بنیان مرصوص: سینیٹ میں پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرارداد متقفہ منظور
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
اسلام آباد:آپریشن بُنیان مرصوص کی شاندار کامیابی پر سینیٹ نے پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پاک بھارت حالیہ جنگ میں پاکستانی مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی۔
قرار داد میں بھارت کو منہ توڑ جواب پر پاک فوج کو زبردست خراجِ تحسین کیا گیا ہے۔ متن میں پاکستان کا علاقائی اور عالمی امن کے مکمل عزم کا اعاد کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ قرارداد میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی مسترد کرتے ہوئے اسے پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔
وزیر قانون کی جانب سے ایوان میں پیش کی گئی قرارداد کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی قرارداد
پڑھیں:
اعلان بالفور سے اعلان نیو یارک تک
جب بھی اعلان بالفورکا ذکر آتا ہے تو اذہان میں خود ہی مسئلہ فلسطین اور سرزمین مقدس کی تقسیم کا مسئلہ ابھر آتا ہے۔ جی ہاں، 1917میں برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے فلسطین کو یہودیوں کے لیے ریاست بنانے کی تجویز حکومت برطانیہ کو بھیجی۔
اس اعلامیہ کو تاریخ میں ایک سیاہ اعلامیہ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کالم ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اعلان بالفور سے اعلان نیو یارک تک کی تاریخ میں فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوا؟ فلسطین کے لیے دو ریاستوں کا حل تجویز کرنے والوں نے آخر آج تک فلسطین کوکیا دیا ہے؟
اسی طرح کیا حالیہ دنوں میں جو کچھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی آزاد ریاست کے تسلیم کے عنوان سے دو ریاستی حل کی گونج سنائی دے رہی ہے، آخرکیا واقعی یہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟
1917میں بالفور اعلامیہ جاری ہوا، 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کہ جس کی قرارداد لازمی بائنڈنگ نہیں ہوتی، اس کے باوجود بھی قرار داد نمبر 181پر عمل کر کے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
اس تقسیم نے فلسطینیوں کی جہاں نسل کشی کا آغازکیا وہاں ساتھ ساتھ 1948میں فلسطینی عوام کی وسیع پیمانے پر ہجرت کو بھی پروان چڑھا دیا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک ہی دن یعنی 15مئی1948 کو فلسطین سے بے گھر اور جبری جلا وطن کر دیا گیا۔
اس کے بعد سے آج تک غاصب صیہونیوں کی فلسطین کے مختلف علاقوں میں آباد کاریاں مسلسل جاری ہیں۔
1948میں 11دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اور قرار داد (194) پیش کی گئی جس میں فلسطینی عوام کے حق واپسی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی کہ جنھوں مئی 1948 میں نکالا گیا تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس جنرل اسمبلی کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست قائم کر دی گئی۔
اس جنرل اسمبلی نے آج تک فلسطینیوں کے حق واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی عملی کوشش ہی نہیں کی۔
یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ دو ریاستی حل کو مسترد کرنے والا ایران واحد ملک ہے کہ جو آج بھی اسی قرار داد کی روشنی میں فلسطینیوں کے حق واپسی کا مطالبہ کرتا ہے اور ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کے مستقبل کے فیصلے کو ترجیح دیتا ہے۔
بہرحال فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کے بعد سے فلسطین کی صورتحال بگڑتی چلی گئی اور بات 1967 کی جنگ تک جا پہنچی، جنگ کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر سے ہزاروں فلسطینیوں کو جبری طور پر مہاجر بننے پر مجبورکر دیا تھا۔
اس صورتحال میں اقوام متحدہ میں ایک اور قرارداد (242) 22نومبر 1967کو پیش کی گئی اور اس قرارداد میں فلسطینی زمینوں کی واپسی کی بات کی گئی لیکن قرارداد کو اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور آج تک فلسطینیوں کو ان کی زمینیں واپس نہیں دی گئی ہیں۔
وقت آگے بڑھا، اور1973میں ایک مرتبہ پھر سے عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور اس مرتبہ بھی اسرائیل جو پہلے 1967 میں القدس کے علاقے پر قابض ہو چکا تھا اب شام، لبنان اور مصر کے علاقوں پر بھی قابض ہوگیا۔
اس جنگ کے اختتام پر بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 338پیش کی گئی۔ یہ قرارداد 22 اکتوبر 1973 کو پیش کی گئی اور ا س میں بھی اسرائیل کو قرارداد نمبر 242 پر عمل کرنے کا کہا گیا کہ اسرائیل 1967 کی سرحدوں پر واپس جائے اور مقبوضہ علاقوں کو خالی کرے لیکن نتیجہ ہمیشہ کی طرح وہی رہا۔
