لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 مئی 2025ء ) عوام کیساتھ پھر ہاتھ ہو گیا، عالمی مارکیٹ میں تیل سستا ہونے کے باوجود پٹرول اور ڈیزل مہنگا کرنے کی تیاریاں، عوام سے 34 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے ۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے پیٹرولیم لیوی 12 روپے فی لیٹر اضافے سے 90 روپے تک مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی، پہلے ہی پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر حکومت 78 روپے فی لیٹر ریکارڈ پیٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے آئل ریفائنریوں اور مارکیٹنگ کمپنیوں کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے گرینڈ پیکج تیار کیا ہے جس کے تحت ای سی سی نے پیٹرولیم لیوی 12 روپے فی لیٹر اضافے سے 90 روپے تک مقرر کرنے کی منظوری دیدی، جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات صارفین سے 34 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔(جاری ہے)
بتایا گیا ہے کہ پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 1.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پیٹرولیم لیوی روپے فی لیٹر کی مد میں وصول کیے ماہ میں کرنے کی
پڑھیں:
گیس کی قیمت میں اضافے کی منظوری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستانی بد حال عوام کے لیے ایک اور جھٹکا حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں بھاری اضافہ ہے، جسے آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کا لازمی حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یکم جولائی سے نافذ ہونے والا یہ اضافہ نہ صرف گھریلو صارفین کو براہِ راست متاثر کرے گا بلکہ صنعتی، زرعی اور توانائی کے شعبے پر بھی اس کے مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ اوگرا کی جانب سے 888 ارب روپے سے زائد کی آمدن کی ضرورت پوری کرنے اور گیس کی دو اہم ترسیلی کمپنیوں، سوئی سدرن اور سوئی ناردرن، کے 41 ارب روپے کے متوقع خسارے کو پورا کرنے کے لیے یہ قدم ناگزیر تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس کا بوجھ ہمیشہ عام شہری پر ہی کیوں ڈالا جاتا ہے؟ جب ای سی سی کی صدارت کرنے والے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اربوں روپے کی ضمنی گرانٹس کی منظوری دیتے ہیں، تو اس کے مالی اثرات کیا آئی ایم ایف سے بالا تر ہوتے ہیں؟ کیا کفایت شعاری اور محصولات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے کوئی متبادل حکمت ِ عملی موجود نہیں؟ ای سی سی کے حالیہ فیصلے کے مطابق، گھریلو صارفین کے لیے مقررہ چارجز میں 50 فی صد اضافہ کیا گیا ہے، جس سے محفوظ صارفین کا بل 400 روپے سے بڑھ کر 600 روپے اور غیر محفوظ صارفین کا بل 1,000 روپے سے بڑھ کر 1,500 روپے ماہانہ ہو جائے گا۔ یہ اضافہ بظاہر ’’صرف مقررہ چارجز‘‘ تک محدود رکھا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سلیب بینیفٹ کے خاتمے اور ہر یونٹ کی قیمت میں اضافے سے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے پر پڑنے والا بوجھ شدید ہو گا۔ یہ اضافہ بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کرے گا، جو کہ پہلے ہی عام شہری کے بس سے باہر ہو چکی ہے۔ صنعت، پاور سیکٹر اور بلک خریداروں کے لیے گیس کی قیمت میں اوسطاً 10 فی صد اضافہ کیا گیا ہے، نتیجتاً پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا، جس کا سیدھا اثر اشیائے صرف کی قیمتوں پر پڑے گا اور مہنگائی کی ایک نئی لہر عوام کی ہڈیوں میں سرایت کرے گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط اگرچہ ایک ناقابل انکار حقیقت بن چکی ہیں، لیکن ہر بار ان کا نفاذ یکطرفہ اور عوام دشمن انداز میں کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا حکومت نے کبھی بجٹ خسارے کی بنیادی وجوہات، جیسے ٹیکس نیٹ کا محدود ہونا، مراعات یافتہ طبقے کو حاصل ٹیکس چھوٹ، اور سرکاری شعبے کی فضول خرچیاں، کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی آسانی کے لیے وہی راستہ چنا ہے جس پر سب سے کم مزاحمت ہوتی ہے اوروہ غریب عوام کی جیب ہے۔ اگر معاشی پالیسی کا توازن اسی طرح بگڑا رہا، تو نتیجہ نہ صرف عوامی اضطراب بلکہ اقتصادی و سماجی انتشار کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