کیا پاکستان نے واقعی معاشی کرشمہ انجام دے دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
پاک بھارت کشیدگی کے بعد ایسا لگ رہا جیسے پاکستان پر قدرت مہربان ہوگئی ہو، مقامی ہو یا بین الاقوامی ادارے سب پاکستان کے حوالے سے مثبت خبریں رپورٹ کر رہے ہیں جبکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے اور عالمی اتحادیوں کی مدد سے پاکستان نے معاشی میدان میں ایک غیر معمولی بحالی حاصل کی ہے جسے ایک رپورٹ میں ’میگامیکرو اکنامک کرشمہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیرِ خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں اور بینک حکام سے اہم ملاقاتیں، پاکستان کی معیشت پر مثبت تاثر اجاگر
پاکستان نے مہنگائی پر قابو پایا، کرنسی کی قدر کو مستحکم کیا، اسٹاک مارکیٹ میں زبردست اضافہ دیکھا (KSE-100 انڈیکس 3 گنا بڑھا) اور یورو بانڈز کی قدر میں بہتری آئی، یہ بحالی اس وقت ممکن ہوئی جب پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر ایک معاہدہ کیا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ کو بلند سطح پر برقرار رکھا، اور چین، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات جیسے اتحادیوں نے مالی مدد فراہم کی، پاکستان نے اپنی اقتصادی حالت کو وقتی طور پر بہتر کر لیا ہے، لیکن ابھی بھی معیشت بیرونی جھٹکوں کے لیے بہت حساس ہے۔
اس کے علاوہ معیشت کی بنیاد وسیع نہیں ہے جیسا کہ کچھ ہمسایہ ممالک میں دیکھی جاتی ہے، یعنی یہ چند شعبوں تک محدود ہے۔
سینیئر صحافی حمزہ گیلانی کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بہتری کی طرف جا کیوں رہے ہیں؟ مارکیٹ ڈاؤن فال کا شکار تھی سرمایہ کار یہاں سے بھاگ رہے تھے، بین الاقوامی سرمایہ نکل رہا تھا مقامی سرمایہ دار کہیں اور اپنا سرمایہ لگا رہے تھے یہ سب رک کیوں گیا ہے؟
اس حوالے سے حمزہ گیلانی بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے تو شرح سود 22 فیصد کم ہو کر 11 فیصد پر آ چکا ہے جو کہ اب بھی زیادہ ہے اسے سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے جو آنے والے دنوں میں 9.
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی شرح سود میں 3 فیصد تک کمی کی گنجائش موجود ہے لیکن ایک دم اسے کم کرنے سے امپورٹ بڑھے گی اور مہنگائی میں پھر سے اضافے کا امکان موجود ہے۔
حمزہ گیلانی کہتے ہیں کہ شرح سود کم ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ کاروبار کیں پیسہ لگاتے ہیں اسکی چھوٹی مثال یہ ہے کہ لوگ گاڑی یا گھر کے کیے بینک سے رجوع کرتے ہیں جب بینک قرض دے گا تو نیا کاروبار بنے گا اور ایک کاروباری سائیکل وجود میں آئے گا یہی وجہ ہے شرح سود کو کم ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیے: زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ: وجہ کیا ہے اور پاکستانی معیشت کو کیا فائدہ ہوگا؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل، سیمنٹ، فارما سمیت دس بڑی صنعتوں کو سامنے رکھ کر جانچا جاتا ہے کہ کتنی صنعتیں کام کر رہی ہیں اور کتنی بند ہو چکی ہیں مجموعی طور پر 7 ماہ قبل پاکستان میں بڑی صنعتیں ریڈ زون میں تھیں لیکن جب سے بجلی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تب سے ان صنعتوں میں بہتری آنا شروع ہو چکی ہے تو جب بڑی صنعتیں چلیں گی تو چھوٹی بھی چلنا شروع ہوں گی اور بجلی قیمتوں میں مزید کمی کا امکان ہے جس کا براہ راست تعلق بڑی صنعتوں پر ہوگا۔
