پاک بھارت تعلقات، درپیش چیلنجز
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
پاکستانی قوم نے یوم تشکر ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ دشمن کے ساتھ وہ کیا جسے دنیا یاد رکھے گی، اب کامل یقین ہے کہ آبی وسائل کی تقسیم، جموں و کشمیر تنازعہ سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کرنے کے لیے مستقل امن کا راستہ اپنایا جائے گا۔
بلاشبہ ہماری مسلح افواج نے نہ صرف بھارت کی عسکری حکمتِ عملی کو شکست دی بلکہ مغربی دنیا کے عسکری ماہرین کو بھی حیران کردیا۔ درحقیقت پاکستانی فوج محض ایک دفاعی قوت نہیں بلکہ ایک ایسی پیشہ ور فوج ہے جو ہر سطح پر کسی بھی چیلنج کا سامنا کرسکتی ہے۔ عسکری تجزیہ کاروں نے پاکستان کی اس کامیابی کو ایک ’’بڑی اسٹرٹیجک فتح‘‘ قرار دیا ہے۔
اس جنگ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکستانی افواج کا انٹیلیجنس نظام، لاجسٹک سپورٹ اور فیصلہ سازی کا عمل دنیا کی بڑی افواج کے معیار پر پورا اترتا ہے۔درحقیقت مودی کی اس چال کا واضح مقصد پاکستان کو اشتعال انگیزی پر اُکسا کر عالمی سطح پر تنہا کرنا تھا لیکن پاکستان کی طرف سے اس ساری صورتحال کو کمال صبر و تحمل سے ہینڈل کیا گیا۔ پاکستان نے چینی جنگی جہازوں اور میزائلوں کی مدد سے بھارتی جارحیت کو خطے کے توازن میں بدل دیا ہے۔ بھارت کی نفسیاتی برتری، جو اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھی، نیست و نابود ہو چکی ہے۔ نہ صرف بھارت کی نفسیاتی برتری بلکہ اس کے جنگی جہاز بالخصوص تین رافیل طیارے بھی تباہ ہوئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بھارت کا اَکھنڈ بھارت کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نئے دورکا آغاز ہے۔ دنیا اب پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اب خطے کی قیادت پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ جریدے دی ڈپلومیٹ نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاک بھارت حالیہ جنگ میں پاکستان کی فتح اور بھارت کی سفارتی و عسکری ناکامی کو تسلیم کر لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کو عسکری محاذ پر پاکستان کے جوابی حملوں کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ سفارتی سطح پر بھی اسے عالمی تنقید اور خفت اٹھانا پڑی۔ دی ڈپلومیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنی دفاعی تیاریوں اور سیاسی بصیرت سے دنیا کو متاثر کیا ہے۔
یہ بات اب امریکا سمیت بین الاقوامی برادری کے بہت سے ارکان مان رہے ہیں کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو دیکھا جائے تو پون صدی سے زائد عرصے سے حل طلب یہ مسئلہ عالمی برادری کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
بھارت نے تنازع کشمیر پر امریکی ثالثی کی پیشکش کو ایک بار پھر ٹھکرا دیا ہے، بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے واضح کردیا ہے کہ بھارت اور پاکستان دو طرفہ طور پر مسائل حل کریں گے، اس معاملے پر کئی برسوں سے قومی اتفاق رائے ہے کہ پاک بھارت مسائل دو طرفہ طور پر حل کیے جائیں گے اور اس پالیسی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، دوسری جانب بھارتی میڈیا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بھی زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ نریندر مودی ہندوستان کے متنازع ترین کردار رہے ہیں، ان کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، مسلمانوں کے خلاف نفرت ابھارنے میں ان کا اہم کردار ہے۔
