data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251118-01-14

ڈھاکا (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) بنگلا دیش میں انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے 78 سالہ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔ جسٹس غلام مرتضیٰ موجمدار کی سربراہی میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا، ٹریبونل کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس شفیع العالم محمود اور جج محیط الحق انعام چودھری شامل تھے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈھاکا میں قائم انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے حسینہ واجدکے خلاف ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا، اس موقع پر سخت سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔عدالت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر حسینہ کو عمر قید اور بغاوت کے دوران کئی افراد کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی۔موت کی سزا سنائے جانے کے بعد عدالت کے اندر تالیاں اور خوشی کے نعرے سنائی دیے، یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’الزام نمبر ایک کے مطابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے اپنی پارٹی کے کارکنان کوطلبہ کے خلاف اکسانے والا حکم دے کر اور ضروری اقدامات نہ کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی‘۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’الزام نمبر 2 کے مطابق شیخ حسینہ نے ڈرون، ہیلی کاپٹر اور مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دے کر انسانیت کے خلاف ایک اور جرم کا ارتکاب کیا‘۔خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جج غلام مرتضیٰ ماجد مجمدار نے ڈھاکا کی بھری ہوئی عدالت میں فیصلہ پڑھ کر سنایا کہ حسینہ واجد 3 الزامات میں مجرم پائی گئیں جن میں مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے لوگوں کو اکسانا، قتل کا حکم دینا، اور مظالم کو روکنے میں غفلت شامل ہیں۔ جج نے کہا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں صرف ایک سزا دی جائے گی اور وہ ہے موت کی سزا‘۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ سال 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے، جو 1971ء کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلا دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔شیخ حسینہ اگست 2024ء میں بنگلا دیش چھوڑ کر نئی دہلی میں جلاوطنی میں رہ رہی ہیں۔ حسینہ واجد کو عدالت کے لیے ریاستی وکیل فراہم کیا گیا لیکن انہوں نے عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ تمام الزامات کو رد کرتی ہیں۔ ڈھاکا میں فیصلے کی تاریخ مقرر ہونے پر عدالت کے اردگرد سیکورٹی فورسز موجود تھیں اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے چیک پوائنٹس مضبوط کیے گئے۔ڈھاکا میونسپل پولیس کے ترجمان طالب الرحمٰن نے کہا کہ فیصلے کے لیے پولیس ہائی الرٹ پر تھی اور دارالحکومت کے اہم چوراہوں پر چیک پوائنٹس قائم کیے گئے ‘ تقریباً آدھی تعداد یعنی 34 ہزار میں سے 17ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات رہے۔ حسینہ واجد نے یہ بھی خبردار کیا کہ ان کی سابقہ حکمران جماعت عوامی لیگ پر عبوری حکومت کی پابندی ملک میں 17 کروڑ افراد خاص طور پر انتخابات سے قبل کے لیے سیاسی بحران کو بڑھا رہی ہے۔بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ عدالت جو مرضی فیصلہ کرے مجھے پرواہ نہیں ‘ہم سب کچھ یاد رکھیں گے‘ہر چیز کا حساب لیا جائے گا‘میں اپنے ملک کے لوگوں کیلیے کام کرتی رہوں گی۔نوبیل انعام یافتہ محمد یونس میں کام کرنے والے عبوری حکومت کے ایک ترجمان نے مقدمے کے سیاسی محرکات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے شفاف طور پر کام کیا اور مبصرین کو اس کی دستاویز شائع کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ پر سے پابندی ہٹائے جانے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے، عبوری حکومت کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی، خصوصاً جلاوطن قیادت کی جانب سے کیے گئے اقدام کو انتہائی غیرذمہ دارانہ اور قابل مذمت سمجھتی ہے۔ اسلامی چھاترا شِبیر نے جولائی تا اگست 2024ء کی طلبہ و عوامی بغاوت کے دوران انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم کے مقدمے میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے فیصلے کو قوم کی توقعات کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ٹریبونل نے سابق وزیراعظم حسینہ واحد، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خاں کمال اور سابق آئی جی پی چودھری عبداللہ المأمون کو سزائے موت سنائی ہے۔ اسلامی چھاترا شِبیر کے مرکزی صدر جاہد الاسلام اور سیکرٹری جنرل نُر الاسلام صدام نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ اُن خاندانوں کے لیے امید کی پہلی کرن ہے جن کے بچے، والد، شوہر اور پیارے ریاستی جبر کے نتیجے میں بے دردی سے قتل کیے گئے‘ پورے ملک میں ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کی گئی‘ جولائی کی بغاوت کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ چاترا لیگ، جوبو لیگ اور عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے بھی قتل و غارت میں حصہ لیا۔ اس قتل عام کی اصل منصوبہ ساز مفرور فاشسٹ حسینہ تھی، جس کے حکم پر پورے ملک میں 133 بچوں سمیت ہزاروں طلبہ و شہریوں کو شہید کیا گیا۔ شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں سزائے موت سنا دی گئی، فیصلے کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبہ نے مٹھائی تقسیم کرکے جشن منایا۔شیخ حسینہ واجد کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ اور ڈھاکا یونیورسٹی سینٹرل اسٹوڈنٹس یونین کے رہنماؤں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔گزشتہ روزاسٹوڈنٹ یونین نے سہ پہر شیخ حسینہ کے فیصلے کو بڑی اسکرین پر براہِ راست نشر کرنے کا انتظام کیا، جسے دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں طلبہ اساتذہ اور دیگر لوگ جمع ہوئے تھے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انسانیت کے خلاف جرائم حسینہ واجد سزائے موت بنگلا دیش عدالت نے کے دوران کے مطابق عدالت کے کیے گئے کے لیے کے بعد کہا کہ

پڑھیں:

بنگلہ دیش کی عدالت نے حسینہ واجد کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مرتکب قرار دیدیا

ڈھاکا(انٹرنیشنل ڈیسک) بنگلہ دیش کی عدالت نے سابق وزیراعظم حسینہ واجدکو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مجرم ٹھہرادیا۔

سابق وزیراعظم حسینہ واجد کیخلاف انسانیت کے جرائم کا مقدمہ گزشتہ سال سے زیر سماعت تھا جس میں انہیں سزائے موت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ سال 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔

17 کروڑ سے زائد آبادی والا بنگلہ دیش دنیا کے بڑے گارمنٹس برآمد کنندگان میں شامل ہے اور بڑے عالمی برانڈز کو سامان فراہم کرتا ہے، پچھلے سال کے احتجاجات کی وجہ سے اس صنعت کو سخت نقصان پہنچا۔

شیخ حسینہ اگست 2024 میں بنگلہ دیش چھوڑ کر نئی دہلی میں جلاوطنی میں رہ رہی ہیں۔

78 سالہ حسینہ نے عدالت کے احکامات کو رد کرتے ہوئے عدالت میں پیشی کے لیے بھارت سے واپس آنے سے انکار کر دیا تھا، جس میں یہ تعین ہونا تھا کہ آیا انہوں نے اگست 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج پر جان لیوا کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں وہ برطرف ہو گئیں۔

اگر انہیں مجرم قرار دیا گیا تو انہیں ممکنہ طور پر موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حسینہ کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش سیاسی ہلچل کا شکار ہے، اور فروری 2026 میں متوقع انتخابات کی مہم میں تشدد نے بھی معاملات خراب کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق کریک ڈاؤن کے دوران 1,400 تک افراد ہلاک ہوئے، جو اس مقدمے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ حسینہ اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

گزشتہ ہفے فیصلے کی تاریخ مقرر کیے جانے پر چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’انصاف قانون کے مطابق فراہم کیا جائے گا‘۔

انہوں نے مزید کہاتھا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت دانشمندی سے کام لے گی، انصاف کی پیاس بجھائی جائے گی، اور یہ فیصلہ جرائمِ انسانی کے خاتمے کا نشان بنے گا‘۔

پراسیکیوٹرز نے پانچ الزامات دائر کیے، جن میں قتل کو روکنے میں ناکامی بھی شامل ہے، جو بنگلہ دیش کے قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

عدالت نے غیر حاضری میں مہینوں تک شہادت سنی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حسینہ نے بڑے پیمانے پر قتل کا حکم دیا تھا، شیخ حسینہ واجد نے اس مقدمے کو ’قانونی مذاق‘ قرار دیا۔

ان کے شریک ملزمان میں سابق وزیر داخلہ اسدالزمان خان کمال(مفرور) اور سابق پولیس چیف چوہدری عبداللہ المامون شامل ہیں، جو حراست میں ہیں اور جرم قبول کر چکے ہیں۔

حسینہ واجد کو عدالت کے لیے ریاستی وکیل فراہم کیا گیا لیکن انہوں نے عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ تمام الزامات کو رد کرتی ہیں۔

اکتوبر میں اے ایف پی کے ساتھ تحریری انٹرویو میں حسینہ نے کہا کہ مجرم قرار دینے کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ ہے اور جب فیصلہ آئے گا تو انہیں حیرت نہیں ہوگی۔

بحران کی شدت:
فیصلے کی تاریخ مقرر ہونے پر عدالت کے اردگرد سیکیورٹی فورسز موجود تھیں اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے چیک پوائنٹس مضبوط کیے گئے۔

ڈھاکہ میونسپل پولیس کے ترجمان طالب الرحمٰن نے کہا کہ پیر کے فیصلے کے لیے پولیس ہائی الرٹ پر ہے اور دارالحکومت کے اہم چوراہوں پر چیک پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں، تقریباً آدھی تعداد یعنی 34 ہزار میں سے 17ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر ہوں گے۔

وزارت داخلہ کے عارضی سربراہ جہانگیر عالم چوہدری نے صحافیوں سے کہا کہ حکومت تیار ہے اور کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔

اس ماہ محمد یو نس کی حکومت کی عمارتوں، بسوں اور مسیحی مقامات پر دیسی ساختہ بم پھینکے گئے تھے، زیادہ تر پیٹرول بم تھے۔

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس ماہ بھارت کے نمائندے کو طلب کرکے مطالبہ کیا تھا کہ نئی دہلی مفرور حسینہ واجد کو صحافیوں سے بات کرنے اور نفرت پھیلانے کے لیے پلیٹ فارم دینے سے روکے۔

حسینہ واجد اب بھی سرکشی کر رہی ہیں، انہوں نے اکتوبر میں کہا کہ وہ ’ان بھیانک دنوں میں جانیں کھونے والے سب افراد کے لیے غمگین ہیں، جب طلبہ کو سڑکوں پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، ان کے بیانات نے کئی افراد کو غصہ دلا دیا جو کہتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار قائم رکھنے کے لیے بے رحم کوشش کی۔

حسینہ نے یہ بھی خبردار کیا کہ ان کی سابقہ حکمران جماعت عوامی لیگ پر عبوری حکومت کی پابندی ملک میں 170 ملین افراد خاص طور پر انتخابات سے قبل کے لیے سیاسی بحران کو بڑھا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • انسانیت کیخلاف جرائم کا کیس،بھارت نواز شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم
  • بنگلہ دیشی عدالت نے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم دے دیا
  • سزائے موت کا حکم، بنگلادیش کا بھارت سے فوری طور پر شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ
  • بنگلادیش نے بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کردیا
  • بنگلہ دیش کا بھارت سے مفرور ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا
  • بنگلادیشی عدالت نے شیخ حسینہ کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مجرم قرار دیدیا، سزائے موت کا حکم
  • بنگلہ دیش کی عدالت نے حسینہ واجد کو انسانیت کیخلاف جرائم کا مرتکب قرار دیدیا
  • حسینہ واجد پر انسانیت کیخلاف جرائم کے مقدمے کا فیصلہ کل سنایا جائے گا
  • انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ، بنگلہ دیشی عدالت حسینہ واجد کے خلاف فیصلہ کل سنائے گی