حمزہ گیلانی نے کہا کہ ٹیکسٹائل، آئی ٹی سیکٹر میں اضافہ ہوا، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے، بات کی جائے اسٹاک ایکسچینج کی تو 4 دن میں 15 ہزار پوائنٹس اضافہ ہوا پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے شئیرز اب بھی سستے ہیں اس وقت بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان کی سستی مارکیٹ کی طرف آ رہا ہے، جبکہ بھارت سے سرمایہ نکالا جا رہا ہے کیوں کہ انہیں سستی مارکیٹ مل گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں آپ کو میڈ ان پاکستان ملے گا کیوں کہ سرمایہ اب پاکستان میں لگے گا، دس کمپنیاں پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش کریں گی لائسنسن مل چکا ہے جس سے نکلنے والا گیس اور تیل پاکستان کو ملے گا، مائنگ سیکٹر میں بھی کام شروع کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی مارکیٹ ڈیویلپمنٹ کی طرف جا رہی ہے، سونا مہنگا ہو چکا ہے اب لوگ اسٹاک یا پراپرٹی میں سرمایہ لگا رہے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی اعشاریے بہتر ہیں۔
مزید پڑھیں: آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی سے پاکستانی معیشت کے لیے نئے دروازے کھل گئے، مگر کیسے؟
سینیئر صحافی تنویر ملک کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بات کی جائے ترسیلات زر کی، یا روپے کی قدر کی یا پھر اسٹاک مارکیٹ کو دیکھا جائے پھر آئی ایم ایف کی قسط کی بات کی جائے ان تمام باتوں کے پیش نظر کچھ حد تک بہتری تو کہہ سکتے ہیں لیکن معیشت وہ ہے جو عام آدمی پر اثر انداز ہو لیکن عام آدمی پر اب تک اس کے اثرات نظر نہیں آرہے۔
تنویر ملک نے کہا کہ ہمارے ہاں مہنگائی بہت اوپر چلی گئی تھی اس وقت ہمیں اس کا بیس افکیٹ نظر آرہا ہے لیکن اشیا کی قیمتوں میں کمی عام آدمی محسوس نہیں کر پا رہا عام پاکستانی کی آمدن کم ہو رہی ہے اور انڈسٹریل گروتھ بھی ساتھ میں کم ہو رہی ہے پلانٹس بند ہو چکے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خام مال باہر سے چاہیے ہوتا ہے، پاکستان میں خام مال اتنا نہیں ہے دوسری جانب ہماری زرعی ترقی بھی متاثر ہوئی یہ دونوں عوامل ہیں جن کے سبب ہم فی الوقت اپنی معیشت کو بہتر نہیں کہہ سکتے۔
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ جس طرح انڈسٹریز چلنی چاہیے اس طرح نہیں چل رہی، اس وقت جو صورت حال ہے کچھ حد تک ضرورت بہتری آئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہماری معیشت دوڑنے لگی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانی معیشت کی بحالی دیکھ کر خوشی ہوئی، چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ
انہوں نے کہا کہ معیشت آگے بڑھنے کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ عام لوگوں پر اس کے کتنے اثرات ہوں گے، ہمارے ہاں ٹیکس بیس نہیں بڑھی چند سیکٹرز ہیں جن کا ٹیکس بڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں بجٹ آنے والا ہے جس میں ٹیکس بڑھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان پاکستان کی معیشت پاکستان کی معیشت میں بہتری میگامیکرو اکنامک کرشمہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان کی معیشت پاکستان کی معیشت میں بہتری کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی حمزہ گیلانی پاکستان میں پاکستان نے پاکستان کی یہ ہے کہ چکا ہے رہا ہے
پڑھیں:
شارٹ کٹ کوئی نہیں!
