data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250927-03-5
فائزہ مشتاق
وطن عزیز اور ہمارے حالات ہمیشہ ہی قدرے مشترک رہے ہیں۔ ملک کی طرح ہمارا بھی نازک دور ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جتنا جان چھڑانا چاہو اتنی ہی یہ ڈور آپ کے گرد مزید مضبوطی سے لپٹنے لگتی ہے۔ ظاہر ہے اتنا دیرینہ ساتھ ہو تو کس بدبخت کا جی چاہے گا راستہ جدا کرنے کا۔ جی ہاں! زندگی کی ہر کہانی کو یہی سابقہ پیش ہے اور کہانی کی گتھی ہے کہ سلجھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
زندگی مسائل اور خوشیوں کا مرکب ہے۔ نہ جانے کب ایک مسئلے سے نکلے اور دوسرے کے جال میں پھنس گئے۔ اس کا آغاز پہلی سانس لیتے ہی ہو جاتا ہے۔ مسائل اور مشکلات بچپن ہی سے آشنا ہوجاتے ہیں۔ کم سنی کی بے فکری کے دور میں بھی رنگا رنگ فکریں ساتھ ہو لیتی ہیں۔ پسندیدہ کھلونے کا ٹوٹنا یا کھو جانا، اسکول یا محلے کے دوستوں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے کھیلنا اور کھیلتے کھیلتے خفا ہو جانا، ذرا سی چوٹ پہ ماں کا پلو دستیاب نہ ہونا بھی اس دور کے گویا کٹھن لمحات میں سے ہے۔ زندگی کچھ اور سرکتی ہے۔ مسائل اور انسان کا ساتھ بھی دھیرے دھیرے مضبوطی کی جانب گامزن ہونے لگتا ہے مگر نوعیت ذرا مختلف ہو جاتی ہے۔ تعلیم کا بتدریج بڑھتا بوجھ، امتحانات در امتحانات، اپنے مقاصد کے لیے اساتذہ کی چاپلوسیاں اور اس کے نتیجے میں ان کی جانب سے ڈھائی گئی زیادتیاں، دروازے کی اوٹ سے ماں باپ کی لڑائیوں کا مشاہدہ ایسے عالمگیر مسائل ہیں جن کا سامنا اس کچی عمر کے دور میں کم و بیش ہر کسی کو ہی ہوتا ہے۔ سفر کی رنگینیاں جاری و ساری رہتی ہیں کہ غم جاناں کا روگ لگ جاتا ہے۔ انتظار کی اذیت کا اندازہ تو وہی جان سکتا ہے جن پہ گزرتی ہے گویا زندگی کی گاڑی کسی ویرانے میں ٹھیر گئی ہو۔ اچانک جھٹکے سے
ہوش آتا ہے کہ سفر یہیں نہیں رکا بلکہ جیسے ہی شعور کے چند زینے مزید چڑھتے ہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسائل تو نظر ہی اب آئے ہیں، گزشتہ ادوار تو سنہری تھے جن کی ہم قدر ہی نہ کر سکے۔
والدین کی انتھک محنتوں اور کٹھنائیوں کا اندازہ جب ہونے لگتا ہے تو اپنا آپ ہی جیسے تمام مسائل کا واحد سہارا دکھائی دیتا ہے۔ مسائل کے نت نئے بوجھ اٹھائے اس عہد سے آگے بڑھتے ہیں کہ ہر چند یہ مشکلات زندگی سے رفو چکر ہو گئیں تو راوی چین ہی چین لکھے گا۔ ابھی ان حالات سے دامن چھڑانے کے قریب ہی ہوتے ہیں کہ شومئی قسمت آنکھ کھل جاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ غم روزگار سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی اور غم ہو سکتا ہے۔ ہم گویا ایک بار پھر غلط ثابت ہوتے ہیں اور زندگی ہمیں ایک اور کڑوا جام پلانے کو کمر بستہ ہوجاتی ہے۔ ’باپ بڑا نہ بھیّا، سب سے بڑا روپیّا‘ کی اہمیت تمام غموں پہ بھاری ہو جاتی ہے۔ چار پیسے کمانے کے دھندے میں اپنا آپ جب ریگ مال کی طرح رگڑا جاتا ہے تو رات چھوڑیے دن میں بھی تارے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ مسائل اور الجھنیں زندگی کی علامت ہیں یہی مسائل انسان کو مسلسل جدوجہد میں مصروف عمل رکھتے ہیں۔ انہی مشکلات کا سامنا اور سلجھن کی امید ہی زندگی کا اصل چکر گھماتی رہتی ہے اور ان کا حصول ہی تسکین کا باعث بنتا ہے۔