اسرائیل نے اس قرارداد کو ماننے کے بجائے مزید صیہونی بستیاں آباد کردیں اور دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل کو کسی بھی عالمی قانون اور قرارداد کی کوئی پاسداری نہیں ہے۔
عرب دنیا جو 1978 تک دو جنگوں میں شکست کے بعد مسلسل امریکا کے سامنے سر جھکا چکی تھی جن میں مصر سرفہرست تھا۔ مصر نے 17ستمبر 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا جو مصر اور اسرائیل کے درمیان تھا۔
کیمپ ڈیوڈ میں بھی فلسطینی علاقوں کی خود مختاری کی بات رکھی گئی لیکن اسرائیل نے عملی طور پر اس معاہدے میں مصرکی کچھ زمین واپس دے کر فلسطین میں اپنی صیہونی آباد کاری سمیت فلسطینی عوام کی نسل کشی کی منصوبہ بندی کو جاری رکھا۔
اکتوبر 1991میں میڈرڈ کانفرنس جو امریکا اور اس وقت سوویت یونین کی میزبانی میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ اسرائیلی اور فلسطینی قیادت براہ راست مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے۔اس کانفرنس میں بھی فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کی بات کی گئی تھی جو بعد ازاں قابل عمل نہ ہوئی۔
اس کے بعد 13ستمبر 1993 کو اوسلو معاہدہ سامنے آیا جس کے نتیجے میں ایک پیش رفت یہ سامنے آئی کہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو قائم ہونے دیا اور کسی حد تک فلسطینی اتھارٹی کی محدود خود مختاری کو تسلیم کیا گیا اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ مستقبل میں ایک مکمل ریاست بنایا جائے گا۔ فلسطینیوں کو صرف وعدے دیے جاتے رہے لیکن عملی طور پر ان کے ساتھ اس کے الٹ ہی ہوتا رہا۔
انھی حالات کے تسلسل میں 24 ستمبر 1995 کو اوسلو معاہدہ دوئم ہوا جس میں محدود خود مختاری کو کچھ حد تک وسیع کردیا گیا اور مغربی کنارے کو تین زون یعنی بالترتیب A,B,C میں تقسیم کیا گیا۔
23اکتوبر 1998 کو وائی ریور معاہدہ جو کہ امریکا کی نگرانی میں انجام پایا تھا، اس معاہدے میں بھی صیہونی آباد کاروں کے انخلاء کی بات کی گئی اور وعدہ کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں ہمیشہ کی طرح اسرائیل نے اس پر عمل نہ کیا۔
کیمپ ڈیوڈ دوئم معاہدہ جولائی 2000 میں انجام پذیر ہوا جس میں یاسر عرفات اور ایہود بارک کے درمیان یروشلم اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی جیسے مسائل پر ڈیڈلاک آیا اور کسی اتفاق کو نہ پہنچے جس کے نتیجے میں دو ریاستی حل کے لیے ہونے والے مسلسل مذاکرات ناکام ہو گئے۔
اقوام متحدہ نے 12مارچ 2002 میں باضابطہ پر قرار داد نمبر 1397کے تحت فلسطین کے دو ریاستی حل کو تسلیم کر لیا اور اس قرار داد میں کہا گیا کہ دونوں فریق آپس میں امن قائم رکھتے ہوئے رہیں۔
نتیجہ میں اسرائیل کی ہمیشہ کی طرح ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی جاری رہی اور فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی زمینوں پر قبضہ اور صیہونی آباد کاری جاری رہی۔
امریکا، روس اور یورپی یونین نے مشترکہ طور پر ایک اور معاہدہ جسے روڈ میپ فار پیس کہا جاتا ہے جسے 30اپریل 2003میں پیش کیا گیا تھا، اس میں کہا گیا کہ2005تک فلسطین کی آزاد ریاست قائم کرنے کا ہدف مقررکیا گیا تھا۔
لیکن یہ بھی سب کچھ ناکامی کا شکار ہوا، کیونکہ اسرائیل ہمیشہ سے ہی فلسطین کے وجود کا دشمن تھا اور آج بھی ہے، لٰہذا اسرائیل کی خواہش کے مطابق کبھی بھی فلسطینیوں کو ان کے حقوق میسر نہیں ہوئے۔
انناپولس کانفرنس جوکہ 27نومبر 2007 کو منعقد ہوئی اور اس کانفرنس میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے درمیان ملاقات ہوئی اور مذاکرات انجام پائے لیکن نتیجے میں کوئی اتفاق نہ ہو سکا۔
اقوام متحدہ کی ایک اور قرارداد (67/19) جو کہ 29نومبر 2012کو جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی اور اس کے تحت فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔
حالیہ دنوں 29جولائی 2025کو فرانس کی جانب سے نیو یارک میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس کو سعودی عرب کی شراکت داری بھی حاصل تھی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد بھی گزشتہ تسلسل یعنی بالفور اعلامیہ سے لے کر اب تک فلسطین کی تقسیم کے بارے میں ہی تھا۔
جیسا کہ اس کے اعلامیہ میں بیان کیا گیا ہے کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے اور فلسطینی مزاحمت کی مذمت بھی کی گئی اور ساتھ ساتھ 1948 سے قرار داد نمبر 194کی نفی بھی کر دی گئی کہ جس میں فلسطین کے مہاجرین کے حق واپسی کی بات کی گئی تھی۔
آج بھی اقوام متحدہ میں جو کچھ دو ریاستی حل کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے یہ سب فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکا، ظلم اور نا انصافی ہے۔آخر دو ریاستی حل کس طرح فلسطین کے لیے ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہے اور کیوں عمل پذیر نہیں ہو سکتا۔
فلسطین کے مسئلہ کا واحد حل صرف اور صرف فلسطینیوں کی واپسی اور ریفرنڈم کے ذریعے مستقبل کا فیصلہ ہے۔