Islam Times:
2025-08-13@12:20:02 GMT

اربعین کی حقیقت و اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

اربعین کی حقیقت و اہمیت

اسلام ٹائمز: اربعین نے ثابت کیا کہ عام شیعہ نہ مقصر ہے نہ غالی و نصیری بلکہ معتدل حسینی ہے۔ اربعین نے غالی نصیری کا رٹہ لگا لگا کر قوم کو تقسیم کرکے اپنی دکان چمکانے والے کچھ نام نہاد مولویوں ذاکروں کو کان سے پکڑ کر تشیع کی صف سے باہر پھینک دیا ہے۔ اربعین نے کلمۃ حق ارید بھا الباطل والوں کو حسینی شعائر کے اسلحہ سے خلعِ سلاح کیا۔ اب وہ مجبور ہیں کہ اپنی الگ خدائی باقی رکھنے کیلئے مسلمات کے مقابلہ میں اپنے الگ زمان و مکان و پروگرامز بناکر اپنی تشفی کریں۔ تحریر: محمد اقبال بہشتی

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً

اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔
 (سورۃ بقرہ آیۃ 51)

وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس (راتوں) کا اضافہ کرکے پورا کردیا تو اس کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا پورا ہوگیا۔
(سورۃ اعراف آیۃ 142)


اربعین ایک قرآنی حقیقت ہے جس کا انبیاء علیہ السلام کے واقعات میں مسلسل ذکر ملتا ہے۔ اربعین پر اہلبیت علیہ السلام نے اتنی جو تاکید کی ہے اس میں یقینا عظیم فلسفہ ہے۔ اربعین (40) عدد تکمیل ہے۔ اربعین تکمیلِ عاشورہ و کربلا ہے۔ اربعین فتح زینبی اور تکمیل انقلاب حسینی ہے۔ اربعین انفرادی عمر عقل اور شعور کےساتھ ساتھ اجتماعی نھضت، تحریک اور بیداری کو بھی کمال تک پہنچاتا ہے۔ اربعین ظلم کی چکی میں پسی ہوئی قوم کے دوبارہ اٹھنے کا نام ہے۔ اربعین درندوں کے حملوں سے منتشر و تار و مار قوم کے دوبارہ مجتمع و منظم ہونے کا نام ہے۔ اربعین یاس ورجاء ہے یعنی دشمن کو مایوس کرنے اور دوستوں کو امید دلانے کا نام ہے۔ اربعین یزیدیوں کے منہ پر تھپڑ اور حسینیوں کے پشت پر تھپکی کا نام ہے۔ اربعین شیطانی شرارتوں پراپیگنڈوں اور وسوسوں کا گلا گھونٹ اور پیامِ حسینی کی بانگ و اذاں ہے۔ اربعین عاشورہ کے وقت تذبذب و گومگو کے شکار افراد کیلئے حق و باطل کے درمیان واضح فرقان و خط فاصل ہے۔ اربعین نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کی واضح اکثریت حسینی ہے اور یزیدی ناقابل اعتناء اقلیت اور پانی کے اوپر جھاگ ہے۔

اربعین نے ثابت کیا کہ عام شیعہ نہ مقصر ہے نہ غالی و نصیری بلکہ معتدل حسینی ہے۔ اربعین نے غالی نصیری کا رٹہ لگا لگا کر قوم کو تقسیم کرکے اپنی دکان چمکانے والے کچھ نام نہاد مولویوں ذاکروں کو کان سے پکڑ کر تشیع کی صف سے باہر پھینک دیا ہے۔ اربعین نے کلمۃ حق ارید بھا الباطل والوں کو حسینی شعائر کے اسلحہ سے خلعِ سلاح کیا۔ اب وہ مجبور ہیں کہ اپنی الگ خدائی باقی رکھنے کیلئے مسلمات کے مقابلہ میں اپنے الگ زمان و مکان و پروگرامز بناکر اپنی تشفی کریں۔ اربعین حسینیوں کا بےمثال عالمی اجتماع اور عظیم سیاسی طاقت ہے۔ اربعین ظہور و انقلاب مہدی علیہ السلام کی ابتداء ہے۔ اربعین مشئ (واک و پیادہ رَوِی) عالمی حکومت عدل کیلئے سپاہ و جیش مہدی علیہ السلام کی عظیم تیاری و ایکسرسائز ہے۔ اربعین قومی وحدت کی معراج ہے۔ اربعینی برکات کے یہ صرف چند نمونے ہیں جو کہ "قطرہ از دریا" کا مصداق ہیں۔