خبروں کا موسم بھی عام موسم کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ آج کل اچھی خبروں کا موسم ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا پچھلے چند مہینوں میں ان بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ گرم جوش اٹھنا بیٹھنا ہے جن سے ملنے کے لیے کبھی ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
بار بار بتایا جا رہا ہے، وہ دن گئے کہ پاکستان کو معاشی مسائل اور عالمی تنہائی کا سامنا تھا،اب نیا دور ہے، سیکیورٹی معاملات میں بھی ہر چہ بادآباد ہے اور معاشی معاملات میں بھی۔
سیکیورٹی معاملات کے بارے میں بہت کچھ کہااور لکھا جا رہا ہے، تاہم ہمارا فوکس معاشی اقدامات اور مستقبل کے امکانات پر ہے۔
یادش بخیر 11/12 سال پہلے اسلام آباد میں ایک زوردار دھرنا ہوا تھا جس میں ایک نعرہ گونجا تھا: سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ مولانا طاہر القادری نے ریاست بچانے کے لیے جو معاشی خاکہ پیش کیا، اس کی بنیاد پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی معدنی ذخائر تھے۔
بعد میں جب بھی حکومتوں کا، معاشی مسائل سے جی گھبراتا ہے تو معدنی ذخائر کی افراط اور اربوں کھربوں مالیت کی نوید دل کے قرار کا باعث بنتی ہے۔ پی ڈی ایم ون کی حکومت نے اپنے آخری ہفتے میں پاکستان میں نئے معدنی ذخائر کی دریافت اور امکانات کا ایسا خوش کن نقشہ کھینچا کہ بن پیئے سرور والا معاملہ ہو گیا۔
پی ڈی ایم ٹو کی موجودہ حکومت نے بھی تین مرتبہ ان امکانات کو اس انداز میں پیش کیا کہ جیسے اب قوم کو مزید ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت ہے اور نہ حکومت کو مزید کچھ تردد کرنے کی ضرورت۔
کھربوں ڈالرز کے وارے نیارے ہوں گے، سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں گے… اللہ اللہ خیر صلا۔ کہاں کا آئی ایم ایف؟ کون سی معاشی مشکل؟ کون سی بیڈ گورننس؟ اتنی معدنی دولت کے ساتھ مستقبل اس قدر تابناک ہو تو ڈر کاہے کا!سچی بات یہ ہے کہ بقول شاعر دل تو یہی چاہتا ہے کہ:
کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا
کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا
لیکن پھر بقول فیض… لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ پیش آمدہ معاشی منظر نامہ ان خوابوں میں گم رہنے میں حائل ہو جاتا ہے۔ ملک کا ایک کثیر حصہ سیلاب کی لپیٹ میں آگیا۔کروڑوں افراد کے گھر بار، مال مویشی، فصلیں اور کاروبار تہ و بالا ہوگئے۔
حکومتوں کی امداد اپنی جگہ لیکن زندگی کی چلتی گاڑی کو ڈی ریل ہونے کے بعد پٹڑی پر ڈالنے اور دوڑنے میں کافی وقت لگے گا۔اس ہفتے ورلڈ بینک نے بتلایا کہ پاکستان میں ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ مزید خط غربت سے نیچے جا گرے ہیں۔
برآمدات میں گزشتہ تین ماہ کے دوران11فیصد کمی ہوئی ہے۔ عالمی ٹریڈ امریکی ٹیرف اور جاری جنگوں کے سبب ہچکولے کھا رہی ہے، ایسے میں برآمدات پر جو تکیہ تھا وہ بھی سرک رہا ہے۔ رواں ہفتے ملک کے ایک معروف ٹیکسٹائل گروپ نے اعلان کیا کہ وہ اپنا اپیرل بزنس بند کر رہے ہیں۔
وجوہات میں کاروباری لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ، اچھی کوالٹی کی مقامی کاٹن کی کمی، ناموافق حکومتی پالیسیوں کا بوجھ اور دنیا میں گردن توڑ مقابلہ۔ انڈسٹری ایسوسی ایشنز نے بھی خبردار کیا ہے کہ صنعتی پیداوار کے شعبے کو مہنگی بجلی، گیس سمیت دیگر پیداواری اخراجات میں اضافے نے بے حال کر دیا ہے۔
دوسری طرف بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ملک بھر میں جمع کرائی گئی 50فیصد انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن میں زیرو آمدنی ظاہر کی گئی ہے جب کہ ایف بی آر کے پاس ڈیٹا کے مطابق ان لوگوں کا شاہانہ لائف اسٹائل ہے، لگژری گاڑیاں ہیں، بڑے گھر ہیں ، انٹرنیشنل ٹریولنگ ہے مگر ٹیکس ذمے داری پر انھوں نے ملک کو ٹھینگا دکھایا ہے۔
اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ ہونا کچھ بھی نہیں۔ دکھاوے کے چند نوٹس ووٹس، سخت بیانات کا راگ الاپ… اور بس۔ زیرو آمدنی سے ایکٹو ٹیکس اسٹیٹس مل گیا، کاروبار زندگی کے لیے یہی درکار تھا!
اسی ہفتے ایک رپورٹ کے مطابق قومی ائیر لائن نے 2007 سے 2018 کے درمیان کئی ہزار ٹکٹیں فری جاری کیں جن کی مالیت سکہ رائج الوقت کے مطابق کئی ارب روپے تھی۔ قومی املاک اور وسائل پر اشرافیہ کے تصرف کا یہی وطیرہ پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں بھی جاری و ساری ہے۔
آڈیٹر جنرل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پبلک سیکٹر کارپوریشنز کا دو سال کا نقصان 1.4 ٹریلین روپے سے بھی زائد رہا۔ بجلی کے سرکلر ڈیٹ کا 1.2 ٹریلین روپے کا نیا کمرشل قرضہ لے کر کامیابی سے ’’خاتمہ‘‘ کیا گیا ہے۔
ان چند مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے اصلاحات اور گڈ گورننس کے نعروں کی اصل حقیقت کیا ہے۔
ایسے میں حکومت خطیر معدنی ذخائر کی دستیابی اور عالمی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو ایک انقلابی معاشی مشتقبل بتلا کر قوم کو بقول شخصے ’’ٹھنڈ‘‘ رکھنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے پاس ریکوڈیک میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں rare earth elements کے امکانات ہیں اور تھر کا کوئلہ ہے۔
اندازہ ہے کہ صرف ریکوڈیک سے نکلنے والے ذخائر پینسٹھ ارب ڈالر مالیت کے ہیں لیکن کیا ہمارے پاس وہ ادارہ جاتی ڈھانچہ اور تکنیکی صلاحیت موجود ہے جو ان وسائل کو پائیدار ترقی میں بدل سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مائننگ سیکٹر فرسودہ ٹیکنالوجی، کمزور قوانین اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ بڑے منصوبے برسوں عدالتی تنازعات میں الجھے رہتے ہیں۔
حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ صرف ریکوڈیک کا تانبا اور سونا یا rare earth minerals کی کان کنی سے قرضے اتر جائیں گے اور لاکھوں نوکریاں پیدا ہو جائیں گی، تو یہ خوش فہمی ہے۔ ترقی اس وقت آتی ہے جب کوئی ملک اپنی معیشت میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرے، ٹیکس نیٹ کو وسیع بنائے، برآمدات میں تنوع پیدا کرے، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرے اور سب سے بڑھ کر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دے۔
جاپان، سنگاپور، چین اور جنوبی کوریا نے اپنی معیشتیں معدنی وسائل پر نہیں بلکہ انسانی وسائل، تعلیم، ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ پر کھڑی کیں۔
دنیا کا سبق یہی ہے کہ وسائل ترقی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اور بربادی کا بھی۔ یہ سب کچھ اداروں، پالیسیوں اور حکمرانی کے معیار پر منحصر ہے۔ اگر پاکستان نے چلی، بوٹسوانا اور آسٹریلیا کی طرح شفاف ادارے، معقول قوانین اورمتنوع معیشت کھڑی کی تو معدنی وسائل ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
لیکن اگر کانگو، نائجیریا اوروینزویلا کی طرح صرف وسائل پر انحصار اور بدانتظامی جاری رہی تو یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونامشکل ہے۔ پاکستان کو معدنی خواب دیکھنے کاحق ہے لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے خود سخت محنت، شفاف حکمرانی اور ادارہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہے کیونکہ ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