قوم اس مرتبہ اپنا اناسی واں یوم آزادی جوش و خروش سے منائے گی۔ ہر سال ہی ہر پاکستانی اپنی اپنی بساط کے مطابق 14 اگست کی تیاری کرتا ہے بلکہ ملکی اور قومی سطح پر بھی یوم آزادی کو شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ قومی پرچم گھروں اور سرکاری عمارتوں کی چھتوں پر دکھائی دیتے ہیں، میڈیا پر اس حوالے سے خصوصی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ آزادی کو بھرپور انداز سے منانے کی باوجود ہم صحیح معنوں میں آزادی کے فلسفے سے روشناس نہیں ہوئے۔
وجہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ ہم نے آزادی کو محض ایک دن کے طور پر منانا تو قبول کرلیا ہے لیکن اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آزادی کے وہ معنی سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں جن کےلیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ کیا ہم نے آزادی کی حقیقی روح کو سمجھ کر اسے مکمل طور پر حاصل کرلیا ہے؟
آزادی کا مطلب ہے ہر فرد کا اپنے خیالات، عقائد، اور زندگی کے ہر شعبے میں مکمل خودمختاری کا ہونا۔ ذہنی آزادی، معاشرتی آزادی، اقتصادی آزادی، اور سیاسی آزادی، یہ سب مل کر حقیقی آزادی کی تعریف کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص بلا خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار کرسکے، جہاں انصاف ہو، اور جہاں ہر فرد کو برابر کے مواقع ملیں، وہی حقیقی آزادی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے لیکن کئی آوازیں دبا دی جاتی ہیں۔ معاشرتی آزادی بھی پابندیوں کا شکار ہے۔ رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر معاشرے میں تفریق پائی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ساری ذمے داری اگرچہ حکومت کی بھی نہیں ہے، ہمیں انفرادی انداز میں ملک کی ترقی کےلیے آگے بڑھنا چاہیے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی تعصب، جھوٹ، مکر و فریب اور دیگر سماجی برائیوں سے اپنا دامن نہیں چھڑاتے۔ اپنی اخلاقی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے، خواہ وہ سڑک پر سے کوڑا کرکٹ اٹھانا ہو یا کسی غریب کی مدد کرنا ہو، یا کسی کے راستے سے پتھر ہٹانا ہو، ہم چھوٹی چھوٹی نیکیاں نہیں کماتے۔
ہماری آزادی کو محدود کرنے والے کئی عوامل ہیں۔ بدعنوانی اور ناانصافی نظام کو کمزور کرتے ہیں، اور معاشرت میں عدم مساوات کو بڑھاتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں خامیاں شعور اور سوچ کو محدود کرتی ہیں، جس کی وجہ سے لوگ اپنی آزادی کی قدر نہیں سمجھ پاتے۔ قدامت پسند رسم و رواج بھی بہت سے افراد، خصوصاً خواتین، کو مکمل آزادی حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ ساتھ ہی، دہشت گردی اور داخلی و خارجی مسائل کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام پایا جاتا ہے، جو حقیقی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
حقیقی آزادی حاصل کرنے کےلیے ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر بہتری کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور شعور کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہر فرد اپنی حقوق اور ذمے داریوں کو سمجھ سکے۔ جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ہر شخص کی آواز کو سنا جاسکے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ انصاف کا نظام شفاف اور مؤثر بنانا ہوگا تاکہ ہر ظلم کے خلاف ایک مضبوط قانونی راستہ موجود ہو۔ سماجی تبدیلی کو فروغ دینا ہوگا، خصوصاً برداشت اور رواداری کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا۔
نوجوانوں کی توانائی اور جذبے کو مثبت انداز میں استعمال کرنا ہوگا تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
14 اگست محض ایک دن نہیں بلکہ ایک عہد ہے جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو عظیم تر حقیقی معنوں میں بنائیں گے، خود میں تبدیلی پیدا کریں گے، اپنی اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور عالمی دنیا میں پاکستان کا پرچم باوقار انداز میں لہرائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے ہیں آزادی کی زادی کو
پڑھیں:
مریم نواز: کلثوم نواز کا حوصلہ، نواز شریف کی تربیت
پاکستان کی سیاست میں کئی کردار آئے اور گم ہو گئے، لیکن کچھ نام ایسے ہیں جو اپنے عزم، قربانی اور جدوجہد کی بدولت تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
مریم نواز انہی ناموں میں سے ایک ہیں۔ ان کا سفر محض اقتدار تک پہنچنے کا قصہ نہیں، بلکہ قربانی، صبر اور عوامی خدمت کی ایک داستان ہے۔
سیاست کے میدان میں بہت سے نام آتے ہیں اور وقت کے ساتھ مٹ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو اپنی قربانیوں اور جدوجہد کی بدولت لوگوں کے دلوں پر نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ مریم نواز انہی کرداروں میں سے ایک ہیں۔
ان کا سیاسی سفر کسی شاہراہ پر ہموار گاڑی کی مانند نہیں رہا بلکہ کانٹوں، رکاوٹوں اور طوفانوں سے بھرا ہوا راستہ رہا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر مشکل نے انہیں کمزور کرنے کے بجائے اور مضبوط کر دیا۔