انھوں نے ہندو انتہا پسند تنظیم ’’ آر ایس ایس‘‘ سے تربیت پائی۔ خیال یہی کیا جا رہا تھا کہ انتخابات میں آستینیں چڑھا کر تقریریں کر کے لوگوں میں جوش ابھارنے کے بجائے اب وہ ہوشمند رہنما ثابت ہوں گے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ مذہبی منافرت کو جو ان کے کردار کے ساتھ جڑ چکی ہے کو اپنے جسم سے کیسے دور کر سکتے تھے۔ اب ان کا خیال تھا کہ ان کے پاس چونکہ جدید اسلحہ ہے اس لیے انھوں نے ایک بار پھر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی کیونکہ مودی اور اس کے حواری پورے ساؤتھ ایشیا کو گریٹر انڈیا اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے واحد راستہ اکھنڈ بھارت سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی فوجی حکمتِ عملی اور دلیرانہ اقدامات کی بناء پر مودی کی چھیڑی ہوئی جنگ کو بھارت کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی شکست میں تبدیل کر دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں ایک طویل عرصے کے بعد کشمیر کا ایشو ایک بار پھر سے دنیا کی نظروں میں آ گیا ہے۔
دنیا کو سمجھ جانا چاہیے کہ مستقل امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل بنیادی عمل ہے۔ پاکستان کی تمام قوتیں بھارت کے ساتھ بہرحال اچھے تعلقات کی خواہشمند ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی وہ پر امن اور منصفانہ عمل کی حامی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس بھارت میں ایک کثیر تعداد موجود ہے جو مذہبی انتہا پسندی کی قائل ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف رہتی ہے۔ اس جنگ کے بعد صورتحال بدل چکی ہے اور اب پاکستان کو اپنے قومی مفادات بالخصوص مسئلہ کشمیر پر اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
صدر ٹرمپ جو جنگ بندی کے عمل میں سہولت کار کے طور پر سامنے آئے ہیں ان سے مظلوم کشمیری توقع کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ اور دیگر امریکی حکومتی عہدیداروں کی کوششوں سے جنگ بندی ممکن ہوئی ہے اور جنگ بندی بھارت کے مفاد میں ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھارتی حکومت کے قابو سے باہر ہونے کا ادراک سب کو ہے۔
بھارت ہر بار کشمیر میں ہونے والے کسی بھی واقعہ کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرا دیتا ہے جب کہ چند سال قبل بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کٹجو نے مودی کو انتباہ کیا تھا کہ کشمیری حریت پسندوں نے جس طرح کی تحریک شروع کر رکھی ہے وہ دن دور نہیں جب کشمیری حریت پسند وقت اور جگہ کا خود تعین کر کے بھارتی فوجیوں پر چھاپہ مار حملوں کا سلسلہ تیز کریں گے جن میں ہربار بھارتی فوجیوں کا جانی نقصان ہوگا اور بھارتی فوج کے لیے ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہوگی، کیونکہ کشمیر کی تقریباً پوری آبادی بھارت کے خلاف اور حریت پسندوں کے ساتھ ہے۔ خود بھارتی دانشور اس بات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ بھارت 10 کیا 70 لاکھ فوج بھی کشمیر میں لگا دے تحریکِ آزادی کو دبا نہیں سکتا جب کہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں عالمی امن تہہ و بالا ہو جائیگا، لہٰذا بھارتی میڈیا، عوام اور اپوزیشن کو ٹرمپ کی ثالثی میں مسئلہ کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی تو ہو گئی لیکن سرحد پار سے آنے والے بیانات، تقریروں اور اشاروں پر غور کیا جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ جنگ کے بادل ابھی چھٹے نہیں ہیں، اور بھارتی قیادت نے پاکستان کے ہاتھوں جو ہزیمت اٹھائی ہے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بھارت کے گودی میڈیا کی ہرزہ سرائی تو پہلگام فالز فلیگ آپریشن کے بعد پہلے روز سے ہی جاری ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاک بھارت تناؤ کو اس حد تک بڑھانے میں سب سے گھناؤنا کردار بھارت کے گودی میڈیا کا ہی ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑی ہوئی تھیں۔ لگتا ہے کہ یہ دھول ابھی پوری طرح بیٹھی نہیں ہے، اور مستقبل قریب میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کچھ نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نریندر مودی نے یہ بات بھی بالکل درست کہی کہ تجارت اور دہشت گردی دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسی لیے تو پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو ہر قسم کی دہشت گردی کی فنڈنگ بند کر دینی چاہیے تاکہ اس خطے میں تجارت کو فروغ دیا جا سکے اور اس خطے میں بسنے والے عوام کی ترقی اور بہبود کے بارے میں سوچا جا سکے۔ جہاں تک جنگ بندی کے بعد مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ ذمے داری جنگ بندی کرانے والے ممالک کی ہے کہ وہ مودی کو اس ایجنڈے سے ہٹنے نہ دیں جس کو سامنے رکھ کر یہ جنگ بندی عمل میں لائی گئی۔
جنگ بندی مذاکرات میں دہشت گردی کے حوالے سے معاملات ضرور زیر غور آئیں گے، لیکن اس دہشت گردی کے بارے میں بات ہو گی جو بھارت اس خطے اور پوری دنیا میں پھیلانے کی عملی کوششوں میں مصروف ہے، اور یہ بات کہہ کر مودی اپنے عوام کو تو بے وقوف بنا سکتے ہیں کہ مذاکرات میں کشمیر کے حوالے سے بات ہوئی تو وہ آزاد کشمیر ہو گا لیکن پاکستان کو دھوکا نہیں دے سکتے، کیونکہ پاکستان کی جانب سے جب بھی کشمیر کی بات کی گئی ہے تو اس کا مطلب مقبوضہ کشمیر ہوتا ہے، جس پر بھارت نے 77 برسوں سے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد سے بھی مسلسل گریزاں ہے۔ یہ کہنا بے جانا ہو گا کہ بھارت کے پہلگام فالز فلیگ آپریشن اور اس کے بعد پاکستان کو دی گئی دھمکیوں، اس پر کیے گئے حملوں اور اس کی سرزمین پر بھیجے گئے ڈرونز کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اجاگر اور نمایاں ہو کر اقوام عالم کے سامنے آئی ہے وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسئلہ کشمیر پاکستان کو پاکستان کے پاکستان کی اور بھارت پاک بھارت بھارت کے بھارت کی کہ بھارت نے والے کے ساتھ میں پاک کے خلاف کہ پاک جنگ کے یہ بات ہیں کہ اور اس ہے اور کے بعد دیا ہے کے لیے
پڑھیں:
بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251003-03-7
شاہنواز فاروقی
بھارت کا جغرافیہ اور آبادی ہاتھی کی طرح ہے مگر بھارت کی ہندو قیادت کا دل، دماغ اور ظرف چیونٹی کی طرح ہے۔ چنانچہ بھارت کی ہندو قیادت نے سیاست کو کھیل اور کھیل کو سیاست بنادیا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کرکٹ کا ایشیا کپ پاکستان میں ہونا تھا مگر بھارت نے اعلان کردیا کہ اس کی ٹیم پاکستان نہیں جائے گی۔ چنانچہ ایشیا کپ کو دبئی منتقل کرنا پڑا، لیکن بھارت کی ہندو قیادت یہاں بھی چھوٹے پن سے باز نہ آئی، چنانچہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان سوریا کمار نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ حد یہ کہ بھارت نے ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کو شکست دینے کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ اور پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار کردیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں مغربی دنیا اور سوویت یونین کے درمیان شدید ترین محاذ آرائی موجود تھی لیکن مغربی دنیا میں اولمپک مقابلے ہوتے تھے تو سوویت کھلاڑی اولمپک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ لیکن بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن کھیل میں بھی سیاست لے آیا ہے۔ بھارت کو پاکستان سے ایسی ہی نفرت ہے تو اسے ایشیا کپ کے مقابلوں میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے تھا۔