زندگی کی گاڑی خالی نہیں بلکہ ذمے داریوں سے پر ہے۔ اگر آپ پہلوٹی کی اولاد ہیں تو یہ ذمے داری دو چند ہو جاتی ہیں اور آپ کے شانے لامحالہ ان کا بوجھ اٹھائے گھومتے ہیں۔ چھوٹے بہن بھائی کی تعلیم، بہنوں کا جہیز، والدین کی گرتی صحت کے مسائل گویا ایک طویل فہرست ایک کے بعد ایک سر اٹھائے رکھتی ہے۔ اگر آپ سے بڑے بھائی اور بہن بھلے وقتوں میں سبک دوش ہوگئے اور اپنے معاملات میں خوشحال ہیں تو اپ کی اس سے بڑی کوئی خوش قسمتی نہیں ہوسکتی اور اگر والدین کی جانب سے بھی بے فکری میسر ہے تو وارے نیارے ہیں۔ بجلی، گیس کے بلوں اور دیگر اہم اخراجات سے آزادی حاصل ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ان نعمتوں کی قدر کیجیے کہ یہ سکون ہر موڑ پر میسر نہیں آسکتا۔
سڑک کا اگلا موڑ نئی نا ہمواریوں سے مزین ملتا ہے سفر کی اس راہ گزر پہ جب زندگی کا ساتھی آملتا ہے بیوی یا شوہر کی زندگی میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد سوچتے ہیں کہ شاید غموں اور مشکلوں کا دور قصہ پارینہ بن گیا، اب خوبصورت اور حسین لمحات کی ہوائیں ہی ہوائیں چلیں گی مگر نہ جی! خیام خیالی پر ٹیکس تھوڑی ہی لگتا ہے، خوب جی بھر کے کیجیے۔ اس مرحلے پر رشتوں میں توازن گویا سکون کی سب سے بہتر دوا معلوم ہوتی ہے۔ توقعات کا پلڑا جہاں اِدھر سے اُدھر ہوا تو آپ پھر سے ڈولنے لگتے ہیں۔ ناگوار باتیں، کشیدہ لمحات، رویوں کی تلخی، رشتوں کی ناانصافیاں، اور ان کی جدائیاں صبر آزما مراحل کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی گلشن کا پہلا پودا اُگتا ہے تو یکایک زندگی کی ڈگر کسی اور سمت چل پڑتی ہے۔ اس پودے کو تناور درخت بنانے میں نہ جانے کتنے ہی سرد گرم سہنے پڑتے ہیں اور ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘ سوچتے سوچتے کتنی ہی دہائیاں گزر جاتی ہیں۔
ایک اہم مسئلہ جس کا سامنا ہر کسی کو نہیں ہوتا وہ ہے ذہنی اور روحانی تھکاوٹیں۔ ان نادیدہ تھکاوٹوں کا ہر انسان کو الگ الگ طریقے سے پیش آئے ہیں اور کبھی یہ ایسے ناقابل تسخیر مسائل بن کر ابھرتے ہیں جن کے حل اتنے آسان نہیں ہوتے جتنے سمجھے جاتے ہیں۔ زندگی کا یہ حصہ اتنا سیاہ سفید نہیں ہوتا جتنا گمان کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کے لیے یہ وقت دبے پاؤں گزر جاتا ہے تو کسی کا زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔ گویا ہر کسی کے حالات دوسرے سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ اس لمحے ادراک ہوتا ہے کہ یہ ذہنی سکون دنیا کی کسی دولت کا نعم البدل نہیں، نہ ہی کسی عوض خریدی جا سکتی ہے۔
پھر اس جنم کی بھول بھلیوں میں اچانک ہی بالوں میں سفیدی چمکنے لگتی ہے۔ گرتی صحت اشاروں اور کنائیوں میں اس بات کی تنبیہ کرتی نظر آتی ہے کہ جوانی پھر نہیں آنی۔ لیجیے، زندگی کی سب سے اہم دولت وہ نہیں جس کے پیچھے ہم نے ساری زندگی ہی کھپا دی۔ اصل دولت تو صحت ہے کہ جان ہے تو جہان ہے اور بروقت صحت پہ توجہ نہ دینے کے خمیازے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ وقت کی ستم ظریفی کہیے کہ اسی لمحے حاصل کردہ تمام مراعات اور آسائشیں بے وقعت لگنے لگتی ہیں کہ زندگی کے اصل متاع تو صحت تھی جس سے ہم گنوا بیٹھے اور جس کے پاس صحت ہے اس کے پاس ہی سب کچھ ہے۔ سو ہم پھر سے تہی داماں۔
