WE News:
2025-09-27@22:05:20 GMT

کیا وٹامن سپلیمنٹس صحت مند زندگی کے لیے واقعی ضروری ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT

کیا وٹامن سپلیمنٹس صحت مند زندگی کے لیے واقعی ضروری ہیں؟

دنیا بھر میں وٹامن اور منرل سپلیمنٹس کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ

یہ بھی پڑھیں: الزائمر سے بچاؤ میں مددگار وٹامنز، تحقیق کیا کہتی ہے؟

بی بی سی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگرچہ وٹامن سپلیمنٹس کچھ افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں لیکن ان کا اندھا دھند استعمال نہ صرف غیر مؤثر بلکہ بعض اوقات خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق وٹامن اور منرل سپلیمنٹس کی عالمی مارکیٹ کی مالیت 32 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ امریکا میں 74 فیصد افراد اور برطانیہ میں 2 تہائی لوگ ان سپلیمنٹس کا استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی صحت کو بہتر بنایا جا سکے۔ تاہم سائنسی شواہد اس بارے میں متضاد ہیں۔

وٹامنز اور معدنیات کیوں ضروری ہیں؟

وٹامنز اور منرلز ہمارے جسم کے لیے ضروری مائیکرو نیوٹرینٹس ہیں جنہیں ہم خوراک کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وٹامن A بینائی اور جلد کی صحت کے لیے، وٹامن C قوتِ مدافعت کے لیے اور وٹامن K خون جمنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح کیلشیم، میگنیشیم اور پوٹاشیم جیسے منرلز بھی صحت کے لیے اہم ہیں۔

کیا وٹامن سپلیمنٹس متوازن غذا کا نعم البدل ہوسکتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن سپلیمنٹس کبھی بھی متوازن غذا کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ لیکن مغربی طرزِ زندگی، فاسٹ فوڈ اور پروسیسڈ خوراک کی وجہ سے اکثر افراد متوازن غذا نہیں لے پاتے جس سے وٹامن کی کمی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

سپلیمنٹس: فائدہ یا نقصان؟

رپورٹ کے مطابق وٹامن C سے لے کر وٹامن D اور اینٹی آکسیڈنٹس تک مختلف سپلیمنٹس پر کئی دہائیوں سے تحقیق جاری ہے۔ لیکن متعدد تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر سپلیمنٹس بیماریوں سے بچاؤ میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرتے۔

مزید پڑھیے: وٹامن ڈی کی کمی نظام ہاضمہ کو کس طرح نقصان پہنچاتی ہے؟

امریکا کی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے مطابق، وٹامن D کی زیادتی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور وٹامن A کی زیادتی سے بینائی کے مسائل، چکر، پٹھوں کا درد اور حتیٰ کہ کوما یا موت بھی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح ایک وقت میں مقبول نظریہ تھا کہ وٹامن C کے زیادہ استعمال سے نزلہ زکام ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اب یہ نظریہ سائنسی تحقیق سے مسترد ہو چکا ہے۔

کن افراد کو سپلیمنٹس کی ضرورت ہو سکتی ہے؟

رپورٹ میں شامل ایک بڑی تحقیق (VITAL trial) سے پتا چلا کہ وٹامن D کا استعمال بعض افراد جو یہ وٹامن 2 سال یا زائد عرصے تک لیتے ہیں ان میں یہ کینسر سے اموات کی شرح میں کمی لا سکتا ہے۔ تاہم یہی وٹامن دل کے امراض یا ہڈیوں کی کمزوری کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہوا۔

اسی طرح ایک اور تحقیق (COSMOS trial) میں پتا چلا کہ بڑی عمر کے افراد میں ملٹی وٹامن کے استعمال سے یادداشت کی کمزوری کی شرح میں 60 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

نتیجہ: کیا وٹامن سپلیمنٹس لینے چاہییں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر صحت مند افراد کو وٹامن سپلیمنٹس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وٹامنز کا بہترین ذریعہ قدرتی غذا ہے جیسے سبز پتوں والی سبزیاں، پھل، گری دار میوے، اناج، دودھ اور مچھلی۔ تاہم مخصوص حالات میں جیسے غذائی کمی، عمر رسیدگی یا کچھ خاص بیماریوں کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے مناسب مقدار میں سپلیمنٹس لینا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: کیا ملٹی وٹامنز کاروزانہ استعمال نقصان دہ ہے؟

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وٹامنز کی زیادتی فائدے کے بجائے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لہٰذا سپلیمنٹس کا استعمال احتیاط سے اور صرف ضرورت کے مطابق کیا جانا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متوازن غذا ملٹی وٹامن وٹامن ڈی وٹامن سپلیمنٹس وٹامن سی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: متوازن غذا وٹامن ڈی وٹامن سی سپلیمنٹس کی متوازن غذا کے مطابق سکتی ہے کے لیے

پڑھیں:

تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے، ترجمہ: ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ (الانعام: 162)۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘ (الانعام :122)۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’اسی طرح (اے نبیؐ)! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ‘‘ (الشوریٰ: 52)۔

جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرمؐ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (الزمر: 22)۔ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ! اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری‘‘ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)۔
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا، ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں‘‘ (الحشر: 21)۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے (الجامع لاحکام القرآن)۔

قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جو شخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیر ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں گہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فیصد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قرأت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی، ترجمہ: ’’اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں‘‘ (المائدہ : 118)۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)۔

جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم—؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!

ارشاد الرحمن گلزار

متعلقہ مضامین

  • ڈیوجینز، سکندر اور سورج (دوسرا اور آخری حصہ)
  • کہانی زندگی کی
  • ڈیوجینز، سکندر اورسورج (پہلا حصہ)
  • اگر واقعی کسی نے ڈیل کی پیشکش کی ہے تو عمران خان ایک نام تو بتائیں، محسن نقوی
  • کیا صابن استعمال کرنے سے واقعی جراثیم ختم ہوجاتے ہیں؟
  • پنجاب، سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلے کیلئے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ پاس کرنا ضروری قرار
  • سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلے، ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ پاس کرنا ضروری قرار
  • تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
  • کراچی۔۔۔ ایک بدقسمت شہر
  • کیا روٹی پر گھی لگانا واقعی نقصان دہ ہے؟