یومِ تشکر اور امریکی صدر کے دعوے اور دَورے
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
آج بروز جمعتہ المبار ک ، بتاریخ 16مئی 2025، ہم سب ، قومی سطح پر یومِ تشکر منا رہے ہیں ۔ اﷲ کے بے پناہ فضل اور بے انتہا کرم نوازیوں کے سبب اسلامی جمہوریہ پاکستان کو10مئی2025 کے روز،حجم میں اپنے سے کہیں بڑے دشمن کے مقابل، جو شاندار فتح اور جنگی بالا دستی نصیب ہُوئی ہے، اِسی کے پس منظر میں آج ہم ’’یومِ تشکر‘‘ منا رہے ہیں ۔ ہمارے قابلِ فخر آباؤ اجداد اور بزرگوں کا بھی یہی راستہ اور اطوار رہے ہیں کہ جب بھی دشمن کے مقابلے میں اُمہ اور اسلامی مملکت کسی فتحیابی سے ہمکنار ہوتی ہے ، ہم اپنے خالق و مالک کے حضور سجدئہ شکر بجا لاتے ہیں ۔
ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی نصرت و اعانت مسلمانوں کے ہمر کاب نہ ہو ، دشمن زیر ہو سکتا ہے نہ فتح حاصل ہو سکتی ہے ۔ آج ہم یومِ تشکر منا رہے ہیں تو یہ دراصل اپنے بزرگوں کے راستے پر چلنے کی ایک قابلِ ستائش سبیل ہے۔ وزیر اعظم ، جناب محمد شہباز شریف، نے بجا طور پر آج پوری قوم کو یومِ تشکر منانے کی اپیل کی ہے۔ جارح دشمن کے مقابل ہم کوشش و سعی ہی کر سکتے ہیں ۔
اﷲ کا بھی یہی حکم ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ، ہر وقت ، اپنے گھوڑے تیار رکھو اور جنگی سازوسامان کی فراہمی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھو ، وگرنہ دشمن اپنے مکروہ اور مذموم مقاصد میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف آگے بھی بڑھتا جائے گا اور اپنے اسلام دشمن عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہونے کی بھی کوشش کرے گا۔
اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ 10مئی کو ہمیں اپنے ازلی دشمن ، ہندوتوا کے حامل بھارت اور مقتدر بی جے پی ، کے مقابل فتح نصیب ہُوئی ۔ بھارت نے بِلا اشتعال و بے بنیاد پاکستان کے خلاف جارحیت کی ۔ ہماری افواج نے مگر پوری طاقت سے جواب دیا ۔ اور یوں ہم نے قومی سطح پر اپنی سی کوشش و سعی کی اور باقی اﷲ پر چھوڑ دیا ۔بھارت شکست اور پسپائی پر ، زخمی سانپ کی مانند، بَل پر بَل کھا رہا ہے ۔پاکستان کے خلاف مگرکچھ بھی کرنے کی ہمت اور سکت نہیں پارہا ۔ جانتا ہے کہ10مئی کی طرح پاکستان کی جانب سے دندان شکن اور صف شکن جواب آئے گا ۔
اﷲ تعالیٰ نے جنگ کے میدان میں پاکستان کو بھارت پر بالا دستی عطا فرمائی ہے ۔ ساری معلوم دُنیا کے بے تعصب اور غیر جانبدار ممالک اور ماہرینِ عسکریات پاکستان کی فتح اور بھارت کی شکست کی شہادت دے رہے ہیں۔ ڈھٹائی زدہ بھارت اور اس کا وزیر اعظم ، نریندر مودی، مگر شکست ماننے سے انکاری ہیں ۔ مودی جی نے ، شکست اور پسپائی کے بعد، اپنی قوم سے پے در پے جو خطابات کیے ہیں ، فرسٹریشن اور ذہنی پسماندگی کے عکاس ہیں : مَیں نہ مانوں کی عملی تصویر!
