بھارتی جیولین تھرور نیرج چوپڑا پاکستان کے ارشد ندیم کیساتھ دیرینہ تعلقات سے مکر گئے
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
بھارت(نیوز ڈیسک)بھارت کے نامور جیولین تھرور نیرج چوپڑا پاکستان کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کے ساتھ دیرینہ تعلقات سے مکر گئے۔
بھارتی جیولین تھرور نیرج چوپڑا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایتھلیٹکس کی دُنیا میں اُن کے بہت سے دوست ہیں، جو اُن سے عزت سے بات کرتا ہے وہ بھی اُن کو عزت دیتے ہیں۔
نیرج چوپڑا کا یہ بیان پچھلے ماہ سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے اُن پرشدید تنقید کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اُنہوں نے ارشد ندیم کو بھارت آکر ٹورنامنٹ میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
لیکن پاک، بھارت کشیدگی کے سبب یہ ایونٹ منسوخ ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ پیرس اولمپکس میں نیرج چوپڑا اپنے گولڈ میڈل کا دفاع نہیں کر سکے تھے اور ارشد ندیم نے اولمپکس کے ریکارڈ کے ساتھ گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا جبکہ نیرج نے سلور میڈل جیتا تھا۔
پیرس اولمپکس کے دوران ارشدندیم نے اپنی دوسری تھرو 92.
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نیرج چوپڑا
پڑھیں:
معرکہ حق کا اعتراف ِ حق
معرکہ حق کا اعتراف ِ حق WhatsAppFacebookTwitter 0 15 August, 2025 سب نیوز
نوید امان خان. پن پوائنٹ
وطن عزیز کے اٹھہتر سال کی آزادی کا جشن معرکہ حق کی فتح کی سرشاری نے دوبالا کردیا ہے۔ حصول آزادی سے تحفظ آزادی کے سفر میں قوم زخم کھاتی، کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹتی اس منزل تک آن پہنچی ہے لیکن الحمدللہ ، قومی وجود پر زخم لگنے کے باوجود اس کی قوت مزمحل نہیں ہوئی بلکہ اُس کے عزم واردارے کی حرارت اور توانائی مزید بڑھی ہے۔ یوم آزادی کے رنگ معرکہ حق میں اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات کو اعزازات کی تفویض سے مزید نکھر گئے۔ شیرِ پاکستان فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحرشمشاد مرزا، شاہین ِ پاکستان ائیر چیف مارشل ظہیر بابر سدھو، پاکستان کے پانیوں میں وطن کی حفاظت یقینی بنانے والے ایڈمرل نوید اشرف سمیت افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں، شہدائے پاکستان، سول سروس کے افسران اور صحافتی شخصیات کے علاوہ دلیر شہریوں کو اعزازت عطا کئے گئے۔ تقریب کا سب سے خوبصورت پہلو وہ منظر تھا جب شہیدوں کے والدین ، اہل خانہ اور معرکہ حق میں زخمی ہونے والے جوانوں کی آمد پر فیلڈمارشل سمیت عسکری قیادت اور تمام حاضرین محفل نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر احترام اور عقیدت کا اظہار کیا۔ اس منظر سے کئی حاضرین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وطن کے لئے اس سے بڑی قربانی نہیں ہوسکتی جس کا اعزاز و اکرام اور انعام تو بس اللہ کریم ہی عطا فرماسکتے ہیں۔ تقریب کا دوسرا خوبصورت پہلو یہ تھا کہ پاکستان کے دفاع، سلامتی اور عزت و وقار کے لئے ہر محاذ پر خدمات انجام دینے والوں کی پزیرائی ہوئی۔ یہ پوری قوم کی وحدت اور وطن کے لئے ایک ہوکر لڑنے کا پیغام تھا۔ یہی وہ جذبہ ہے جو پاکستان کی ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ شکووں، گلوں اور محرومیوں کی بات ہوسکتی ہے لیکن کچھ مرحلے ایسے ہوتے ہیں جن میں اِن سب کو بھلا کر ایک بڑے مقصد کے لئے ایک ہونا ہی دانشمندی اور قومی بقا کے اعلی نصب العین کی تکمیل کا تقاضا ہوتا ہے۔اعزازات کی تقاریب تو کوئی نئی بات نہیں ، یہ ہر سال کی روایت ہے لیکن معرکہ حق کی نسبت نے اسے خاص بنا دیا جس میں کئی خاص پہلو اور بھی تھے جن میں ایسے افراد بھی شامل تھے جنہیں سچ میں کہا جائے تو ’گم نام ہیروز‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ایسا ہی ایک نام عزیزم ارشد محمود ملک کا بھی تھا۔ رحمت خدا وندی کا جانے کون سا جلوہ تھا جو ایک سوٹڈ بوٹڈ اور سجے سنورے جوان ارشد ملک کو فقروگوشہ نشینی کی زندگی کی طرف لے گیا۔ بقول استادگرامی عرفان صدیقی، ارشد ملک درویش ہے۔ پرانے دوست ہونے اور ارشد ملک کو قریب سے جاننے کی وجہ سے میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ وزیراعظم محمد شہباز شریف صاحب کی ذاتی سرپرستی اور ایک جوان رعنا با صلاحیت لکھاری کی عزت افزائی ہے بلکہ میں یاروں کے یار جاوید شہزاد مرحوم کو یاد کرتے ہوئے بس یہ گواہی دوں گا کہ ’ارشد ملک تمہیں ماں جی کی دعا لگ گئی ہے جن کی محبت آج بھی آنسو بن کر تمہاری آنکھوں سے رواں ہوجاتی ہے۔