سپریم کورٹ نے بیوی کے قاتل کی سزائے موت معاف نہیں کی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی اور لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے معاف علی کی اپیل خارج کردی۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا میں غیر ملکی میڈیا دیکھنے پر سزائے موت میں اضافہ
معاف علی نے سنہ 2014 میں تنسیخ نکاح کے الزام میں اپنی بیوی نعیمہ بی بی کو قتل کردیا تھا۔میرے موکل کیخلاف دہشتگردی کی دفعات لگانا درست نہیں۔
وکیل صفائی سلمان صفدر نے عدالت میں کہا کہ بیوی کو قتل کرنے پر دہشتگردی کی دفعات کیسے لگائی جاسکتی ہیں۔
اس پر پراسیکیوٹر پنجاب مرزا عابد مجید کا کہنا تھا کہ مجرم نے گجرات فیملی کورٹ کے اندر بیوی کو قتل کیا تھا۔
مزید پڑھیے: نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار
مرزا عابد مجید نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دہشتگردی دفعات سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھری عدالت میں بیوی کو قتل کر کے خوف و ہراس پھیلایا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا کہ خاتون انصاف کے لیے عدالت گئی اور انصاف کے لیے آئی خاتون کو عدالت میں قتل کرنا دہشتگردی ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: بیوی کے قاتل کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مجرم کسی رعایت کا حقدار نہیں۔ معاف علی کو دہشتگردی کی دفعات کے تحت 2 بار سزائے موت سنائی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیوی کا قتل سپریم کورٹ سزائے موت عدالت میں بیوی کا قتل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیوی کا قتل سپریم کورٹ سزائے موت عدالت میں بیوی کا قتل سپریم کورٹ سزائے موت عدالت میں کو قتل
پڑھیں:
ہائی کورٹ کے ججز کی آئینی درخواستیں اعتراضات کا شکار
اسلام آباد: سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر آئینی درخواستوں پر اعتراضات عائد کرتے ہوئے انہیں واپس کر دیا۔ذرائع کے مطابق رجسٹرار آفس نے قرار دیا کہ درخواست گزاروں نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کون سا مفادِ عامہ کا سوال اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ایسے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں جن کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کا دائرہ کار استعمال کیا جا سکتا ہے؟اعتراض میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر آئینی درخواستیں دائر کیں جبکہ سپریم کورٹ کے ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس کے مطابق ذاتی رنجش کی بنیاد پر آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست دائر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار آفس کے مطابق درخواستوں میں آئینی درخواست کے تمام اجزاء پورے نہیں کیے گئے اور نہ ہی نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت فراہم کی گئی۔درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انتظامی اختیارات کو ہائیکورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔مزید کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