جب پاکستان کے ہاتھوں بھارت کو اپنی شکست نوشتہ دیوار نظر نے لگی تو وہ بھاگم بھاگ امریکا کے پاس پہنچا : مائی باپ ، مجھے بچا لیجئے ۔ سی این این کے عالمی شہرت یافتہ جنگی نامہ نگاراور تجزیہ نویس Nick Robertsonنے بھی آن دی ریکارڈ یہی شہادت دی ہے ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار، نے بھی عالمی میڈیا سے بات چیت کرتے ہُوئے یہی دعویٰ کیا ہے :کہ یہ بھارت ہے جس نے امریکا سے درخواست کی کہ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کروا دیجئے۔ اِن دعووں سے بھارت بھر میں شکست خوردگی کا ایک کہرام مچا ہے ۔ بھارت کو یقین آ رہا ہے نہ اُسے یہ بات ہضم ہو رہی ہے کہ پاکستان پلک جھپکتے ہی میںاُسے یوں بھی چاروں شانے چِت کر سکتا ہے ۔ جارح بھارت ، بہرحال،خاک چاٹ چکا ہے۔
اُس کے وزیر اعظم نے اِس کے باوصف اپنے عوام کا دل رکھنے کے لیے جو خطاب کیا ہے ، پاکستان نے اسے بے بنیاد ، لاحاصل اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے ۔ مودی جی کی بھارت سرکار اور بھارت کا گودی میڈیا چونکہ دُنیا بھر میں بے اعتبار ، بے وقار اور کذب و ریا کا پُتلا ثابت ہو چکا ہے ، اس لیے مسلم و پاکستان دوست جملہ قوتوں کی جانب سے بجا طور پر کہا جارہا ہے کہ اگرچہ پاکستان و بھارت کے درمیان ، چار روزہ جنگ کے بعد، جنگ بندی ہو چکی ہے ، مگر بھارت پر اعتبار نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستانی جانباز شہسواروں کو اپنے گھوڑوں سے ابھی اُترنا چاہیے نہ ابھی اپنی تلواریں میانوں میں ڈالنی چاہئیں ۔
لاریب بھارت ایک دغا باز ہمسایہ ملک ہے۔ ہمارا ازلی دشمن ۔ وعدہ شکنی اور کہہ مکرنی اس کی گھٹّی میں پڑی ہے۔ اس لیے جو لوگ پاکستان کی فیصلہ ساز قوتوں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ جنگ بندی کے باوجود بھارت پر یقین نہ کیجئے ، بے بنیاد مشورہ نہیں ہے ۔ اِس مشورے کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں ۔ ویسے بھارت کا شکریہ کہ جس کی جارحیت نے پاکستان کے 25کروڑ عوام ، تمام پاکستانی سیاسی جماعتوں اور ہر قسم کے سیاستدانوں کو بھارت کے مقابل یکجا و یکمشت و یکجہت کر دیا۔پاکستان حقیقی معنوں میں بنیان مرصوص بن کر افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔
الحمدﷲ۔ سوال مگر یہ ہے کہ امریکا جس نے مبینہ طور پر متحارب پاکستان اور بھارت میں سیز فائر کروایا ہے، کیا بھارت کی جانب سے کسی بھی عہد شکنی کو برداشت و معاف کر ے گا؟ ہر گز نہیں ! خود امریکی صدر نے برسرِ مجلس ، ساری دُنیا کے سامنے متعدد بار ، یہ دعویٰ کیا ہے : مَیں نے پاکستان و بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی ہے ۔ اِس دعوے کی گونج و باز گشت ساری معلوم دُنیا میں سُنی گئی ہے اور ابھی تک سنائی دے رہی ہے ۔
13مئی2025 کو امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ ، نے یہی دعویٰ سعودی دارالحکومت ، ریاض، میں منعقدہ US,Saudi Investment Forum میں کیا۔ اِس عالمی فورم میں طاقتور سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان،بھی بنفسِ نفیس تشریف فرما تھے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب آجکل سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر کے چار روزہ دَورے(13تا16مئی ) پر ہیں ۔ ٹرمپ نے ریاض میں جو تاریخی خطاب کیا ہے ( اور جس پر ساری دُنیا کی نظریں ٹِکی ہُوئی ہیں) ، اِس میں جہاں زبردست امریکا ،سعودی دوستی وتعاون کی آواز سنائی دی گئی ہے ، وہیں ٹرمپ نے ایران کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھاتے ہُوئے ایران کو ملفوف دھمکی بھی دی ہے ۔
ٹرمپ نے ذاتی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ سعودی عرب ( ابراہام اکارڈ کے تحت) صہیونی اسرائیل کو تسلیم کر لے مگر اِس تمنا کو پورا کرنا اور ظالم وقاہر اسرائیل کو تسلیم کرنا، فی الحال، سعودیہ کے لیے دشوار بھی ہے اور ناممکن بھی ۔سعودی عرب کے اِس انکار پر ٹرمپ ناراض نہیں ہیں کہ سعودیہ نے ٹرمپ سے 600ارب ڈالر کی امریکا میں بھاری بھرکم سرمایہ کاری ( بشمول امریکا سے142ارب ڈالر کا جدید اسلحہ خریدنے) کا پکا وعدہ کرکے امریکی صدر کو خوش کر دیا ہے ۔ اُدھر قطر نے400ملین ڈالر کا لگژری جہاز ڈونلڈ ٹرمپ کو تحفے میں دے کر اُنہیں مزید خورسند کر دیا ہے ۔ اگرچہ اِس تحفے کو کے کر امریکا میں ٹرمپ پر سخت تنقید ہو رہی ہے ، مگر ٹرمپ کو کسی کی کوئی خاص پروا نہیں ہے ۔
سعودی دارالحکومت، ریاض، میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کے خطاب میں پاک ، بھارت جنگ بندی کی بازگشت اِن الفاظ میں سنائی دی گئی ہے: ’’چند دن پہلے میری حکومت نے بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کے لیے ایک تاریخی جنگ بندی کامیابی سے کروائی ہے۔ مَیں نے بڑی حد تک تجارت کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا۔ مَیں نے (پاکستان و بھارت سے) کہا: ’دوستو، آؤ، ایک معاہدہ کرتے ہیں۔ کچھ تجارت کرتے ہیں۔
جوہری میزائلوں کی(تجارت) نہیں، بلکہ اُن چیزوں کی جو آپ بڑے خوبصورت انداز میں بناتے ہو۔‘اور میرا خیال ہے کہ اب وہ( پاکستان و بھارت) ایک دوسرے کے ساتھ ٹھیک چل رہے ہیں۔ شاید ہم انھیں ایک خوشگوار عشائیے پر بھی اکٹھا کر لیں۔‘‘ گہرے یقین کے ساتھ ایسی باتیں کہنے والا امریکی صدر پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے بھارت کو عہد شکنی کرنے دیگا؟ ہر گز نہیں!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان و بھارت دشمن کے مقابل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کی پاکستان کے کی جانب رہے ہیں کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
بھارت پر لگے امریکی ٹیرف
بھارت کے شہر ممبئی میں مقیم سریندر گپتا ایک ایسی کمپنی کا مالک ہے جو ملبوسات میں استعمال ہوتی اشیا جیسے فیتے اور بٹن بنا کر بڑے عالمی برانڈز کو فراہم اور برآمد کرتا ہے۔ لیکن صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ سخت ٹیرف نے گپتا کے کاروبار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ماہ اگست کے اواخر میں ایک صبح بھارت نے آنکھ کھولی تو امریکہ کو فروخت کے لیے جانے والی تمام بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد ہو چکا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ نے روسی تیل کی بھارتی خریداری پر 25 فیصد ڈیوٹی کو دگنا کرنے کی دھمکی پہ عمل درآمد کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت، جو روسی خام تیل کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے، ماسکو کی جنگی مہمات بالخصوص یوکرین جنگ میں مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔ بھارتی حکام نے جبکہ واشنگٹن پر دوہرا معیار اپنانے کا الزام لگایا اور نشاندہی کی کہ یورپی یونین اور چین روس سے زیادہ خریداری کرتے ہیں اور خود واشنگٹن بھی ماسکو سے تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔
سریندر گپتا بتاتے ہیں،فیشن کی دنیا میںچکر ایک سال پہلے سے چلتا ہے۔ماہ اگست میں اس کی کمپنی خزاں 2026 ء کے ملباسات کی خاطر اشیا ڈیزائن اور تیار کر رہی تھی۔ لہٰذا بھارتی مارکیٹ میں چھائی غیر یقینی صورتحال نے کام کو بری طرح متاثر کیا اور ایک ‘‘بڑا دھچکا’’ پہنچایا ۔گپتا کے کاروبار کا تقریباً 40 فیصد حصہ امریکی مارکیٹ سے وابستہ ہے۔
گپتا بتاتا ہے’’ بدھ کی صبح، 27 اگست تک میں کسی معجزے کی امید لگائے بیٹھا تھا ۔میں سوچتا تھا،شاید ٹرمپ محض ہمیں دباؤ میں لانے کے لیے ڈراما کر رہے ہوں یا شاید مودی کے امریکہ سے اچھے تعلقات صورتحال کو سنبھال لیں گے۔مگر کچھ نہ ہوا۔ایسی صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان ان کمپنیوں کو ہوا جو امریکہ مال بھجواتی ہیں۔‘‘
واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان پانچ دور ہوئے لیکن بات چیت کسی تجارتی معاہدے پر ختم نہیں ہو سکی۔ گپتا نے کہتا ہے،بھارتی برآمد کنندگان کو اب خدشہ ہے کہ ان کے غیر ملکی خریدار بھارت کو مکمل طور پر چھوڑ سکتے ہیں۔ اگر امریکہ اور بھارت کے مابین کشیدگی برقرار رہی، تو خریدار متبادل منڈیاں تلاش کرلیں گے۔
مودی سرکار ٹرمپ کے اقدامات سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے جو امریکہ کو بھارت کے ساتھ دو دہائیوں کی سفارتی اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری سے پیچھے لے جا رہے ہیں۔اس دوران ماہرین اور معاشی مبصرین کا کہنا ہے ، یہ ٹیرف بھارتی معیشت کے کلیدی برآمدی شعبے تباہ کر سکتے ہیں اور لاکھوں نوکریاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
بہت بے بسی ہے
فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن (FIEO) بھارتی برآمد کنندگان کا سب سے بڑا سرکاری سرپرست ادارہ ہے ۔اس کے سی ای او اجے ساہے نے امریکی ٹیرف لگنے کے بعد وزیر خزانہ نرملا سیتارمن سے ملاقات کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ مودی حکومت ٹیرف سے متاثرہ کمپنیوں کی مدد کرے۔وہ دعوی کرتے ہیں’’حکومت نے ہمیں مکمل یقین دلایا ہے کہ وہ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کرے گی۔ شاید اس میں ایک معاشی پیکیج بھی شامل ہو۔‘‘
انہوں نے کہا،حکومت نے ہم سے ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا ہے اور پھر وہ ایک اسکیم لے کر آئے گی۔’’نرملا سیتارمن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی کی ملازمت نہیں جائے گی۔ اور یہ ایسی بات ہے جس کا ہمیں احترام کرنا چاہیے۔‘‘
کہنا آسان ہے کرنا مشکل
ٹیکسٹائل، قیمتی پتھر، زیورات، قالین اور جھینگے (شرمپ) بھارت کی سب سے بڑی برآمدات میں شامل ہیں جو امریکہ کو جاتی ہیں اور توقع ہے کہ ٹیرف سے یہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔
کے انند کمار جھینگے برآمد کرنے والی کمپنی ،سندھیا میرینز چلاتے ہیں۔ان کی کمپنی خلیج بنگال پر واقع آندھرا پردیش کے ایک ساحلی قصبے میں تقریباً 3,500 مزدوروں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ مگر اب انند کمار کا کاروبار تباہی کے دہانے پر ہے کہ ان کی کمپنی کی 90 فیصد سے زائد برآمدات امریکی منڈی میں جاتی ہیں۔
گزشتہ سال بھارت نے ریکارڈ 1.78 ملین میٹرک ٹن سمندری غذا برآمد کی تھی جس کی مالیت 7.38 ارب ڈالر تھی۔ اس میں جھینگے کا سب سے بڑا حصہ تھا جو کل مالیت کا 92 فیصد بنتا ہے۔ امریکہ بھارت کے جھینگوں کی کل برآمدات کا 40 فیصد سے زیادہ خریدتا ہے۔
’’جھینگوں کی صنعت بہت زیادہ مزدوروں پر انحصار کرتی ہے اور اس میں چھوٹے کسان شامل ہیں۔انند کمار کہتے ہیں۔وہ سمندری غذا برآمد کرنے والے ادارے کے آندھرا پردیش چیپٹر کے سربراہ بھی ہیں۔ کمار کے مطابق اگرمجموعی افرادی قوت کو شامل کیا جائے تو تقریباً 20 لاکھ افراد جھینگے کی برآمد سے وابستہ ہیں۔ اور ان میں سے 50 فیصد سے زیادہ کارکنان ٹرمپ کے ٹیرف کا براہِ راست نشانہ بنیں گے۔
انند کمار کہتے ہیں’’میری کمپنی نے ملازمین کو گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی نیا آرڈر نہیں اور ہم مزید تنخواہ نہیں دے سکتے۔ چھوٹے کسان، جو جھینگے چھیلتے ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ اب ان کے لیے کوئی کام باقی نہیں رہا۔‘‘
بھارت ہر سال امریکہ کو 87 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات بھجواتا ہے۔ برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشنز کا اندازہ ہے کہ امریکی ٹیرف سے برآمدات کا تقریباً 55 فیصد حصہ متاثر ہو گا۔ اور اس تبدیلی سے ویتنام، بنگلہ دیش، چین اور پاکستان جیسے حریفوں کو فائدہ ہوگا جن پر کم شرح کے ٹیرف لگے ہیں۔
امریکی ادارے،موڈیز ریٹنگز (Moody's Ratings)نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی مال پر ٹرمپ کے بھاری ٹیرف 2025 ء کے بعد بھارت کی معاشی ترقی کو سست کر سکتے ہیں۔ موڈیز کا مذید کہنا ہے، دیگر ایشیا پیسیفک ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ٹیرف لگنے سے بھارت میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترقی دینے کی خواہش بری طرح متاثر ہو گی اور حالیہ برسوں میں سرمایہ کاری کھینچنے کے حوالے سے مودی حکومت کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، وہ بھی الٹ سکتی ہیں۔
آنندکمار کا کہنا ہے’’یہ سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے، جس میں آپ کو معلوم نہیں ہوتا ، اگلی صبح اٹھتے ہی کون سا نیا اور غیر متوقع ٹیرف آپ کے سامنے ہوگا۔‘‘
امریکہ کے ساتھ تیس سالہ کاروباری تعلقات میں کمار کے مطابق، ایسا بحران پہلے کبھی نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں ‘‘امریکہ ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے، جو چاہے کر رہا ہے۔ اور ہم مجبور ہیں کہ اس کی کہی ہر بات مان لیں۔ ایسا کرتے ہوئے بہت بے بسی محسوس ہوتی ہے۔’’
بھارتی اشیا پر عملاً پابندی
خوف و ہراس نے کمار کی فیکٹری سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر دور واقع تروپور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو بھارتی جنوبی ریاست تامل ناڈو کا ایک قصبہ ہے ۔یہ بھارت کی ملبوساتی برآمدی صنعت کا مرکز کہلاتا ہے۔
دریائے نویال کے کنارے اور پتھریلے ٹیلوں کے قریب آباد تروپور بھارت کی 16 ارب ڈالر مالیت والی ریڈی میڈ ملبوسات برآمدات میں تقریباً ایک تہائی کا حصہ ڈالتا ہے۔ امریکی ڈالر میں کمائی کی وجہ سے تروپور کو ‘‘ڈالر سٹی’’ کہا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے فیشن برانڈز بشمول زارا اور گیپ یہاں سے کپڑے خریدتے ہیں۔
ایس این کیو ایس انٹرنیشنل گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر وی. ایلانگوون ملبوسات برآمد کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے’’ بڑے برانڈز کے ساتھ کاروبار میں زیادہ منافع ہوتا ہے اور یہ امر وقتی سہارا فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن بحران طویل ہوا تو یہ ہمارا کاروبار مفلوج کر دے گا۔ اس وقت بھی جس ادارے کا منافع کم ہے، وہاں پیداوار مکمل طور پر روک دی گئی ہے ۔‘‘ایلانگوون کی کمپنی میں 1,500 لوگ کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تروپور میں ٹرمپ کے ٹیرف کی وجہ سے تقریباًڈیرھ لاکھ مزدوروں کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔
وہ مذید کہتے ہیں ’’عالمی طور پر بحران زدہ معیشت میں نیا گاہک ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ گاہکوں میں تنوع پیدا کرنا کوئی بٹن دبانے جیسا نہیں کہ جب چاہیں کر لیں۔ جلد ہی ہمیں کیش فلو کے مسائل کا سامنا ہوگا اور مزدوروں کی بڑی تعداد کو نکالنا پڑے گا۔‘‘
دوسری طرف بھارت کے وزیرِاعظم مودی نے امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔مودی نے 15 اگست کو یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعے کی فصیل سے اپنے خطاب میں کہا: ’’اب بھارت کو خود کفیل بننا چاہیے … دنیا بھر میں معاشی خود غرضی بڑھ رہی ہے اور ہمیں اپنی مشکلات پر بیٹھ کر رونا نہیں چاہیے۔‘‘
بھارتی وزیرِاعظم نے کہا’’مودی ہر اس پالیسی کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑا ہوگا جو ہمارے مفادات کو خطرہ پہنچائے گی۔ بھارت کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا جب بات ہمارے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کی ہو۔’’ وہ بالواسطہ طور پر امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے تنازعات کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔یاد رہے، واشنگٹن بھارت کے زرعی اور ڈیری شعبوں میں زیادہ رسائی چاہتا ہے۔ بھارت کی 1.4 ارب آبادی میں سے تقریباً نصف اپنی روزی روٹی کے لیے زراعت پر انحصار کرتی ہے۔