بعض پاکستانیوں کا خیال یہ ہے کہ بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن صرف بی جے پی کی قیادت کے ساتھ مخصوص ہے لیکن ایسا نہیں ہے بھارت کی ہندو قیادت ڈیڑھ سو سال سے ہر مرحلے پر چھوٹے پن کا مظاہرہ کررہی ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی سے بڑا رہنما ہندوستان نے پیدا نہیں کیا مگر گاندھی کے زمانے میں ہندو ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلائے ہوئے تھے۔ اس تحریک کے تحت غریب مسلمانوں کو پیسے کا لالچ دے کر ہندو بنایا جارہا تھا اور ان سے کہا جارہا تھا کہ تم کبھی ہندو ہی تھے۔ تم برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد مسلمان ہوئے۔ چنانچہ تم ایک بار پھر ’’پاک‘‘ یا ’’شدھ‘‘ ہو کر دوبارہ ہندو ازم کا حصہ بن جائو۔ گاندھی شدھی کی اس تحریک سے پوری طرح آگاہ تھے۔ مگر انہوں نے کبھی ہندوئوں سے یہ
نہیں کہا کہ تم مسلمانوں کو لالچ دے کر اور دبائو ڈال کر کیوں ہندو بنارہے ہو۔ مولانا محمد علی جوہر اس پوری صورت حال سے آگاہ تھے اور وہ اپنے اخبار کامریڈ میں گاندھی سے چیخ چیخ کر پوچھ رہے تھے کہ آپ مسلمانوں کو زبرستی ہندو بنانے کی مہم کا نوٹس کیوں نہیں لیتے؟ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار تھے۔ ان کا افسانہ عیدگاہ معرکہ آرا اور اردو کے دس بڑے افسانوں میں سے ایک ہے۔ اس افسانہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریم چند اسلام اور اسلامی تہذیب سے بے انتہا متاثر تھے مگر پریم چند گاندھی کے زیر اثر آگئے تو انہوں نے اردو میں افسانے اور ناول لکھنا ترک کردیا اور وہ ہندی میں افسانے اور ناول لکھنے لگے۔ حالانکہ اردو اور ہندی کا باہمی تعلق یہ ہے کہ اردو کا 30 فی صد ذخیرۂ الفاظ ہندی سے آیا ہے اور مسلمانوں نے ہندی کے اس ذخیرۂ الفاظ کو ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا ہے اور کبھی اس ذخیرۂ الفاظ سے تعصب نہیں برتا۔ گاندھی کے مسلمانوں سے تعصب برتنے کی ایک اور بڑی مثال یہ ہے کہ نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔ گاندھی کو اس کی اطلاع ملی تو وہ بہت ناراض ہوئے، انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ تمہیں کروڑوں ہندو نوجوانوں میں ایک بھی اس قابل نہیں لگا کہ تم اس سے شادی کرو۔ تمہیں پسند آیا تو ایک مسلمان۔ گاندھی وجے لکشمی پنڈت کو سخت سست کہہ کر نہیں رہ گئے۔ انہوں نے ان کی شادی ختم کرادی۔
بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ایک سیکولر انسان تھے۔ اردو ان کے اپنے الفاظ میں ان کی مادری زبان تھی۔ درجنوں مسلمانوں سے نہرو کی دوستیاں تھیں مگر 1947ء میں جب ہندوستان میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے اور ان فسادات نے دہلی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک دن نہرو سے کہا کہ دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ چنانچہ آپ کو اس سلسلے میں فوراً کچھ کرنا چاہیے۔ نہرو نے کہا تو صرف یہ کہ میں وزیر داخلہ سردار پٹیل سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ وہ مسلم کش فسادات کو روکیں مگر وہ میری بات ہی نہیں سنتے۔ نہرو گاندھی کے بعد کانگریس کی اہم ترین شخصیت تھے، وہ بھارت کے وزیراعظم تھے، یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ وزیرداخلہ سے کچھ کہیں اور وزیر داخلہ ان کی بات نہ مانے۔