جب تک زندگی ہے مسائل ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم الجھنوں سے مکمل بری ہوگئے۔ تلخ حقیقت یہ کہ زندگی کے آخری حصے میں ہم تجربات کی پوٹلی اٹھائے اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ بیٹھک کرتے ہیں اور گوش گزار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ زندگی کا اصل حسن تو الجھنوں اور سلجھنوں میں ہی ہے مگر ادراک کافی تاخیر سے ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے تئیں درست فیصلے اور ہر حال میں شکر گزاری ہی طوفانوں سے نبرد آزما ہونے کا واحد حل ہے۔ حالات کے جبر کو خود پہ مسلط نہ کیا جائے، نہ ہی ان کا قیدی بنا جائے۔ زندگی کے مصائب کا سامنا بڑے جگر سے کیجیے کہ مشکل کے ساتھ آسانی بھی خدا ضرور دیتا ہے۔ مثبت طرزِ فکر اور طرزِ زندگی ہی خدا کی ذات پہ کامل یقین کا نسخہ ہے۔ یہی خوشگوار زندگی اور لمحات کو کشید کرنے کا اصل فن بھی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسائل اور کا سامنا زندگی کا زندگی کی جاتی ہے ہیں اور جاتا ہے اور ان ہیں کہ
پڑھیں:
12 کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 ستمبر2025ء) 12 کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور، مزید 4 کروڑ متوسط پاکستانی بھی غربت کا شکار ہو گئے، پاکستان میں غربت سے متعلق تشویش ناک اعداد و شمار سامنے آ گئے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان خطے میں غربت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن گیا جہاں 45 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں غربت کی اوسط شرح 27.7 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 23.9 فیصد اور بنگلا دیش میں 24.4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں غربت کی بلند سطح کے ساتھ ساتھ 16.5 فیصد آبادی یعنی تقریباً 4 کروڑ 12 لاکھ افراد روزانہ کی بنیاد پر 900 روپے سے بھی کم کماتے ہیں۔(جاری ہے)
عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ آبادی کو کنٹرول کیے بغیر غربت پر قابو پانا مشکل ہو گا، پاکستان میں آبادی کی سالانہ شرحِ نمو 2.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ ایک عورت اوسطاً 4 بچے پیدا کر رہی ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو مالی سال 2019 تک 42 فیصد تک پہنچ گئی تھی، خیبرپختونخوا میں یہ شرح 30 فیصد، سندھ میں 25 فیصد سے کم اور پنجاب میں 15 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ عالمی بینک نے موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی تشویشناک قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ 2050 تک پاکستان کی جی ڈی پی کا 8 فیصد حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2024 کے دوران 7 لاکھ 27 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے ملک چھوڑ گئے جبکہ تعلیم کی کمی کے باعث پاکستان کے بچے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بنیادی مہارتوں میں بھی پیچھے ہیں اور سادہ ٹیکسٹ پیغامات تک پڑھنے سے قاصر ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی کمی جیسے مسائل اگر فوری طور پر حل نہ کیے گئے تو پاکستان کو مستقبل میں مزید معاشی اور سماجی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