برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ پی آئی اے کی کپتان بن گئیں
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ پی آئی اے کی کپتان بن گئیں WhatsAppFacebookTwitter 0 6 August, 2025 سب نیوز
کراچی(سب نیوز)برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی (پی آئی اے)کی کپتان بن گئیں۔
تفصیلات کے مطابق برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ پی آئی اے کی کپتان بن گئیں اور قومی ایئر لائن کے سی ای او کے ہمراہ کراچی سے اسلام آباد کی پرواز میں سفر کیا۔اس موقع پر جین میرٹ نے کراچی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کے کاونٹرز اور مسافروں کے سامان کی اسکیننگ کا بھی معائنہ کیا۔
برطانوی ہائی کمشنر نے اس موقع پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ برطانیہ میں پی آئی اے کی پروازوں ی جلد بحالی پر ان کا پاکستان کی قومی ایئر لائن کے طیارے میں سفر کرنا مشن ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپشاورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو عمر ایوب اور شبلی فراز کیخلاف مزید کارروائی سے روک دیا پشاورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو عمر ایوب اور شبلی فراز کیخلاف مزید کارروائی سے روک دیا وفاقی حکومت کا بجلی بلوں کی مد میں ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا فیصلہ فیض آباد احتجاج کیس، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا اشتہاری کا سٹیٹس ختم نہ ہو سکا شور شرابہ، فتنہ اور گالم گلوچ کی سیاست کارکردگی سے دفن ہو گئی،وزیراعلیٰ مریم نواز ڈونلڈ ٹرمپ آرمینیا و آذربائیجان کا دیرینہ مسئلہ حل کرانے کے خواہشمند، فریقین کو وائٹ ہاوس بلالیا چھ ماہ میں ساڑھے 3لاکھ پاکستانی ملک چھوڑگئے، غیرملکی میڈیا کی رپورٹ میں دعویCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: برطانوی ہائی کمشنر جین
پڑھیں:
کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-03-7
میر بابر مشتاق
سنتے تھے کہ طوائف اپنی عزت بیچ کر اپنے گرو کا پیٹ بھرتی ہے۔ اب یہ مثال سیاست پر فٹ کر کے دیکھ لیجیے؛ آج تحریک انصاف کے ارکان وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو طوائف ادا کرتی ہے، اور پیپلزپارٹی وہ گرو ہے جو ہر وقت اپنی ’’مانگ‘‘ بھروانے کے لیے ان ارکان کو بلا لیتی ہے۔ جب گرو یعنی پیپلزپارٹی کو ووٹوں کی ضرورت پڑی، تحریک انصاف کے ارکان حاضری دینے پہنچ گئے۔ سینیٹ الیکشن میں زرداری صاحب کے نامزد امیدواروں کو مدد درکار تھی؟ کپتان کے کھمبے دوڑ پڑے۔ کراچی کے میئر کے لیے 32 ووٹ کم تھے؟ پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین خدمت کے لیے پیش ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے 6 ووٹ درکار تھے؟ تحریک انصاف نے سخاوت میں 9 ارکان زرداری کی جھولی میں ڈال دیے۔ کسی نے سچ کہا تھا، ’’تم پی ٹی آئی کو ووٹ دو، ووٹ زرداری کی جیب میں ملے گا!‘‘
اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ وجہ سادہ ہے: عوام اپنے نمائندوں کو نمائندہ نہیں، کپتان کا کھمبا سمجھتے ہیں۔ انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں، تم صرف کپتان کے کھڑے کیے گئے آدمی ہو۔ کپتان چاہے جس پر ہاتھ رکھ دے، وہ چور بھی سر آنکھوں پر، اور جسے رد کر دے، وہ حاجی بھی بھاڑ میں جائے۔ اب سوچو! جب ایک نمائندہ جانتا ہے کہ وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ ’’کپتان کے کرشمے‘‘ سے آیا ہے، تو وہ تمہارے لیے کیوں کھڑا ہوگا؟ جہاں زیادہ مفاد اور اقتدار دکھائی دے گا، وہ وہیں جا لگے گا۔ ویسے بھی کپتان صاحب نے آج تک ’’بہتر مردم شناسی‘‘ کا ثبوت کب دیا ہے؟ محمود خان سے بزدار تک، گنڈاپور سے موجودہ مراد سعید کی سستی نقل تک، ہر مثال بتاتی ہے کہ عمران خان کی ٹیم چننے کی صلاحیت کسی تجربہ گاہ میں ناکام تجربے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کپتان کھمبے کھڑا کرتا ہے، زرداری کی کرین آکر اٹھا لے جاتی ہے۔ بس یہی ہے پوری سیاست کی تلخ سچائی۔
اب آتے ہیں اس کھیل کے دوسرے منظر پر؛ جہاں نظریہ کی موت کو ’’سیاسی حکمت ِ عملی‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جب تک عمران خان ہے، زرداری چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گا۔ سینیٹ الیکشن؟ عمران زرداری کے جیب میں۔ رجیم چینج؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کراچی میئر الیکشن؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کشمیر حکومت سازی؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ یعنی عمران کو ووٹ دو، زرداری کو اقتدار دو۔ ’’کپتان کھیلتا کہیں ہے، جیتتا زرداری ہے!‘‘ اللہ بخشے عمران خان کو، فرمایا کرتے تھے کہ ’’لوگ میرے نظریے پر اکٹھے ہو رہے ہیں‘‘۔ واقعی اکٹھے ہوئے تھے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان، خواتین، بزرگ۔ مگر اب لگتا ہے وہ سب نظریے کے گرد نہیں، اقتدار کے گرد جمع ہوئے تھے۔
