دریا" کا مصداق ہیں۔
آج کل پاکستان اور دنیا بھر میں مختلف مناسبتوں سے واک اور پیادہ روی کی جاتی ہے۔ مثلاً صحت واک، ہارٹ پیشنٹ کا واک، امن واک، صفائی واک، آلودگی کیخلاف واک، فلان رسم کی حمایت یا خلاف واک، حمایت فلسطین واک، نسلی تعصب کیخلاف واک، دہشتگردی کیخلاف واک، اور اب 14 اگست یا یوم آزادی واک اور یہ واک و پیادہ روی کوئی قانونی، اجتماعی، اخلاقی، سیاسی جرم نہیں بلکہ ان سب کے عین مطابق بلکہ صحت کیلئے بھی مفید و بہترین ہے، ان سب میں انسان آزاد ہے کہ پیدل جائے۔ اس ہی طرح اربعین بھی ایک واک و پیادہ روی ہے، مظلوم کی حمایت واک، ظالم کی مخالف واک، نواسہ رسولؑ کی حمایت واک، حمایت اہلبیت رسولؑ واک۔ یہ کوئی انوکھا اور نیا ایشو نہیں بلکہ 14 سو سال پرانا ہے، سنت اہلبیتؑ و صحابہ کرامؓ و بزرگان دین ہے، باقی ساری واک نئی اور عام لوگوں کی رسم ہیں، لہذا اربعین اور اربعین واک پیادہ روی کو ہمیشہ زندہ، اور منظم اور باوقار اور پرجوش رکھیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علیہ السلام پیادہ روی کا نام ہے حسینی ہے پیادہ ر
پڑھیں:
تکاثر کی جنت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-03-9
باباالف
اور قرآن کی وہ روشن آیات: ترجمہ: ’’کثرت کی خواہش نے تمہیں غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘‘۔
دولت کی کثرت، عہدوں کی کثرت، تمغوں کی کثرت اور زمینوں کی کثرت۔ جنرل (ر) راحیل شریف کو بعداز ریٹائر منٹ ملنے والی 90 ایکڑ زمین کے بارے میں جب اس وقت ہم نے سنا تھا تو ’’تپسیا کا صلہ‘‘ جان کر توجہ نہیں دی تھی لیکن اب نہ جانے کس حوالے سے یہ خبر پھر سامنے آئی اور کراچی والوں کی عادت کے مطابق ہم نے 90 ایکڑ کو گزوں میں ناپا اور یہ تقریباً ساڑھے چار لاکھ گز 435600 مربع گز بنے تو ہم حیران رہ گئے۔ یاخدا! فوج کی نوکری میں ریٹائر منٹ کے بعد بھی اتنا کچھ ملتا ہے۔ ریٹائر منٹ آرام کا، محاسبہ کا زمانہ ہوتا ہے اس کے لیے بھی ریاست کی اتنی زمین کی ضرورت؟؟ اگر اس زمین کو سجدہ گاہ سمجھ لیا جائے تو پوری قوم کی پیشانیاں سجدے میں سمٹ جائیں۔ لیو ٹالسٹائی یاد آگئے۔ ان کی ایک شارٹ اسٹوریHow much land does a man need یاد آگئی۔ تلخیص ملاحظہ کیجیے۔
پیکھم جو گائوں میں ایک چھوٹا سا کسان تھا اس کی بیوی کی بڑی بہن شہر میں ایک مالدار بزنس مین سے بیاہی گئی تھی۔ بڑی بہن گائوں میں اپنی چھوٹی بہن سے ملنے آئی تو اِترا اِترا کر اپنی شہری زندگی کے عیش وآرام اور دولت مندی کے قصے بیان کرتی اور چھوٹی بہن کی گائوں کی غربت زدہ زندگی پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتی رہی۔ بڑی بہن کی شیخیوں اور جامے سے باہر باتوں سے پیکھم کی بیوی ذرا متاثر نہیں ہوئی۔ گائوں کی سادہ اور پر مسرت زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے ’’ہم جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں بہت خوش اور مزے میں ہیں‘‘۔ پیکھم اپنی بیوی اور اس کی بڑی بہن کی باتیں سن رہا تھا، وہ کہتا ہے ’’اگر میری پاس تھوڑی سی زمین بھی ہوتی تو میں دنیا کو دکھا دیتا کہ میں کیا ہوں۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو خوشحالی کی وہ زندگی دیتا کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی۔ پھرمیرا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا حتیٰ کہ شیطان بھی نہیں۔ پیکھم کی یہ بات تنور کے پیچھے بیٹھے شیطان نے سنی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی ’’اتنا بڑا دعویٰ! اچھا بیٹا تو دیکھ اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ تجھے زمین کی خواہش ہے نا تو میں تجھے زمین ہی دونگا اور پھر تجھے اپنے قابو میں کروں گا‘‘۔
پیکھم جس زمیندارنی کی زمین پر کام کرتا تھا شہر منتقل ہونے کے لیے وہ اپنی وسیع وعریض زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں کاٹ کر بیچ رہی تھی۔ پیکھم نے جیسے تیسے کرکے اس سے بیس ایکڑ زمین خریدلی۔ اسے امید تھی کہ وہ اس زمین پر خوب محنت کرے گا اور جلدہی سارے قرضے اُتار دیگا۔ پیکھم کا یہ منصوبہ کامیاب رہا لیکن اس کامیابی نے اسے تند خو بنادیا، اتنا کہ اس کے پڑوسی کسان تنگ آکر اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ پیکھم نے ان کی زمینیں خریدنے کا پروگرام بنایا لیکن اسی دوران اس کے سامنے ایک اور اچھا سودا آگیا۔ ایک دن ایک کسان نے اسے بتایا کہ والگر ایور کے قریب ایک گائوں بس رہا ہے جہاں آباد ہونے والے لوگوں میں سے مردوں کو فی کس 25 ایکڑ زمین دی جارہی ہے۔ پیکھم کے خاندان میں چار افراد تھے جس کا مطلب تھا سو ایکڑ زمین۔ وہ اپنے خاندان کے افراد کو یہاں لے کر آیا تو یہاں کے لوگوں نے اس کا بہت گر مجوشی سے استقبال کیا اور ساتھ ہی سو ایکڑ زمین بھی اسے دیدی۔
اس کامیابی پر پیکھم قانع ہو کر نہیں بیٹھ گیا۔ اسے اور زیادہ زمین کی حرص ہو گئی۔ اس نے سوچا اگر وہ تعلقہ کی زمین پٹے پر لے لے تو زیادہ رقبے پر کاشت کرکے جلد ہی بہت امیر ہو جائے گا۔ ایک زمیندار جو دیوالیہ ہو گیا تھا اپنی زمین اونے پونے بیچ رہا تھا۔۔ وہ یہ سودا کرنے ہی جارہا تھا کہ ایک بیوپاری نے اسے بتایا کہ میں ابھی ابھی ’’بشکر لینڈ‘‘ سے آرہا ہوں جو کہ ایشیا کی طرف ہے وہاںمیں نے ایک ہزار روبل (روسی کرنسی) میں 13 ہزار ایکڑ زمین خریدی ہے۔ وہاں کی زمین بہت زرخیزہے۔ لوگ محنت طلب کاموں سے جی چراتے اور بس عیش کی زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر تم ان کے لیے بہت سارے تحائف لے جائو تو بدلے میں وہ بھی تم سے فیاضی سے پیش آئیں گے۔ پپیکھم کو یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ اپنی بیوی اور بچوں کو وہیں چھوڑ جلد ہی وہ بشکر لینڈ پہنچ گیا۔
تحفے تحائف ملنے پر بشکر لینڈ کے لوگ اس کی دریا دلی سے بہت خوش ہوئے۔ پیکھم نے انہیں زمین خریدنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو ان کے سردار نے کہا ’’فکر مت کرو تمہیں جتنی زمین چاہیے مل جائے گی۔ ہمارے پاس بہت زمین ہے۔ جتنا دور تک تم پیدل جاسکتے ہو اتنی زمین تمہاری ہے۔ ایک دن کا بھائو ایک ہزار روبل ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی تمہارے سفر کا آغاز ہوجائے گا لیکن سورج ڈوبنے سے پہلے تمہیں واپس اسی مقام تک آنا پڑے گا جہاں سے تم نے شروع کیا تھا۔ اگر تم ایسانہ کرسکے تو تمہارے ایک ہزار روبل ڈوب جا ئیں گے‘‘۔ پیکھم بخوشی تیار ہوگیا۔ صبح جلد اٹھنے کی خوشی میں بمشکل اسے نیند آئی۔ اس نے خواب میں دیکھاکہ بشکر سردار، وہ بیوپاری جس نے اسے بشکر لینڈ سے متعلق آگاہ کیا تھا اور وہ کسان جو اپنی زمینیں فروخت کررہا تھا تینوں شیطان کی صورت میں ڈھل گئے۔ وہ اپنے سامنے پڑی ایک آدمی کی ننگی لاش پر ہنس رہے ہیں جو کہ اسی کی لاش تھی۔ صبح جب وہ نکلا تو اس کے ذہن میں خواب کہیں موجود نہیں تھا۔
بشکر لینڈ کے لوگوں کے ہلّے گلّے اور سردار کی موجودگی میں نقطہ ٔ آغاز پر جھنڈا گاڑ کر پیکھم نے اپنی دوڑ کا آغاز کیا۔ شروع میں وہ بہت تیز دوڑا۔ وہ جانتا تھا کہ صبح کا وقت ہے گرمی زیادہ نہیں وہ پوری طاقت سے دوڑ سکتا ہے۔ دو سے ڈھائی گھنٹے میں دس میل کا فاصلہ سیدھا طے کرکے وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اسے الٹے ہاتھ مڑنا تھا۔ آہستہ آہستہ سورج کی حدت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ پیکھم کی ہمت کم ہونے لگتی ہے۔ تھوڑا کھاپی کرد وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ اُلٹے ہاتھ آٹھ میل کے برابر طے کرنے کے بعد اس کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ سورج عین اس کے سر کے اوپر چمک رہا تھا۔۔ آٹھویں میل سے ہی وہ واپس مڑنے کا سوچتا ہے کہ اس سے زیادہ کی اس میں ہمت نہیں تھی لیکن زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش میں وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔
گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک وہ برابر دوڑتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں پسینے سے شرابور ہونے کے ساتھ ساتھ چکر اور بدحواسی بھی اسے آلیتی ہے۔ وہ پھر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اسے لگنے لگتا ہے کہ نقطہ ٔ آغاز پر واپس پہنچنا اب ناممکن ہے لیکن پھر بھی زندگی میں ملنے والے اس نادر موقع کو وہ کھونا نہیں چاہتا۔ وہ بھاگتا ہے۔ پوری ہمت کے ساتھ وہ واپس دوڑتا ہے حتیٰ کہ اسے وہ پہاڑی، بشکر لینڈ کے لوگ اور جھنڈا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسے کامیابی کی امید ہونے لگتی ہے وہ سوچتا ہے کہ چونکہ اب وہ مجھے دکھنے لگے ہیں لہٰذا میں پہنچ جائوں گا۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے بدن کی تمام طاقت کو استعمال کرکے اس مرحلے کے پار بھی پہنچے گا۔ جسم وجان کی پوری طاقت کے ساتھ۔ وہ دوڑتا ہے، وہ دوڑتا ہے وہ اور دوڑتا ہے۔ آخر کار وہ نقطہ ٔ آغاز پر پہنچ جاتا ہے لیکن اس وقت جب سورج ڈھل چکا ہوتا ہے۔ پھر بھی وہ دیکھتا ہے کہ اب بھی سارے بشکی اس کی ہمت بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ پہاڑی کی اونچائی پر سورج ڈھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اپنی تمام طاقت مجتمع کرکے بالآخر وہ پہاڑی کے نقطہ ٔ آغاز پر پہنچ کر، بے دم ہوکر گر پڑتا ہے۔ سب لوگ اس کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں۔ جب وہ پیکھم کو سیدھا کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کے منہ سے خون کی دھار بہہ رہی ہے۔ اس کی سانسیں ختم ہوچکی ہیں۔ وہ زندگی کو الوداع کہہ چکا ہے۔ اس کے ہاتھ سے کدال الگ کر لی جاتی ہے۔ سردار کی صدا گونجتی ہے ’’اس کی قبر کھود دو اسے صرف دوگز زمین کی ضرورت تھی‘‘۔