بھارتی تاجروں کو مگر خدشہ ہے کہ وہ اس سودے بازی میں بدترین نقصان اٹھائیں گے۔ ایلانگوون کا کہنا ہے ’’حکومت ہمیں ایک آنکھ پر مکے کھانے دے رہی ہے تاکہ دوسری آنکھ بچی رہے۔ 50 فیصد ٹیرف تو بھارتی اشیا پر عملاً پابندی کے مترادف ہے۔‘‘
اعدادوشمار
حالیہ اعدادوشمار کی رو سے امریکہ بھارتی اشیاء کی سب سے بڑی غیر ملکی منڈی ہے اور اس منڈی میں بھارتی برآمدات ماہ ستمبر کے دوران 20 فیصد اور پچھلے چار مہینوں میں تقریباً 40 فیصد تک تیزی سے گر گئی ہیں، کیونکہ صدر ٹرمپ کی جانب سے سخت محصولات نافذ ہو چکے ۔ستمبر وہ پہلا مکمل مہینہ تھا جب واشنگٹن نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد محصولات عائد کیے جو 27 اگست سے نافذ ہوئے۔ ان میں 25 فیصد جرمانہ بھی شامل ہے جو دہلی کے روس سے تیل خریدنا بند نہ کرنے کے فیصلے پر لگایا گیا ہے۔
گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (GTRI) دہلی میں قائم ایک تھنک ٹینک ہے ۔اس کے ماہر ، اجے سریواستو کا کہنا ہے :’’امریکہ کے محصولات میں اضافے کے بعد بھارت سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن چکا۔"دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے پر مذاکرات جاری ہیں جنہیں نومبر تک مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
GTRI کے مطابق محصولات کا سب سے زیادہ اثر محنت کش صنعتوں پر پڑا ہے جیسے ٹیکسٹائل، قیمتی پتھر اور زیورات، انجینئرنگ مصنوعات، اور کیمیکلز جنہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔امریکہ کو بھیجی جانے والی ترسیلات گزشتہ چار مہینوں سے مسلسل کم ہو رہی ہیں، جو 37.5 فیصد گر کر مئی میں 8.8 ارب ڈالر سے ستمبر میں 5.5 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔
برآمدات میں کمی نے بھارت کے تجارتی خسارے (یعنی درآمدات اور برآمدات کے فرق) میں بھی اضافہ کیا ہے، جو ستمبر میں بڑھ کر 13 ماہ کی بلند ترین سطح … 32.15 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔امریکہ کو برآمدات میں کمی کو کچھ حد تک متحدہ عرب امارات اور چین جیسے ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات نے سہارا دیا۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی مذاکرات ماہ ستمبر میں دوبارہ شروع ہوئے جو کئی اختلافات کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔ ایک بھارتی وفد اس وقت مذاکرات کے لیے امریکہ میں موجود ہے۔ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے روسی تیل کی خریداری روکنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، کیونکہ امریکہ یوکرین کی جنگ ختم کرنے کی کوششوں کے تحت کریملن پر معاشی دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت "جاری" ہے، اور واشنگٹن نے "بھارت کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔"تاہم تجارت سے متعلق بڑے اختلافات اب بھی باقی ہیں، جن میں زرعی اور ڈیری شعبے تک رسائی شامل ہے۔
کئی سال سے واشنگٹن بھارت کے زرعی شعبے میں زیادہ رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے وہ ایک بڑی غیر استعمال شدہ منڈی سمجھتا ہے۔ لیکن بھارت نے خوراک کی سلامتی، روزگار اور لاکھوں چھوٹے کسانوں کے مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے اس شعبے کا سختی سے دفاع کیا ہے، ۔
ٹیرف لگنے سے پہلے تک امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا اور 2024 ء میں دونوں کے درمیان دو طرفہ تجارت 190 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ ٹرمپ اور مودی نے اس اعداد و شمار کو دوگنے سے زیادہ بڑھا کر 500 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے مگر مستقبل میں کیا ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