آزاد کشمیر کی سیاست نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ تحریک انصاف کے نو وزراء ایک ایک کر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے وہی چہرے جو کل تک ’’نیا کشمیر‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، آج ’’پرانے پاکستان‘‘ کی کرسیوں پر بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ زرداری ہاؤس میں شمولیت کی تقریب ایسے منعقد ہوئی جیسے نظریہ نہیں، بلکہ سیاسی وفاداری کا جنازہ پڑھا جا رہا ہو۔ ظفر اقبال، عبدالماجد، اکبر ابراہیم اور دیگر وہ نام ہیں جو کبھی خود کو انقلاب کا سپاہی سمجھتے تھے، آج وہ اقتدار کے غلام بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر نظریہ کہاں گیا؟ کیا تحریک انصاف واقعی تبدیلی کی علامت تھی؟ یا وہ صرف ایک سیاسی پروجیکٹ تھا جو اپنا کام مکمل کر چکا؟ کہتے ہیں زرداری سیاست نہیں کھیلتے، وہ کھیل بناتے ہیں۔ کراچی، کشمیر، یا سینیٹ۔ ہر جگہ پیپلز پارٹی کا جادو چل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کپتان کی ’’ٹیم‘‘ دراصل زرداری کی ’’ریزرو فورس‘‘ ہے۔ جہاں اسے ضرورت پڑتی ہے، وہاں یہ فورس پہنچ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ’’سیاسی چالاکی‘‘ کا ماسٹر کہا جاتا ہے، مگر تحریک انصاف نے تو ’’سیاسی نادانی‘‘ میں بھی نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نظریہ بیچ کر وزارتیں خریدنے والوں کا قافلہ روز لمبا ہوتا جا رہا ہے۔
یہ المیہ صرف تحریک انصاف کا نہیں، یہ پورے سیاسی نظام کا عکاس ہے۔ یہاں جماعتیں نظریے سے نہیں، اقتدار کی ہوا کے رُخ سے چلتی ہیں۔ جب اقتدار کا موسم بدلتا ہے تو نظریہ بھی نئی سمت اُڑ جاتا ہے۔ وفاداریاں وزارتوں اور وعدوں کے بدلے فروخت ہوتی ہیں، اور عوام سوچتے رہ جاتے ہیں۔ کیا واقعی یہ وہی ’’تبدیلی‘‘ تھی جس کا خواب انہیں دکھایا گیا تھا؟ عمران خان کہا کرتے تھے: ’’ہم پرانے پاکستان کی سیاست ختم کرنے آئے ہیں‘‘۔ افسوس! آج لگتا ہے کہ پرانے پاکستان کی سیاست نے تحریک انصاف کو ہی ختم کر دیا ہے۔ زرداری ہاؤس میں جشن کا سماں ہے۔ فریال تالپور مسکرا رہی ہیں۔ جن لوگوں نے کل ’’کرپشن مافیا‘‘ کے خلاف نعرے لگائے تھے، آج وہی ہاتھ بڑھا کر اسی مافیا کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، تماشا ہے تماشائی عوام ہیں، اور اداکار وہ رہنما جو نظریے کو لباس کی طرح بدل لیتے ہیں۔ قیام پاکستان نظریے کی بنیاد پر ہوا، مگر اس ملک کی سیاست ہمیشہ مفاد کی بنیاد پر چلی۔ آج تحریک انصاف کے ٹوٹتے دھاگے دراصل نظریہ سیاست کی تدفین ہیں۔ یہ محض وفاداریوں کی تبدیلی نہیں، یہ اخلاقیات، شرافت اور امید کے جنازے کا منظر ہے۔
سوال یہ نہیں کہ یہ وزراء کیوں گئے، سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں ایسا کیا باقی نہیں رہا کہ وہ لوگ رُکے نہیں؟ کیا خان صاحب کا نظریہ صرف جیل کی دیواروں میں قید ہو گیا ہے؟ یا یہ جماعت ایک ایسی کشتی بن چکی ہے جس کے ملاح اب اپنے اپنے کنارے ڈھونڈ رہے ہیں؟ پاکستان میں اگر تبدیلی آنی ہے تو پہلے سیاسی کلچر بدلنا ہوگا۔ ضرورت ہے کہ: 1۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی جمہوری نظام کو مضبوط کریں۔ 2۔ شفافیت کو سیاست کا حصہ بنائیں۔ 3۔ نظریاتی تربیت کو لازم کریں۔ 4۔ وفاداری بدلنے والوں کے لیے واضح قانون بنائیں۔ 5۔ عوام نمائندوں سے کارکردگی کا حساب لیں۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ کپتان کھمبے کھڑا کرے گا، زرداری کرین لے جائے گا۔ عوام نظریے کا نعرہ لگائیں گے، اور اقتدار والے مفاد کا جشن منائیں گے۔
شاید اصل سوال اب یہ نہیں کہ کپتان کی ٹیم ناکام ہوئی یا زرداری کامیاب، بلکہ یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی نظریہ جیتے گا؟ یا یہاں ہمیشہ مفاد ہی بادشاہ رہے گا؟ فی الحال تو لگتا ہے کہ نظریہ قبر میں ہے، اور اس کی قبر پر سیاست دان پھول نہیں۔ بیان بازی کے پتھر رکھ رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، ایک کھیل ہے۔ جس میں کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں، مگر کھیل وہی رہتا ہے۔
(یہ کالم کسی مخصوص جماعت کے حق یا مخالفت میں نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے طنزیہ رویوں پر ایک فکری تبصرہ ہے۔)