اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مئی 2025ء) نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان امریکی پابندیوں کے بعد شدید دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ خان کی ای میل تک رسائی ختم کر دی گئی ہے اور ان کے برطانیہ میں موجود بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں، جب کہ اس عدالت کے امریکی عملے کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ امریکا واپسی کا سفر کریں، تو انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

یہ اقدامات اس وقت سامنے آئے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال فروری میں کریم خان اور عدالت کے دیگر اہلکاروں پر پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کی وجہ نومبر 2024 میں آئی سی سی کے ججوں کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیردفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری بنے، جن پر غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب، شہریوں کو نشانہ بنانے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو روک دینے جیسے الزامات ہیں۔

(جاری ہے)

اسرائیل ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کے بعد سے آئی سی سی کو کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے۔ متعدد غیر سرکاری تنظیموں نے عدالت کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے، بعض نے تو عدالت کی طرف سے لکھی گئی ای میلز کا جواب دینا بھی چھوڑ دیا ہے۔ مائیکروسافٹ نے کریم خان کا سرکاری ای میل اکاؤنٹ بند کر دیا، جس کے بعد انہیں ایک سوئس کمپنی کی سروس استعمال کرنا پڑی۔

اس عدالت کے اندر سے اطلاعات یہ ہیں کہ خان کے کئی ساتھیوں نے اپنے عہدے چھوڑ دیے ہیں، جب کہ کچھ کو امریکا واپس جانے پر گرفتاری کا خدشہ ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر لِز ایونسن نے ان پابندیوں کو ''متاثرین کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ‘‘ قرار دیا ہے۔ عدالت کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا، البتہ عدالت کی صدر جج ٹوموکو اکانے نے فروری میں کہا تھا کہ یہ پابندیاں ''قانون کی حکمرانی پر مبنی عالمی نظام پر سنگین حملہ‘‘ ہیں۔

ان پابندیوں کے تحت امریکی اور غیر امریکی افراد یا ادارے، جو کریم خان کو مالی، مادی یا تکنیکی مدد مہیا کریں گے، انہیں جرمانے اور قید کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ عدالت کے وکلاء کے مطابق ان پابندیوں نے نہ صرف اسرائیل سے متعلق تحقیقات بلکہ سوڈان جیسے دیگر بحرانی معاملات پر بھی کام روک دیا ہے۔ عدالت کی جانب سے سابق سوڈانی صدر عمر البشیر پر نسل کشی کے الزامات کے تحت جاری وارنٹ پر کارروائی عملاً رک چکی ہے۔

اس صورتحال میں اس بین الاقوامی عدالت کے بعض عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ آئی سی سی آئندہ چار سال کس طرح گزارے گی۔ عدالت کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ''یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس عدالت کا وجود باقی کیسے رہے گا۔‘‘

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل 2020 میں آئی سی سی کی (اب سابقہ) پراسیکیوٹر فاتو بنسودا پر بھی پابندیاں لگا دی تھیں، جنہیں صدر جو بائیڈن نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ختم کر دیا تھا۔

تاہم اب ایک بار پھر اس عدالت کو واشنگٹن کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔

اس دوران خود کریم خان بھی الزامات کی زد میں ہیں۔ عدالت کے دو ملازمین نے ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے، جس کی خان نے سختی سے تردید کی ہے۔ اقوام متحدہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے اور اطلاعات کے مطابق خان نے الزامات لگانے والوں کی حمایت کرنے والے عملے کے کچھ افراد کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔

شکور رحیم اے پی کے ساتھ

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بین الاقوامی ان پابندیوں پابندیوں کے اس عدالت عدالت کے کے بعد دیا ہے

پڑھیں:

جنگ بندی یا سیاسی ماتحتی؟ ٹرمپ کا غزہ پلان اور اس کے نتائج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251004-03-4

 