مریم نواز نے اپنی سیاست کا آغاز ایک انوکھے طریقے سے کیا۔ وہ براہِ راست ایوانوں یا جلسوں میں جلوہ گر نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے سب سے پہلے سوشل میڈیا کو اپنی آواز بنایا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاست دانوں کے نزدیک یہ پلیٹ فارم محض وقت گزاری کے سوا کچھ نہ تھا۔
لیکن مریم نواز نے اسے ہتھیار بنایا اور اپنے موقف, اپنے خیالات اور اپنے والد نواز شریف کی جدوجہد کو لاکھوں دلوں تک پہنچایا۔ یوں نوجوان نسل اور متوسط طبقہ ان کی طرف متوجہ ہوا اور سیاست میں ان کا پہلا قدم عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔
یہ سفر آسان نہیں تھا۔ کبھی عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے ہونا پڑا، کبھی جیل کے دروازے پر والد کے ساتھ دکھ سہنا پڑا، اور کبھی میڈیا کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک بیٹی کی حیثیت سے والد کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا اور ایک سیاست دان کے طور پر الزامات اور پروپیگنڈے برداشت کرنے پڑے۔ لیکن شاید سب سے بڑا امتحان وہ تھا جب انہیں اپنی عظیم والدہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور جدوجہد کے دنوں میں میدان سیاست سنبھالنا پڑا۔ کلثوم نواز نے ایک طویل عرصہ اپنے خاندان اور پارٹی کے لیے قربانیاں دیں۔
انہوں نے آمرانہ دور میں تن تنہا جدوجہد کی اور مسلم لیگ ن کو سہارا دیا۔ مریم نواز نے اپنی والدہ کو اس کٹھن وقت میں دیکھ کر عزم و حوصلے کا وہ سبق سیکھا جس نے ان کی سیاست کو مزید نکھارا۔
وقت گزرا اور پنجاب کی قیادت مریم نواز کے ہاتھ آئی۔ یہ ایک بڑا امتحان تھا، اور ناقدین کی نظریں ان پر جمی ہوئی تھیں۔ لیکن مختصر مدت میں انہوں نے جو اقدامات کیے وہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ وہ محض نام کی لیڈر نہیں، بلکہ عمل کی سیاست دان ہیں۔
عوامی ٹرانسپورٹ میں انقلابی منصوبے شروع ہوئے جن سے عام آدمی کو سہولت ملی۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے فیصلے کیے گئے۔ کسانوں کے لیے ریلیف پیکج اور مزدوروں کے لیے سہولتیں فراہم کی گئیں، تاکہ کمزور طبقے کو سہارا مل سکے۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ ان کے نزدیک اقتدار عیش و عشرت کا نہیں بلکہ عوامی خدمت کا ذریعہ ہے۔
پھر قدرت نے پنجاب کو ایک اور امتحان میں ڈالا۔ سیلاب آیا تو لاکھوں خاندان اجڑ گئے، ہزاروں گھر پانی میں بہہ گئے اور لاکھوں لوگ کھلے آسمان کے نیچے بے یار و مددگار ہو گئے۔
ایسے وقت میں اکثر حکمران محفوظ فاصلے سے احکامات جاری کرتے ہیں۔ لیکن مریم نواز نے اپنے رویے سے ایک نئی روایت قائم کی۔ وہ خود سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچیں۔ پانی میں اتریں، کچی بستیوں میں بیٹھیں، چٹائی پر متاثرہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ کھانا کھایا، ننھے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلائے۔ عورتوں کو گلے لگایا اور بزرگوں کے پاس بیٹھ کر ان کا دکھ بانٹا۔
یہ مناظر صرف امداد بانٹنے کے نہیں تھے، بلکہ ایک جذباتی رشتہ جوڑنے کے تھے۔ عوام نے پہلی بار محسوس کیا کہ کوئی ان کا حکمران صرف حکم دینے والا نہیں، بلکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ مریم نواز نے اپنی پوری ٹیم کو بھی خدمت کے اسی جذبے کے ساتھ میدان میں رکھا۔
پنجاب کے ہر کونے میں ان کی موجودگی دکھائی دی. ان کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون جھلکتا رہا، جیسے وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہوں۔
یہی وہ لمحے ہیں جو مریم نواز کی شخصیت کو باقی سیاست دانوں سے الگ کرتے ہیں۔ وہ اب محض نواز شریف کی بیٹی نہیں رہیں بلکہ عوام کی خادم، محافظ اور قائد کے طور پر پہچانی جا رہی ہیں۔ ان کے انداز میں بیگم کلثوم نواز کی جھلک دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا منفرد رنگ بھی نمایاں ہے۔
ایک طرف والدہ کے حوصلے اور صبر کا عکس، اور دوسری طرف اپنی والد کی سیاسی وراثت کا تسلسل۔
یقیناً یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ مریم نواز کی کہانی ابھی لکھی جا رہی ہے۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاست ایک نئے عہد کی بنیاد ڈال رہی ہے۔ یہ وہ سیاست ہے جس میں نہ پروٹوکول کی دیوار ہے اور نہ فاصلے کی رکاوٹ۔
یہ وہ سیاست ہے جس میں عوام کا دکھ درد سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اور یہ وہ سیاست ہے جس میں قیادت صرف منصب نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ جینے مرنے کا عہد ہے۔
اور شاید یہ کوئی اتفاق نہیں کہ مریم نواز کے کردار میں بیگم کلثوم نواز کی قربانیوں اور حوصلے کی جھلک تو نمایاں ہے ہی، مگر ان کے ہر فیصلے اور ہر قدم میں نواز شریف کی تربیت اور سیاسی بصیرت کی روشنی بھی جھلکتی ہے۔
وہ بیٹی جس نے اپنے والد کو بار بار قربانی دیتے دیکھا، اب انہی اصولوں اور انہی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پنجاب کی عوام کی خدمت کر رہی ہے۔
یہی وہ وراثت ہے جو مریم نواز کو نہ صرف اپنی والدہ کی بیٹی بلکہ اپنے والد کی تربیت یافتہ قائد کے طور پر منفرد پہچان عطا کرتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں