فواد چوہدری آپ جیل سے نہ ڈریں جیل تو سیاست دانوں کو لیڈر بناتی ہے، جج سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہاشم نے فواد چوہدری سے کہا ہے کہ آپ سیاسی آدمی ہیں جیل سے نہ ڈریں، جیل تو سیاست دانوں کو لیڈر بناتی ہے، گھبرائیں نہیں آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں فواد چوہدری کی 9 مئی مقدمات کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ فواد چوہدری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے مقدمات کے خلاف درخواست پر اعتراضات لگائے، اپیل میں ججز نے اعتراضات کو برقرار رکھا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اعتراضات برقرار رکھنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی، ہائی کورٹ کا آرڈر فیصلہ کم اور شاہی فرمان زیادہ لگ رہا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ 9 مئی کے بعد سات ماہ جیل میں رہا جیل سے نکلے تو 35 مقدمات مختلف شہروں میں درج تھے، ملتان، فیصل آباد، لاہور اور راولپنڈی میں اعانت جرم کے مقدمات ہیں، اعتراض لگایا گیا کہ برانچ رجسٹری کے ہوئے ہوئے ہائیکورٹ کی پرنسپل سیٹ پر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔
پراسیکیوشن کی جانب سے فواد چوہدری کی درخواست پر اعتراض کردیا گیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ وجوہات پر مبنی تفصیلی فیصلہ کر دے تو پراسیکیوشن کو کیا مسئلہ ہے؟ فواد چوہدری نے کہا کہ پراسیکیوٹر صاحب آپ بلاوجہ جذباتی ہو رہے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے فواد چوہدری سے کہا کہ آپ سیاسی آدمی ہیں جیل سے نہ ڈریں، جیل تو سیاست دانوں کو لیڈر بناتی ہے، گھبرائیں نہیں آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ پہلے بھی جیل گئے ہیں دوبارہ چلے جائیں گے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شائستہ لودھی کے ویڈیو کلپ پر 85 مقدمات درج ہوئے، کوئٹہ میں 84 مقدمات میں نے خارج کیے تھے، ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کے اختیارات ختم نہیں ہوسکتے، مختلف شہروں میں بنچ تو لوگوں کی سہولت کیلئے بنائے جاتے ہیں۔
عدالت نے مزید سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فواد چوہدری نے کہا کہ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ہائی کورٹ جیل سے
پڑھیں:
جائیداد نیلامی کیس، 14 سال زیر التوا، درخواست خارج کی جاتی ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) نے جائیداد نیلامی کیس سے متعلق فیصلہ جاری کردیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ میں اپیل 10 سال تک زیر التوا رہی جبکہ سپریم کورٹ میں اس کی مزید 3 سال سماعت ہوئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جائیداد نیلامی کیس 14 سال زیر التوا رہا، اس کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ انصاف میں تاخیر اکثر انصاف کو ختم کر دیتی ہے، تاخیر سے انصاف عوام کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ آئین بروقت اور منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے، ملک میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ انصاف میں تاخیر کمزور طبقات کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے، سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے باوجود تقریباً 56 ہزار مقدمات زیر التواء ہیں۔
فیصلے میں جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ جدید کیس مینجمنٹ اور مصنوعی ذہانت سے تاخیر ختم کی جا سکتی ہے۔