آج کل پاکستان اور دنیا بھر میں مختلف مناسبتوں سے واک اور پیادہ روی کی جاتی ہے۔ مثلاً صحت واک، ہارٹ پیشنٹ کا واک، امن واک، صفائی واک، آلودگی کیخلاف واک، فلان رسم کی حمایت یا خلاف واک، حمایت فلسطین واک، نسلی تعصب کیخلاف واک، دہشتگردی کیخلاف واک، اور اب 14 اگست یا یوم آزادی واک اور یہ واک و پیادہ روی کوئی قانونی، اجتماعی، اخلاقی، سیاسی جرم نہیں بلکہ ان سب کے عین مطابق بلکہ صحت کیلئے بھی مفید و بہترین ہے، ان سب میں انسان آزاد ہے کہ پیدل جائے۔ اس ہی طرح اربعین بھی ایک واک و پیادہ روی ہے، مظلوم کی حمایت واک، ظالم کی مخالف واک، نواسہ رسولؑ کی حمایت واک، حمایت اہلبیت رسولؑ واک۔ یہ کوئی انوکھا اور نیا ایشو نہیں بلکہ 14 سو سال پرانا ہے، سنت اہلبیتؑ و صحابہ کرامؓ و بزرگان دین ہے، باقی ساری واک نئی اور عام لوگوں کی رسم ہیں، لہذا اربعین اور اربعین واک پیادہ روی کو ہمیشہ زندہ، اور منظم اور باوقار اور پرجوش رکھیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علیہ السلام پیادہ روی کا نام ہے حسینی ہے پیادہ ر

پڑھیں:

زیارتِ اربعین اور مَشیِ عشق: فریب کے طوفان میں وفا کا پرچم

اسلام ٹائمز: یہ مَشی صرف چلنا نہیں بلکہ ایک اعلان ہے کہ یزیدیت وقت کی قید میں نہیں اور حسینیت بھی زندہ و جاوید ہے۔ یہ دنیا کو بتاتا ہے کہ مظلوم کی یاد کو مٹایا نہیں جا سکتا اور حق کا چراغ صدیوں بعد بھی اسی طرح روشن رہتا ہے جیسے 61 ہجری میں تھا۔ نجف سے کربلا تک کا یہ عاشقانہ سفر اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ محبتِ حسین(ع) محض ایک عقیدت نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے۔ ایسی تحریک جو نہ تلوار سے دبتی ہے، نہ وقت کی گرد میں کھو جاتی ہے۔ تحریر: آغا زمانی

زائرین کے تاثرات سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ نجف کی فضا میں ایک ایسی روحانی خوشبو رچی بسی ہے جو دل و جان کو مہکا دیتی ہے۔ ان مقدس فضاؤں میں قدم رکھتے ہی دل پر ایک انوکھا سکون اتر آتا ہے اور آنکھوں میں عقیدت و محبت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی زیارت کے بعد جب کوئی زائر کربلا کی سمت روانہ ہوتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکنیں ایک نئے جذبے سے دھڑکنے لگتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت آج یہ مبارک مناظر دنیا بھر کے عاشقانِ اہل بیت علیہم السلام کے لیے بآسانی قابلِ مشاہدہ ہیں۔ اگرچہ ہمیں اب تک اس سفرِ عشق کا شرف حاصل نہیں ہوا، مگر دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ ہر عاشقِ امام حسین علیہ السلام کو یہ عظیم سعادت نصیب ہو۔ کیونکہ یہ محض ایک سفر نہیں بلکہ عشق کا اعلان اور اس تاریخ کا تسلسل ہے جو صدیوں سے ایمان و قربانی کی خوشبو بکھیر رہا ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ نجف تا کربلا مشی کی روایت کی بنیادیں کربلا کے اولین زائر حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضوان اللہ علیہ تک جا پہنچتی ہیں۔ واقعۂ عاشورا کے چالیس دن بعد، سنہ 61 ہجری میں انہوں نے اپنے غلام عطیہ کو ساتھ لیا اور فرات کے کنارے غسل کر کے کربلا پہنچے۔ امام حسین علیہ السلام کے مزار پر گریہ و سلام عرض کیا اور یوں اربعین کی زیارت کا آغاز ہوا۔ بعد کے ادوار میں عاشقانِ حسین علیہ السلام نے اسی سنت کو زندہ رکھا، چاہے حالات کٹھن ہوں یا راستے دشوار۔ بعثی حکومت کے دور میں اس مَشی پر پابندی لگا دی گئی۔ زائرین کو گرفتار کیا جاتا، مارا پیٹا جاتا اور بعض اوقات شہید کر دیا جاتا۔ مگر محبتِ حسین (ع) کی راہ میں یہ رکاوٹیں پہاڑ کی چوٹی پر بہتے چشمے کی طرح راستہ بدل کر بھی جاری رہتی رہیں۔ زیرِ زمین راستے، خفیہ قافلے اور چھپ چھپ کر کی گئی زیارت۔ یہ سب اس بات کا اعلان تھا کہ "حسین زندہ ہیں اور ان کے عاشق بھی"۔

ایک زائر کے بقول اب جب اربعین کا وقت آتا ہے نجف کی گلیوں سے کربلا کی سرزمین تک، تقریباً 80 کلومیٹر کا یہ فاصلہ ایک سمندرِ محبت میں بدل جاتا ہے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں زائرین۔ عرب و عجم، مشرق و مغرب۔ سفر کے ہر قدم پر ایک ہی نعرہ دہراتے ہیں "لبیک یا حسین"۔ راستے میں بچھے موکب، مٹی کے فرش پر دسترخوان، کھجوریں، چائے، پانی، سب کچھ بلا معاوضہ اور بلا تکلف۔ کوئی پاؤں دبانے کو جھک رہا ہے، کوئی زخم دھونے کو، کوئی دعا دینے کو۔ یہ وہ منظر ہے جو دنیا کی کسی اور تحریک یا اجتماع میں نظر نہیں آتا۔ یہاں رنگ، نسل، زبان اور قومیت سب مٹ جاتی ہے۔ صرف ایک نسبت باقی رہتی ہے: نسبتِ حسین علیہ السلام ۔

احادیث میں آیا ہے کہ اربعین کی زیارت مؤمن کی علامت ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کی پانچ علامات ہیں، جن میں سے ایک اربعین کی زیارت ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای مَشی اربعین کی اہمیت کے حوالے سے فرماتے ہیں: آج کے دور میں جب اسلام دشمن اور امتِ اسلامی کے دشمن مختلف طریقوں، ذرائع، مال، سیاست اور اسلحے کے ساتھ امتِ مسلمہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، خداوند متعال ناگہانی طور پر اربعین کے اس عظیم مارچ کو ایسی عظمت عطا کرتا ہے، ایسا جلوہ عطا کرتا ہے۔ یہ خدا کی عظیم نشانی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتِ اسلامی کی نصرت کی علامت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کا ارادہ امتِ اسلامی کی مدد کے لیے محکم ہو چکا ہے۔

یہ سفر جسم کو تھکا دیتا ہے مگر روح کو جلا بخشتا ہے۔ ہر قدم گویا ایک آنسو بن کر کربلا کے خیموں تک پہنچتا ہے اور ہر لمحہ دل کے صحرا میں وفا کے پھول اگاتا ہے۔ مگر آج کل ایک نیا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ ایک ایسا کھیل جس میں سفرِ عشق کی خوشبو میں فریب کی گند چھپائی جا رہی ہے۔ معلومات کے مطابق عاشورہ اور اربعین کے دنوں میں، جب ہزاروں زائرین عقیدت کے چراغ لیے عراق کی سرزمین کا رخ کرتے ہیں، اسی ہجوم کے بیچ ایک اور قافلہ بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ نجف و کربلا کے مسافر ہوتے ہیں اور نہ امام حسین علیہ السلام کے غم میں اشک بہانے والے۔ ان کا سفر محبت کا نہیں، مجبوری کا ہوتا ہے اور ان کے قافلہ سالار "انسانی اسمگلر" کہلاتے ہیں۔

باوثوق ذرائع کے مطابق عراقی بارڈر پر ایک عجب منظر بنتا ہے۔ عقیدت مند زائرین کو ایک طرف بٹھا دیا جاتا ہے، جیسے کوئی قافلہ راہ دیکھ رہا ہو اور دوسری طرف ایک الگ لاٹ تیار کی جاتی ہے۔ یہ "ڈنکی لگانے والے" جوان۔ جیسے ہی امیگریشن کے ساتھ ڈیل کا باب مکمل ہوتا ہے، سب سے پہلے یہ لاٹ سرحد پار لے جائی جاتی ہے اور زائرین اپنے کاغذات کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ تکنے پر مجبور رہ جاتے ہیں۔ کہنے کو تو زمینی راستوں پر پابندی زائرین کے تحفظ کے لیے ہے، مگر پردے کے پیچھے کچھ اور ہی منظر ہے۔ کچھ زبانوں پر یہ بھی گلہ ہے کہ سفر عشق کے ٹکٹ بلیک میں بیچے جا رہے ہیں اور عقیدت کی گلی میں کاروبار کی منڈی سجائی جا رہی ہے۔

یہ داستان محض چند افراد کی بددیانتی نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کی غفلت جھلک رہی ہے۔ عشق کی گلیوں میں فریب کے قدموں کی چاپ سنائی دے تو لازم ہے کہ چراغ تھامے کوئی سچ کا قافلہ نکلے۔ ورنہ ڈر ہے کہ کل یہ سفرِ عشق، سفرِ پریشانی بن کر رہ جائے گا۔ دھوکے بازوں اور فریب کاروں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے اور اینٹی کرپشن کے محکمے مؤثر اور فوری اقدامات کریں۔ عوام کو بھی چاہیئے کہ ایسے عناصر کے جال میں نہ پھنسیں جو عقیدت کے نام پر ناجائز منافع کمانے اور انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہوں۔ خصوصاً زائرینِ امام حسین علیہ السلام کو ہوشیار رہنا چاہیئے اور اگر کسی مشتبہ شخص یا سرگرمی کا مشاہدہ ہو تو فوراً متعلقہ حکومتی ذمہ داران کو اطلاع دیں تاکہ یہ سفرِ عشق اپنی پاکیزگی اور روحانیت کے ساتھ قائم رہے اور فریب کے سائے اس کے راستے کو آلودہ نہ کر سکیں۔

یہ مَشی صرف چلنا نہیں بلکہ ایک اعلان ہے کہ یزیدیت وقت کی قید میں نہیں اور حسینیت بھی زندہ و جاوید ہے۔ یہ دنیا کو بتاتا ہے کہ مظلوم کی یاد کو مٹایا نہیں جا سکتا اور حق کا چراغ صدیوں بعد بھی اسی طرح روشن رہتا ہے جیسے 61 ہجری میں تھا۔ نجف سے کربلا تک کا یہ عاشقانہ سفر اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ محبتِ حسین(ع) محض ایک عقیدت نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے۔ ایسی تحریک جو نہ تلوار سے دبتی ہے، نہ وقت کی گرد میں کھو جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرینر کو پالتو وہیل نے ہلاک کردیا؛ وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟
  • چیف جسٹس سے وزیر خزانہ کی ملاقات، قانون کی حکمرانی کیلئے مربوط کوششوں کی اہمیت پر زور
  • زیارتِ اربعین اور مَشیِ عشق: فریب کے طوفان میں وفا کا پرچم
  • علامہ شبیر میثمی کا اربعین حسینی اور پنجاب حکومت کے رویے پر خصوصی انٹرویو
  • کانگریس کے "ووٹ چوری" کا دعویٰ حقیقت سے بعید ہے، الیکشن کمیشن
  • چیف جسٹس اور وزیر خزانہ کی ملاقات، قانون کی حکمرانی کیلئے مشترکہ کاوشوں پر زور
  • دماغی سکون اور توانائی بڑھانے والے مشروبات، حقیقت یا محض تشہیر؟
  • دارالایتام حسینی ہوم میں نئی عمارت کی سنگ بنیاد کے دوران روح پرور محفل کا انعقاد
  • اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ 8 روز کیلئے بند؟ حقیقت سامنے آگئی