‘ آج ماں جی حیات ہوتیں تو جناب صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہاتھوں تمہارے سینے پر سجنے والے اعزاز پر بہت خوش ہوتیں اور اُن کی تمام عمر کی محنت کی تھکن اتر جاتی۔ ارشد ملک کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ اپنے لئے کچھ نہ کرنے پر ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتا ہے لیکن شکر ہے کسی نے تو اس کی گوشہ نشینی میں انقلاب برپا کردینے والی صفت کا اعتراف کیا۔ تحریک انصاف کو’ تحریک‘ میں بدلنے والے دو مخلص کردار اکبر ایس بابر اور ارشد ملک ہیں لیکن دونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ہی کریڈٹ لینے اور خودنمائی سے سینکڑوں کوس دور رہتے ہیں۔ دوسروں کو آگے کرکے خود پیچھے ہوجاتے ہیں۔ ارشد ملک نے تو نہایت روشن صحافتی کیرئیر اور ایک بڑے چینل میں آفر بھی نظریے کی لگن میں قربان کردی تھی لیکن اللہ تعالی کسی کی محنت رائیگاں نہیں فرماتا۔
جناب عطاءاللہ تارڑ جواں سال ہی نہیں جواں ہمت بھی ہیں جنہوں نے جس دلیری سے پی ٹی آئی کے دورِ انتقام کا سامنا کیا تھا اور وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ عدالتوں اور انتقام گاہوں میں پروانہ وار موجود رہتے تھے، اسی دبدبے، تنتنے اور ہمہمے سے بھارت کو ابلاغی محاذ پر ناک آﺅٹ کردیا۔ محترمہ عنبرین جان قابل فخر ہیں۔وہ 1965 کی جنگ میںوطن عزیز پر قربان ہونے والے والد میجر عارف جان شہید کی بیٹی ہیں۔ حلیم طبعیت اور پیشہ ورانہ قابلیت اُن کی پہنچان ہے۔ ہمیشہ دلنشیں مسکراہٹ کے ساتھ دوستوں کو سینے سے لگا لینے والے مبشر حسن اگرچہ پرنسپل انفارمیشن افسر کی نہایت دو دھاری تلوار پر چلنے والی نوکری پر مامور ہیں لیکن اُن کی زندہ دل شخصیت ایسی طلسم ہوشربا ہے جس میں جانے والا پھر اس سے نکل نہیں پاتا۔ کبھی راضی نہ ہونے کی پہچان رکھنے والے میڈیا کو راضی رکھنا وہ جانتے ہیں۔ کسی کو ناراض نہیں ہونے دیتے۔ یہ خداد صلاحیت اپنی جگہ لیکن معرکہ حق میں انہوں نے خاموشی سے جو کردار ادا کیا ہے، انہیں ملنے والا تمغہ اصل میں اس کی عوامی سطح پر اعتراف کی شہادت ہے۔جناب مجیب الرحمن شامی، حامد میر، جاوید چوہدری، سلیم صافی، عامر الیاس رانا سمیت دیگر صحافی دوستوں کو بھی اعزازات سے نوازا گیا جو پوری صحافتی برادری کے لئے اعزاز ہے۔ میری اُن تمام دوستوں سے گزارش ہوگی کہ کسی کی عزت افزائی پر خوش ہونا سیکھیں جو کیڑا کاری کی چھابڑیاں لگا کر سبزی فروش کی طرح حسد کی سودا فروشی میں مبتلا ہیں۔ اعزاز محض ایک اعتراف ہوتا ہے۔ اصل بات خوشیاں بانٹنا اور ایک دوسرے کی قدر افزائی کرنا ہے جس میں ہم کنجوس ہوتے جارہے ہیں۔ ارشد ملک کو اعزاز سے نوازا گیا تو کامران شاہد کے پروگرام میں حاسدانہ طعنہ زنی پر افسوس ہوا. رنج ہوتا ہے جب صحافت میں ساری زندگی ساکھ، دیانت اور پیشہ ورانہ عزت کمانے والوں کو آج کے دیہاڑی دار”بازاری تجزیہ نگاری” کی ناوک میں دشنام کے تیر رکھ کر نشانہ بناتے ہیں۔ مصطفی خاں شیفتہ کی زباں میں ‘دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ۔۔۔۔’
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا کہ بے عیب انسان مت ڈھونڈو ورنہ اکیلے رہ جاﺅ گے۔ ہم خامیوں خوبیوں کا مجموعہ ہیں۔ گندگی ڈھونڈ کر اُس پر بیٹھنے والی مکھی بننے کے بجائے، شہد کی مکھی بننا زیادہ درست رویہ ہے جو ہر پھول پر بیٹھتی اور اس سے شہد بناتی ہے۔ محبت سے بڑی کوئی طاقت نہیں، احترام اور اخلاق سے بڑھ کر کوئی اور قرینہ نہیں ہوسکتا جس سے خدا بھی خوش ہوتا ہے، جو نبی اکرم ﷺ کی سنت پاک ہے اور جس سے دِل قریب آتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کے بارے میں جانے بغیر ہی طنز اور تنقید کی یلغار کردینا ایسا ہی ہے جیسے پہلگام کے جھوٹ کی بنیاد پر پاکستان پر بھارت کی حملے کی حماقت۔ اِن دونوں رویوں کا انجام ہزیمت اور رسوائی پر ہوتا ہے۔ ایسے کرداروں کے خلاف رب کریم معرکہ حق کرتا ہے ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور مائیکرونیشیا میں باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات کا آغاز ہوگیا آزادی کا 78 سالہ سفر اور خواتین کا کردار امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی بی ایل اے بے نقاب: دہشت گردی اور مودی کی پشت پناہی کا گٹھ جوڑ سردار ایاز صادق، جامعہ نعیمیہ اور حلقہ کی تبدیلی واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج آزادی کا مطلب کیا؟ — تجدیدِ عہد کا دنCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم