عراق، ابراہیم معاہدے کا حصہ نہیں بنے گا، محمد شیاع السوڈانی
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
اپنے ایک انٹرویو میں عراقی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عراق، اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اِس سے امن معاہدہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے "ابراہیم معاہدے" پر عملدرآمد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جس پر ایک عرب ملک کی حیثیت سے ردعمل دیتے ہوئے عراقی وزیراعظم "محمد شیاع السوڈانی" نے کہا کہ بغداد، ابراہیم معاہدے کا حصہ نہیں بنے گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار سکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر محمد شیاع السوڈانی نے کہا کہ عراق، اسرائیل کو تسلیم کرنے یا "تل ابیب" سے امن معاہدہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عراق اپنے عربی موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ اپنے انٹرویو کے ایک دوسرے حصے میں انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت، اپنی رٹ قائم کرنے اور غیر سرکاری اداروں کو غیر مسلح کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
عراقی وزیراعظم نے کہا کہ مذکورہ بالا نقطہ نظر ریاست کی اتھارٹی اور استحکام کو مضبوط کرنے کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ایک قانونی، سیاسی اور حفاظتی روڈ میپ کے ذریعے سیکورٹی اداروں کو مضبوط کر رہی ہے۔ جس کا مقصد بندوق کی ملکیت کو محدود کرنا ہے۔ کیونکہ بندوق کی ملکیت کا دوہرا معیار ریاست کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ واضح رہے کہ چند روز قبل "ڈونلڈ ٹرامپ" کے نمائندہ خصوصی برائے امور مشرق وسطیٰ "اسٹیو ویٹکاف" نے کہا کہ ممکن ہے کہ سعودی عرب، لیبیاء، لبنان اور شام آنے والے دِنوں میں اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے لئے ابراہیم معاہدے کا حصہ بنیں۔ انہوں نے اسی کے ضمن میں کہا کہ آرمینیاء اور آذربائیجان بھی ابراہیم معاہدے کا حصہ بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حالانکہ دونوں ممالک 1992ء سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ابراہیم معاہدے کا حصہ نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
آئی پی سی واقعے کی تحقیقات محض رسمی کارروائی نہیں ہونی چاہیے: عرفان صدیقی
— فائل فوٹومسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پریس کلب (آئی پی سی) واقعے کی تحقیقات کا فیصلہ اچھا اقدام ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ محض جذبات ٹھنڈا کرنے کی رسمی کارروائی نہیں ہونی چاہیے، غیر ذمہ داری اور زیادتی کرنے والے اہلکاروں کا تعین کر کے انہیں سزا ملنی چاہیے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ تحقیقات کو شفاف رکھتے ہوئے صحافی تنظیموں کو بھی شریک رکھا جائے۔ پریس کلب، صحافت کے ’ایوان‘ ہیں، ان کے تقدس کو پامال کرنا نہایت افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دینے والے کسی صحافی پر تشدد کا کوئی جواز قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ایسے اقدامات کی مستقل روک تھام کا ٹھوس انتظام نہایت ضروری ہے۔