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

غزہ کی تازہ ترین تباہی اور ڈونلڈ ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ دنیا کی موجودہ سیاست کا عکاس ہے ایک ایسا منصوبہ جو بظاہر جنگ بندی اور امداد کا وعدہ کرتا ہے مگر عملی اور قانونی جواز کی جگہ سیکورٹی کی شرائط کے ذریعے فلسطینی خود ارادیت کو پس پشت ڈالنے کا امکان زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی خونریز لہر نے غزہ کو انسانی المیے کے بیچ میں ڈال دیا، لاکھوں بے گھر اور ہزاروں متاثرہ افراد نے بین الاقوامی برادری سے فوری اور غیرمشروط انسانی رسائی کا مطالبہ کیا۔ اسی پس منظر میں ٹرمپ کی پیشکش اور نیتن یاہو کی اس کی تائید، بلاشبہ ایک سیاسی دستاویز ہے جس کا محور اسرائیل کے خدشات کو پْشت پناہی دینا ہے نہ کہ فلسطینیوں کے حق ِ خود ارادیت کو یقینی بنانا۔ منصوبے کی مرکزی شقیں، 72 گھنٹے میں یرغمالیوں کی رہائی، ہتھیار چھوڑنے کی صورت میں معافی، غزہ کی بحالی کے لیے بین الاقوامی ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ کی تشکیل، اور حماس کو حکومت سے بالواسطہ یا براہِ راست باہر رکھنا اگرچہ زبانی طور پر امداد اور تعمیر نو کا وعدہ کرتی ہیں مگر ان شرائط کا مطلب سیاسی نمائندگی کا خاتمہ، مقامی مزاحمتی ڈھانچوں کی غیرموجودگی، اور غزہ کے مستقبل پر بیرونی کنٹرول ہے۔ جب کسی علاقے کی منتخب نمائندہ جماعت کو باضابطہ طور پر خارج کر دیا جائے تو امن معاہدہ کا جواز شکوک کی زد میں آتا ہے؛ امن تبھی پائیدار ہو سکتا ہے جب شامل فریقین کو مذاکراتی میز پر اپنا کردار اور وقار حاصل ہو۔

بین الاقوامی ردعمل نے بھی اس منصوبے کی جھلکیوں کو بے نقاب کیا ہے: فلسطینی اتھارٹی کی تعریفی لہجہ سے لے کر فلسطینی اسلامی جہاد کے سخت ردِعمل تک، مسلم ممالک کے مخلوط موقف سے واضح ہوتا ہے کہ اس پلان نے علاقائی مفادات اور طاقت کے توازن کو ہلکا سا بدل دیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کی طرف سے تحفظات اور ترامیم کی درخواست، اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد کے حوالے سے واضح عدم اتفاق، یہ بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کی قبولیت یکساں نہیں۔ مزید براں ٹونی بلیئر جیسے ناموں کا شامل ہونا تاریخی پس ِ منظر کے سبب متنازع ہے، عراق پر مبینہ غلط بیانی اور اس کے بعد آنے والی تنقید نے بلیئر کی غیرجانبداری پر سوال اٹھا دیا ہے، لہٰذا غزہ جیسے نازک معاملے میں ان کا مرکزی کردار شکوک و شبہات کو مزید تقویت دیتا ہے۔

قانونی اور اخلاقی حوالوں سے بھی متعدد اہم سوالات جنم لیتے ہیں: آیا جنگ بندی کو جو سیاسی قیمت چکانی پڑے گی وہ بین الاقوامی قانون کے تحت جائز ٹھیرے گی؟ اجتماعی سزا، جبراً تبادلے کے خدشات، اور غیرجانبدارانہ انسانی رسائی پر شرائط لگانا یہ سب عالمی انسانی حقوق اور جنگی قوانین کے زاویے سے خطرناک ہیں۔ امداد اور تعمیر نو کے وعدے تبھی قابل ِ قبول ہوں گے جب لا محدود اور مشروط نہ ہوں، اور مقامی شفاف نگرانی کے ساتھ منظم ہوں نہ کہ ایسے اداروں کے ذریعے جو مقبولیت یا نمائندگی کے تقاضوں کو نظر انداز کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ عسکری حل کبھی دیرپا امن کا ضامن نہیں رہے۔ اگر حماس نے منصوبہ قبول کر لیا تو عارضی طور پر یرغمالیوں کی رہائی اور فوری امدادی فوائد ممکن ہیں؛ مگر مسئلہ کی جڑ مقبوضہ اراضی، عبوری انتظامات، فلسطینی سیاسی حقوق اور مستقبل کی ریاستی حیثیت ان اقدامات سے حل نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب، اگر حماس نے مسترد کیا تو ٹرمپ کی دھمکیوں اور اسرائیل کی فوجی طاقت کی دھمکی کا نتیجہ مزید انسانی نقصان اور خطے میں کشیدگی کی فضا میں اضافہ ہوگا، جسے علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی تنہا پن کے طور پر واپس لوٹا جا سکتا ہے۔

عملی اور پالیسی سفارشات واضح ہیں: اولاً، فوری اور غیرمشروط جنگ بندی، انسانی امداد تک مکمل رسائی، اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بامعنی پیش رفت سب سے فوقیت ہونی چاہیے۔ ثانیاً، غزہ کے مستقبل کا حل کسی بیرونی ’’بورڈ‘‘ یا مشروط ٹیکنیکل کمیٹی کے ہاتھ میں دے کر نہیں نکالا جانا چاہیے؛ اس عمل میں مقامی نمائندوں، سول سوسائٹی، اور فلسطینی اتھارٹی کو لازماً شامل کیا جائے تاکہ خود ارادیت کا احترام برقرار رہے۔ تیسرا، تعمیر نو فنڈز کی نگرانی بین الاقوامی شفاف میکانزم (جیسے اقوامِ متحدہ کے تحت بااختیار مشن) کے ذریعے کی جائے، جس میں بدعنوانی روکنے کے ساتھ ساتھ مقامی بھرتی اور فائدہ اٹھانے کے معیارات طے ہوں۔ چوتھا؛ علاقائی شراکت داروں (مصری، قطری، ترکی، سعودی اور دیگر) کو مذاکرات میں مؤثر اور غیرجانبدار ثالث کے طور پر شامل کیا جائے، نہ کہ محض طاقت کے ترجمان۔ آخر میں، مسلم امہ اور بین الاقوامی برادری کو متحد اور اصولی موقف اختیار کرنا چاہیے: انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور فلسطینی حق ِ خود ارادیت کے دفاع کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔

غزہ میں خون ریزی نے واضح کر دیا ہے کہ وقتی عسکری فتوحات یا سیاسی دستاویزات سے زیادہ ضروری انسانی انصاف، قانونی جوابدہی اور ایک جامع سیاسی حل ہے۔ جو امن انصاف اور وقار کے ساتھ قائم نہ ہو، وہ عارضی ہوگا اور اسی عارضیت کی قیمت غزہ کے معصوم شہری آج چکا رہے ہیں۔ عالمی برادری، علاقائی طاقتیں اور بالخصوص مسلم ممالک پاکستان سمیت اس وقت تاریخی موقع رکھتے ہیں کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو اقتدار و مفادات سے بالاتر رکھتے ہوئے ایک ایسی راہ تلاش کریں جو خون کو رکا سکے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق واپس دلوا سکے۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • لاہور: جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی جانب سے حریت رہنما یاسین ملک پر غیر حقیقی الزامات عائد کرنے کےخلاف لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جارہا ہے
  • ملٹری عدالت سے سزاﺅں کے خلاف اپیل کا حق نہ دینے کے خلاف درخواست سماعت کےلیے مقرر
  • پاکستان کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیرمقدم
  • پاکستان کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیر مقدم
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • جنگ بندی یا سیاسی ماتحتی؟ ٹرمپ کا غزہ پلان اور اس کے نتائج
  • سعودی عرب میں بین الاقوامی باز اور شکار کی نمائش 2025 کا آغاز، 45 ملکوں کے 1300 سے زائد شرکا شریک
  • ٹنڈوجام،پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ،عوام مشکلات کا شکار
  • کمار سانو نے سابقہ اہلیہ کو الزامات عائد کرنے پر قانونی نوٹس بھیج دیا
  • ٹرمپ منصوبے میں ہماری پیش کردہ ترمیم نہ کی گئی تو ناکام ہو جائیگا، جہاد اسلامی فلسطین