پاکستان ایک پرامن جدوجہد کا حاصل تھا، چنانچہ اس کی تخلیق کو بھی پرامن ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہندو قیادت نے تخلیق پاکستان کو خون آشام بنادیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے فسادات میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔ ہزاروں مسلمان خواتین اغوا ہوئیں، یہاں تک بھارت نے پاکستان کے حصے کے اثاثے روک لیے۔ یہ عمل اتنا ہولناک اور شرمناک تھا کہ گاندھی کو اس پر شرم آگئی اور انہوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی۔ چنانچہ بھارتی حکومت کو پاکستان کے حصے کی رقم جاری کرنی پڑ گئی۔
1970ء میں مشرقی پاکستان کے اندر جو سیاسی بحران پیدا ہوا وہ پاکستان کا ’’داخلی معاملہ‘‘ تھا مگر اندرا گاندھی نے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں فوج داخل کردی۔ چنانچہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوگیا۔ یہ بھارت کی ایک بہت ہی بڑی کامیابی تھی اور بھارت کی قیادت اس پر جتنا خوش ہوتی کم تھا، مگر اندرا گاندھی صرف مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنا کر خوش نہیں ہوئیں۔ انہوں نے قوم سے خطاب فرمایا اور کہا کہ آج ہم نے (مسلمانوں سے) ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ اندرا گاندھی کے اس بیان سے ثابت ہوا کہ ہندو قیادت کا مسئلہ صرف پاکستان نہیں اسلام بھی ہے۔ ہندو قیادت صرف پاکستان کو نیست و نابود نہیں کرنا چاہتی وہ اسلام کو بھی صفحہ ہستی سے مٹادینے کا خواب دیکھتی ہے۔
بابری مسجد 1992ء میں شہید کی گئی۔ اس وقت بھارت پر بی جے پی کی نہیں کانگریس کی حکومت تھی۔ اس وقت کانگریس کے نرسہمارائو ملک کے وزیر اعظم تھے۔ وہ بابری مسجد کے اطراف میں 20 ہزار پولیس والے تعینات کردیتے تو بابری مسجد کی شہادت کو روکا جاسکتا تھا۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے پورے دن نرسہما رائو سوتے رہے اور ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد شہید کردی۔
بھارت کے ڈاکٹر ذاکر نائک کا تعلق کسی ’’اتنہا پسند‘‘ تنظیم سے نہیں ہے۔ وہ کھلے عام مکالمے کے قائل ہیں۔ وہ اپنے علم سے مذاہب عالم کی مماثلتوں اور امتیازات کو عیاں کرتے ہیں۔ ان کی فکر سے متاثر ہو کر سہکڑوں ہندو مسلمان ہوئے ہیں۔ مگر بھارت کی کم ظرف ہندو قیادت انہیں بھی برداشت نہ کرسکی۔ ہندو قیادت نے ذاکر نائک پر بھی انتہا پسندی کا الزام لگادیا اور ذاکر نائک کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ بھارت کے ہندوئوں کی آبادی ایک ارب 15 کروڑ ہے مگر بھارت کی اتنی بڑی آبادی ڈاکٹر ذاکر کا علمی مقابلہ نہ کرسکی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر بھارت کی ہندو قیادت کے چھوٹے پن کے اسباب کیا ہیں؟
بھارت کی ہندو اکثریت 1200 سال سے غلام چلی آرہی ہے۔ وہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی اور 200 سال تک انگریزوں کی غلام رہی۔ انسان غلامی کو قبول کرلے تو اس کی ہر چیز چھوٹی ہوجاتی ہے۔ دل و دماغ اور ظرف بھی۔ چنانچہ ہندو قیادت کے چھوٹے پن کی ایک وجہ غلامی ہے۔ ہندو قیادت کے چھوٹے پن کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندو ازم ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ اس میں اسلام جیسی آفاقیت نہیں ہے۔ ’’مقامیت‘‘ کی پوجا قوموں کی ہر چیز کو چھوٹا کردیتی ہے جو مذہب ذات پات کے تعصب کا شکار ہو کر اپنے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرسکے وہ ’’غیروں‘‘ کے ساتھ اچھا سلوک کیسے کرے گا؟