امن ہمیشہ سے انسانوں کے مستقبل کا ضامن رہا ہے، قوموں اور ملکوں میں ترقی اور خوش حالی امن ہی سے آتی ہے۔ جنگ صرف تباہی و بربادی لاتی ہے۔ جنگ چھوٹی ہو یا بڑی آگ اور خون اگلتی ہے۔ بستیوں کو تاراج اور انسانوں کو محتاج و لاچار کردیتی ہے۔ دنیا میں دو عالمی جنگیں اپنے پیچھے المناک داستانیں اور ایسے گہرے زخم چھوڑگئی ہیں جو آج تک مندمل نہیں ہو سکے۔
اسی باعث امن پسند لوگ ہمیشہ جنگ سے گریز اور امن کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی امن کی تلقین کرتے، جنگی حماقتوں سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو اگر جنگ میں مبتلا ہو جائے تو وہاں ترقی و خوشحالی کا عمل رک جاتا ہے۔ لوگ زندگی کے مسائل کے گرداب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا کے خطے کے دو اہم جوہری قوت رکھنے والے ممالک پاکستان اور بھارت روز اول سے جنگوں کی تباہی کے زخم کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اپنے دیرینہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں ناکام ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا اور اہم تنازعہ کشمیر کا ہے جس پر بھارت نے جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا واحد حل استصواب رائے ہے جس کا وعدہ خود بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کیا تھا، لیکن آج تک یہ وعدہ حل نہ ہوا۔ نتیجتاً دشمنی میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جو گزشتہ ایک دہائی سے برسر اقتدار ہیں، 5 اگست2019 کو بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 اور 35اے کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، پاکستان نے بھارت کے اس غیر منصفانہ اقدام کے خلاف اقوام متحدہ سمیت عالمی فورم پر بار بار اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا کہ عالمی برادری نریندر مودی کو کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے کے غیر آئینی اقدام کا نوٹس لے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی نے مودی کے جارحانہ عزائم کو اور مہمیز کیا نتیجتاً وہ پاکستان کے خلاف کھل کر زہر اگلنے لگا۔
دہشت گردی کے بے بنیاد جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگا کر مودی سرکار پاکستان کو جنگی اقدام کی دھمکیاں دیتی رہی اور بالآخر 22 اپریل2025 کو پہلگام میں 26 سیاحوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت کو جواز بنا کر 6 اور 7 مئی کی اندھیری رات میں پاکستان پر بزدلانہ حملہ کیا۔ پاکستان کی بہادر فوج کے سپہ سالار اعظم جنرل عاصم منیر نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو پیغام دیا کہ جوابی حملے کے لیے تیار رہے، پھر ہمارے جانباز شاہینوں نے وہ کچھ کر دکھایا جو مودی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ بھارت کے رافیل طیاروں کی تباہی سے لے کر اس کے مضبوط ترین ایئربیس سسٹم S-400 کو چند منٹوں میں ہمارے عقابی ہوا بازوں نے میزائل کی بارش سے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کردیا۔ اس تباہی کے بعد مودی کے پاس جواب دینے کے لیے کچھ نہیں تھا جب کہ ادھر پاکستان اپنے اگلے وارکی بھرپور تیاری کر چکا تھا۔
اس دوران یعنی 7 مئی سے 10 مئی تک پاکستان سفارتی سطح پر امریکا، چین، ترکی، روس، سعودی عرب اور اقوام متحدہ کو آگاہ کرتا رہا اور اپیل بھی کی کہ وہ بھارت کو جنگی جنون سے روکے، پاکستان اپنے دفاع میں تمام آپشن استعمال کرے گا، مودی کو پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بھی پیشکش کی گئی لیکن مودی کا جنگی جنون پاکستان اور عالمی برادری کی کوئی معقول بات سننے پر آمادہ نہیں تھا۔ پھر 10 مئی کی صبح داستان امیر حمزہ کی طلسم ہوش ربا کا پاکستان کے شاہینوں نے بھارتی فضا میں وہ تاریخی باب رقم کیا کہ نہ صرف مودی کا غرور اوندھے منہ زمین پر آ گرا بلکہ دنیا حیران رہ گئی۔ پاکستان کے اگلے امکانی وار کے خوف میں مبتلا مودی سرکار نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منت سماجت شروع کردی کہ ’’ حضور والا! میں جنگ بندی کے لیے تیار ہوں، مجھے اور میرے بھارت کو پاکستان سے بچائیے اور یہ کام صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور مساعی کے بعد بالآخر 10 مئی کی شام جنگ بندی ہوگئی۔
بعدازاں دونوں ملکوں کے ڈی جی ملٹری آپریشن (ڈی جی ایم اوز) نے 12 مئی کو مذاکرات کیے اور جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ اگلے مورچوں پر فوجوں کی تعداد کم کی جائے گی، نہ شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور نہ ہی فائرنگ ہوگی۔ ادھر پاکستان نے بھی آپریشن بنیان مرصوص کو ختم کرنے کا اعلان کرکے خیر سگالی کا پیغام دیا۔ جنرل عاصم منیر جو چار روزہ پاک بھارت جنگ کے اصل ہیرو قرار پائے نے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی دشمن کی سازش پاکستان کی مسلح افواج کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کے دلیر، سرفروش اور جاں نثار ہوا بازوں نے ان کی للکار ’’مار دو انھیں، مار دو‘‘ کی خوب لاج رکھی اور فتح گری کا تاج اپنے سروں پر سجایا۔ قوم کا بچہ بچہ ان کی داد و تحسین کر رہا ہے کہ وہ اس کے اصل حق دار ہیں۔ وزیر اعظم نے ہر سال 10 مئی کو یوم معرکہ حق منانے کا اور جنگ کے شہدا کے لیے پیکیج کا اعلان کیا جو قابل تحسین ہے۔ اب قوم ہر سال 10 مئی اور 6 ستمبر کو بھارت کی شکست کا جشن منائے گی اور بھارتی قوم ماتم کناں ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر کے خطے کے امن کی جانب ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ مودی حکومت جوکئی سالوں سے مسئلہ کشمیر پر بات کرنے اورکسی کی ثالثی پر آمادہ نہیں تھی اب جنگ بندی کے بعد مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور اس تنازعے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کرے گی۔ یہ اہم سوال ہے کیا نریندر مودی حکومت سندھ طاس معاہدہ جس کی معطلی کو پاکستان نے اعلان جنگ کے مترادف قرار دیا ہے سابقہ پوزیشن پر بحال کردے گی؟
یہ دوسرا اہم سوال ہے کیا صدر ٹرمپ اپنی ثالثی میں نریندر مودی کو مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پائیدار اور پرامن حل پر آمادہ کر سکیں گے؟ چالاک، عیار، متعصب اور مسلم دشمنی کا پرچارک نریندر مودی جس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا وہ آسانی سے ’’ٹرمپ ثالثی‘‘ کو قبول نہیں کرے گا۔ جیساکہ اس نے 10 مئی کی عبرت ناک شکست پر اپنی خفت مٹانے کے لیے بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے مذاکرات پر آمادگی تو ظاہر کی لیکن مقبوضہ کشمیر پر نہیں بلکہ آزاد کشمیر پر یعنی آج بھی اکھنڈ بھارت کے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کی پالیسی پرگامزن ہے۔ پوری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ نریندر مودی نے 10 مئی کو پاکستان کے آگے سرینڈر کیا ہے، لیکن وہ مقبوضہ کشمیر پر سرینڈر نہیں کرے گا جو اس کی سیاسی موت ثابت ہو سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پاکستان کے بھارت کے کے لیے مئی کی
پڑھیں:
ڈی ایف پی کا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے منظم جبر پر ایمنسٹی انٹرنیشنل سے مداخلت کا مطالبہ
ذرائع کے مطابق ڈی ایف پی کے قائم مقام صدر محمود احمد ساغر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اگنیس کالمارڈ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ کشمیریوں کی منظم پروفائلنگ اور سیاسی قیدیوں کی سنگین صورتحال فوری عالمی مداخلت کا تقاضا کرتی ہے اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے بڑھتے ہوئے ظلم و جبر کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کرے۔ ذرائع کے مطابق ڈی ایف پی کے قائم مقام صدر محمود احمد ساغر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اگنیس کالمارڈ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ کشمیریوں کی منظم پروفائلنگ اور سیاسی قیدیوں کی سنگین صورتحال فوری عالمی مداخلت کا تقاضا کرتی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کی توجہ بھارتی حکام کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، ان کی پرامن سیاسی امنگوں کو دبانے اور ظلم و جبر کے ذریعے اختلاف رائے کو دبانے کی طرف مبذول کرائی۔ محمود ساغر نے کہا کہ نئی دہلی میں ہونے والے حالیہ دھماکے کے بعد بھارتی سرزمین پر کشمیری طلباء، پیشہ ور افراد اور کاروباری طبقے کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوف و دہشت کا ماحول مزید گہرا ہو گیا ہے کیونکہ ہندو انتہاپسند اور بھارتی میڈیا کشمیریوں کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ کھلے عام کشمیریوں کو اجتماعی سزا دینے اور بے دخل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پوری کشمیری قوم کو انتہا پسند قرار دینے سے صرف حکمران بی جے پی کو فائدہ ہے جس نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور ظلم کو تیزتر کرنے کے لیے بارہا ایسے واقعات کا فائدہ اٹھایا ہے۔محمود ساغر نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں،چھاپوں اور گرفتاریوں میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، ہزاروں شہریوں کو اٹھایا جا رہا ہے اور تلاشی کے بہانے پورے محلوں کو رات کے دروان گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے، ان کی تذلیل اور جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے ٹھٹھرتی ہوئی سردیوں میں رات کے دوران مردوں، عورتوں اور بچوں کو گھروں سے باہر کھڑا کرنے پر بھارتی فورسز کی مذمت کی۔ ڈی ایف پی رہنما نے کشمیری سیاسی قیدیوں کی حالتِ زار پر گہری تشویش کا اظہار کیا جن میں سے اکثر کو جان لیوا حالات میں گھر سے دور رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکام بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دانستہ طور پر کشمیری قیدیوں کو طبی سہولیات اور بنیادی حقوق سے محروم رکھ رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے 1994ء میں ضمیر کا قیدی قرار دئے گئے سینئر کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ کے کیس کو اجاگر کرتے ہوئے محمود ساغر نے کہا کہ شبیر شاہ اور بہت سے دوسرے لوگ سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن ان کا علاج نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینے اور منظر عام پر لانے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کو سراہا اور تنظیم پر زور دیا کہ وہ بھارتی مظالم کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کرے۔ انہوں نے عالمی ادارے پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں منظم جبر پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرایا جائے، سیاسی قیدیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